سیاستدانوں کا شکوہ !

منگل 31 مارچ 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کئی بار ارادہ کر چکا ہوں کہ سیاست اور سیاستدانوں پر نہیں لکھوں گا لیکن مجھے ہارنے کا شوق ہے یا شاید میں بے بس ہو جاتا ہوں ۔سیاست کوئی ایسی بری شئے بھی نہیں مگر کیا کیا جائے کہ اس ملک کے سیاستدانوں نے کچھ چھوڑا ہی نہیں ۔سعید مراد جو ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھ کر 18کروڑ عوام کو میرٹ، انصاف اور جمہوریت کا بھا شن دیتے تھے ان کی اپنی ڈگر جعلی نکلی۔

معلو م شد کہ حاجی نیست۔ ٹی وی اسکرینوں پر بیٹھ کر جب وہ میرٹ اور انصاف کا بھاشن دیتے تھے تو لگتا تھا یار یہ بندہ صاف ہے ، میرٹ کی بات کرتا ہے اور جمہوریت کا حامی ہے لیکن آج اپنی سادگی پے قہقہے لگانے کو دل کرتا ہے ۔ سیاستدان ہو اور بے داغ نکلے شاید کبھی ماضی میں ایسا ہوتا ہو گا مگرآج کل تویہ جنس نایاب ہے۔ سیاستدانوں کو شکوہ ہے کہ عوام ان کی عزت نہیں کرتے ، انہیں گالیا ں دی جاتی ہیں تو عزت مآب سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ پھر عوام کو بتا دیں وہ سعید مراد کے گلے میں ہار ڈالیں یا انہیں کندھوں پر بٹھا کر پشاور یونیورسٹی کا دورہ کروائیں ۔

(جاری ہے)

لوگ کہتے ہیں پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے ، جھوٹ بولتے ہیں سب ، اغیار کی زبان بولتے ہیں ، امریکہ اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ ذرا سعید مراد کو دیکھو ، دنیا بھر کی خاک چھا ن لو آپ کو ایسا ٹیلنٹ نظر نہیں آئے گا، صرف ایک گھنٹے میں تین تین گھنٹے کے دو پیپر حل کیئے اور نہ صرف حل کیئے بلکہ آدھے گھنٹے بعد رزلٹ بھی آ گیا اور وہ بدرجہ اعلیٰ پاس بھی ہو گئے، ہے کہیں ایسی مثال ؟پھر بھی لوگ باتیں کرتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ نہیں ۔


پچھلے دنوں شہباز شریف کی کابینہ کے ایک وزیر سے بات ہو رہی تھی ، کہنے لگے لوٹ مار سب کرتے ہیں احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے ، کیا جرنیلوں نے بڑے بڑے بنگلے اور بیرون ملک جائیدادیں نہیں بنائی ، کیا ججوں نے کرپشن نہیں کی اور کیا باقی سب دودھ میں دھلے ہوئے ہیں ؟ تو میں نے عرض کیا جناب پہلی بات تو یہ ہے کہ جرنیل سیاستدانوں کی کرتوتوں کی وجہ سے سیاست میں آتے ہیں اور مال بناتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ کم از کم آج تک کسی جرنیل کی ڈگر ی جعلی نہیں نکلی اور آپ میں تو ماشاء اللہ ایسے حاجیوں کی ایک لمبی لائن ہے ۔

شہباز شریف کہتے ہیں پنجاب سے رشوت کلچر اور کرپشن کا خاتمہ کر دیااور عوام اب خوشحال ہیں، نعرہ لگانے کو دل چاہتا ہے ، دل کرتا ہے آگے بڑھ کر میاں صاحب کے ماتھے پر بوسہ دوں ۔ شاید انہیں حقیقت کا ادراک نہیں یا انہوں نے عوام کو اتنا ہی پاگل سمجھ لیا ہے کہ یہ تو بھیڑ بکریاں ہیں جو بھاشن دینا ہے دیتے جاوٴ کونسا کسی نے پوچھ لینا ہے کہ جناب جو آپ کہہ رہے ہیں حقیقت میں بھی ایسا ہے یا یونہی کھٹے دہی کو میٹھا بنا کر بیچا جا رہا ہے ۔

پنجاب حکومت نے پچھلے سال تیس ہزار ایجوکیٹرز بھرتی کیئے تھے ، چھ ماہ بعد تنخواہ جاری ہوئی تھی اور ہر امیدورا سے حسب توفیق نذرانہ طلب کیا گیا تھا ، اگر کوئی نذرانہ نہیں دیتا تو کر لو جو کرنا ہے تنخواہ جاری نہیں ہو گی۔ گوجرانوالہ سے ایک قاری نے میل کی مئی 2014میں جائننگ دی تھی، سیلری کے اجراء کے لیئے چکر لگاتا رہا ، کوئی شنوائی نہ ہوئی ، کلرک کا مطالبہ تھا پہلے ہماری مٹھی گرم کرو پھر ڈاکومنٹس آگے فارورڈ کیئے جائیں گے، جنہوں نے مٹھی گرم کی ان کی تنخواہ بھی جاری کر دی گئی اور جو رشوت کلچر سے بچنا چاہتے تھے لٹکے رہے اور بلآخر ہار ماننی پڑی۔

