یومِ سیاہ30 مارچ/ڈاکٹر عافیہ

منگل 31 مارچ 2015

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

”عافیہ موومنٹ“ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ اس کی رہائی کے لیے کئی سالوں چلا رہی ہے۔ اس سلسلے میں عافیہ موومنٹ کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی بنائی گئی ہے جس پر ڈاکٹر عافیہ86سالہ امریکہ قیدی کے متعلق معلومات فرا ہم کی جاتی ہیں ۔عافیہ صاحبہ کی زندگی پر لٹریچر بھی تیار کر کے تقسیم کیا گیا ہے۔ شاعروں نے عافیہ کی مظلومیت پر شعر بھی کہے ہیں۔

اس پر شعری مجموعہ بھی شائع ہوا ہے۔ سول سوسائٹی نے بھی بھرپور ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کی ساری سیاسی/ دینی پارٹیوں نے عافیہ کی رہائی کے لیے آواز اُٹھائی ہے ۔ کئی دفعہ مظاہرے اور ریلیاں بھی نکالی گئیں ہیں۔عدالت نے بھی ایک رٹ پیٹیشن پر حکومت کو آڈر دیا تھاکہ قیدیوں کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت امریکہ سے بات کر کے عافیہ کی واپس پاکستان لانے کی بات چیت کی جائے۔

(جاری ہے)

سب حکمرانوں نے پاکستان کی عوام کے سامنے عہد کیا تھا کہ عافیہ میری بیٹی ہے میں اسے واپس لاؤ ں گا۔ کیا کیا بیان کیا جائے۔ اس باتوں کو ویسے تو پورا پاکستان، بلکہ پوری دنیا مظلومہ عافیہ کے متعلق جانتی ہے۔ اس سارے کام کا سہرا ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ کے سر جاتا ہے جس کے سارے شب روز اپنی بہن کی رہائی کے لیے صرف ہو رہے ہیں۔ اس خاتون نے اپنی بہن کی رہائی کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے ملک اور دنیا کا کونہ کونہ چھان مارا ہے۔

کون سی جگہ ہے جہاں یہ خاتون نہ گئی ہو۔ کون سی عدالت ہے جس کا دروازہ اس خاتون نے نہیں کٹھکٹھایا ہو۔ ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ اور عوام ان تمام کاموں پر ہر ایک کا فرداً فرداً شکریہ ادا کرتی ہے ۔اب اس خاتون نے ۳۰/ مارچ کو عافیہ کے اغوا کے ۱۲/ سال مکمل ہونے پر یومِ سیاہ منانے کی اپیل کی ہے۔ ہم ملک کے اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹر حضرات سے درخواست کرتے ہیں کہ ۳۰ مارچ کو یوم سیاہ کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن شائع کریں۔

ہفتہ وار،پندرہ روزہ ، ماہ وار اور سہہ ماہی رسالے نکالنے والے حضرات سے بھی درخواست ہے کہ اپنے رسالوں میں یوم سیاہ کے حوالے سے تحریریں شائع کریں۔ لکھاری حضرات جو پہلے بھی عافیہ کی رہائی کے لیے اپنا قلم استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس یوم سیاہ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اپنے کالموں میں یوم سیاہ پر زرو دے کر اس معاملے کو اُٹھائیں۔سول سوسائٹی سے بھی درخواست ہے کہ بھی یوم سیاہ کے حوالے سے پروگرام ترتیب دے۔

اس میں مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں دعائیہ تقریبات بھی منعقد کی جا سکتی ہیں۔سیاسی جماعتیں پہلے بھی بھر پور طور پر عافیہ کے لیے آواز اُٹھاتی رہی ہیں ۔ ان سے بھی گذارش ہے کہ جس طرح مناسب سمجھیں عافیہ کے لیے آواز اُٹھایں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اور سینیٹ کے منتخب ارکان سے درخواست ہے کہ وہ بھی یوم سیاہ کوزیر بحث لائیں۔ اس پر تقاریریں ہوں اور قراردادیں پاس کی جائیں۔


صاحبو! کیا ڈاکٹرعافیہ صدیقی ۸۶ سالہ امریکی قیدی ایک پاکستانی مسلمان مظلوم خاتون نہیں ہے؟ کیا اس خاتون کا حضرت ابوبکر صدیق  (جس سے مسلمانوں کا روحانی رشتہ ہے) سے خاندانی تعلق نہیں ہے؟کیا ہم سب لوگ ایک مظلومہ امت مسلمہ کے حق میں ایسے پروگرام نہ کریں گے جس کو ۳۰ مارچ کو کراچی سے اس کے تین معصوم بچوں کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا۔ اُس کو اغوا کر کے صلیبیوں کے حوالے کرنے والے نے کس شان سے کہا تھا کہ میں نے ۶۰۰ مسلمانوں کو ڈالر کے عوض امریکہ کے حوالے کیا ہے۔