اور یہ صرف کلرک کی حد تک نہیں بات اوپر تک جاتی ہے ، کلرک قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں انہیں اوپر دینا پڑتا ہے ،اتنے فیصد اکا وٴنٹ آفس کا اور اتنا فلاں کا ۔ آج کے دور میں اگر اکاوٴنٹ آفس بغیر پیسے کے کام کر دے تو میرے خیا ل میں مقامی لوگوں کو فورا ان کے ہاتھ ہر بیعت کر لینی چاہیئے۔ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں یہ 18کروڑ عوام انصاف پسند، میرٹ پر یقین کرنے والے اور مہذب شہری بننا چاہتے ہیں لیکن یہ گلا سڑا سسٹم انہیں بننے نہیں دیتا۔

شاید اب ہمارے کلرک بابووٴں کو بھی اپنے رویے پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، کوئی ڈیپارٹمنٹ ہو ، کوئی شعبہ یا کوئی فائل ، ہو نہیں سکتا کہ وہ کسی کلرک کے ہاتھ سے ہو کر نہ گزرے ، اگر ایک کلرک کسی ناجائز اور غلط کام سے انکار کر دے تو شاید کافی حد تک معاملات سدھر سکتے ہیں لیکن کسی کو کیا ضرورت پڑی کہ وہ حاجی ثنا ء اللہ بنے جب سب مال بنا رہے ہیں تو ان کا بھی حق بنتا ہے ۔

چلو بنا لو مال، آخر کب تک ،سنا ہے اسکندر دنیا سے خالی ہاتھ گیا تھا۔
شہباز شریف کہتے ہیں پنجاب رول ماڈل صوبہ بنتا جا رہا ہے ، ہر طرف انصاف ہے ،ترقی ہے ، میرٹ کی بنیاد پر کام ہوتے ہیں اور خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیئے خصوصی سیل قائم کیئے گئے ہیں ۔راجن پور سے جو ایک قاری نے بتایا ہے وہ پڑھ لیں پھر اس کے بعد آپ جو رائے قائم کرنا چاہیں آپ آزاد ہیں ۔

راجن پور میں ایک ستر سالہ بڈھے نے پندرہ سالہ بچی سے زبردستی شادی کر لی ہے ، بچی کو معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے اور جب معلوم ہوا اس وقت چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ یہ ظلم کیسے کیا گیا آپ بھی سن لیں ، والدین کو پیسے دے کر پہلے ہی خاموش کر وادیا گیا تھا ،ا یک دن وہ بڈھا بچی کے گھر آیا اور یہ کہہ کر اسے اپنے ساتھ لے گیا کہ بینظیر انکم سپورٹ کے تحت آپ کے کچھ پیسے آئے ہیں وہ لینے جانا ہے ، بچی کو ساتھ لیا ، عدالت کے باہر جا کر بچی کو باہر بٹھا یا اور اندر جا کر کا غذی کاروائی پوری کی ، تھوڑی دیر بعد باہر آیا ، نکاح نامہ ہاتھ میں تھا ، بچی ان پڑھ تھی کچھ سمجھ نہ سکی ، کہنے لگا پیسے لینے کے لیئے یہاں پر تمہارے دستخط ضروری ہیں ، بچی نے دستخط کر دیے ،عمر پہلے ہی اٹھارہ سال لکھوائی تھی اور یوں ایک پندرہ سالہ معصوم بچی ستر سالہ بڈھے کے نکاح میں چلی گئی ۔

اس ظلم کے باوجود بھی شہاز شریف اگر کہتے ہیں کہ پنجاب ترقی کر رہا ہے اور خواتین اور بچوں کو حقوق مل رہے ہیں تو میاں صاحب کو میرا سلام۔
آخر میں ایک واقعہ سن لیں ، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ عوام سیاستدانوں کی عزت کیوں نہیں کرتے ۔ واقعہ لکھنے کو دل نہیں چاہ رہا ، ہمت بھی نہیں اور پتا نہیں ایڈیٹوریل بورڈ اسے چھاپتا بھی ہے یا نہیں لیکن میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں ۔

کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے ، پنجاب کابینہ کے ایک وزیر کسی پروگرام میں مدعو تھے ، لاہور کی ایک پبلک یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس جو اپنے کسی پروجیکٹ پر کام کر رہی تھیں ، وہ بھی اس تقریب میں شامل تھیں ، وزیر صاحب پروگرام میں تشریف لا ئے تو ان اسٹوڈنٹس نے سوچا ہم جس پروجیکٹ پر کام کر رہی ہیں موصوف