کیا یہ ڈکٹیٹر اس وقت مقافاتِ عمل کے تحت کئی مقدمات میں ملوث نہیں ہے۔ کل تک پاکستانی قوم کو مکادکھانے والا چھپ کر نہیں بیٹھا ہوا؟عافیہ مظلومہ کا کسی کو بھی پتہ نہیں تھا کہ کہاں ہے۔ اس کی بوڑھی ماں، بہن اور خاندان کے دوسرے لوگوں پر کیا گزری تھی، یہ وہی جانتے ہیں۔ بھلا ہوں ایک برطانوی خاتوں صحافی ایورن ریڈلے کا جو طالبان کی قید سے رہا ہوئی تھی اور طالبان کے اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان بھی ہو گئی ہیں جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں نے بلگرام کی جیل میں قید، ایک قیدی نمبر ۶۵۰ کی سسکیاں اور چیخیں سنی ہیں۔

بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مظلوم خاتون اغوا شدہ پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں۔ اس دوران میں ڈکٹیٹر کے کارندوں نے مہم چلائی ہوئی تھی کہ یہ خطرناک خاتون ہے اس کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ یہ نیورولجسٹ، نیوکلیئر سائنٹسٹ ہے۔ جو خطرناک اسلحہ بنانے میں ماہر ہے۔ پاکستانی میڈیا بھی ان کونیورولجسٹ ،نیوکلےئر سائنٹسٹ اور امریکی شہری لکھتا رہا ہے۔

مگر ان کی بہن فوزیہ صدیقی صاحبہ نے اپنے ایک انٹرویو جو نوائے وقت سنڈے میگزین مورخہ ۱ ۱/کتوبر ۲۰۱۰ ء ء میں شائع ہوا تھا کہا ” کہ حکومت کے نمائندے اور بعض نامور صحافی غلط بیانی کر رہے ہیں کہ وہ نیوکلےئر سائنٹسٹ اور امریکی شہری ہے۔بلکہ وہ leaning through ammitaton میں پی ایچ ڈی ہے“ بچوں کی تعلیم میں امریکا سے پی ایچ ڈی کی۔ امریکی عدالت نے عافیہ کو القاعدہ اہلکار نہیں کہا۔

وہ پاکستانی شہری ثابت ہوئی۔ بہر حال ایورن ریڈلے کے انکشاف کے بعد امریکہ نے اسے اپنے ملک میں منتقل کیا اُس پر مقدمہ قائم کیا۔ کہ اس نے جیل کے دوران امریکی سپاہیوں پر رائفل تانی اور فائر کیا۔ کوئی سپاہی زخمی یا مرا نہیں بلکہ عافیہ خود ہی زخمی ہوئی ۔جس کو بعد میں زخموں میں چور چور امریکی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس کو وہاں پر موجود سب لوگوں نے دیکھا۔

پھر بھی متحسَب یہودی جج نے عافیہ کو۸۶ سال کی قید سنائی۔ جو امریکا کی عدالتی تاریخ کا انوکھا فیصلہ ہے۔ اس ناجائز فیصلہ کو سن کر ایک امریکی دانشور نے اُسی موقعہ پر تاریخی بات کی تھی کہ یہ سزا عافیہ کو نہیں بلکہ مسلمانوں کو دی گئی ہے۔ ایک مظلوم مسلمان تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی خاتون پر افغانستان اور امریکا میں کیا کیا ظلم کیے گئے یہ ایک طویل داستان ہے جو ۱۲/ سال سے پاکستان اور دنیا میں اخبارات میں بیان کیے گئے ہیں۔

مگر ہمارے حکمران آج تک اُس کی سزا ختم نہ کروا سکے ۔ جبکہ اُس کے ہاتھ سے کوئی قتل بھی نہیں ہوا۔ ریمنڈ ڈیوس جس نے پاکستان کے تین شہریوں کا قتل کیا تھا ۔جو سی آئی اے کا مشہور معروف ایجنٹ بھی تھا اُس کو امریکا کے حوالے کر دیا گیا۔اپنے دوسرے ایجنٹ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو واپس مانگنے کی کئی دفعہ کو شش بھی کرتا رہا ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں میں اتنی جرأت بھی نہیں کہ وہ عافیہ صدیقی کو واپس مانگ سکیں۔اللہ عافیہ صدیقی مظلومہ امت مسلمہ کا حامی و مدد گار ہو آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :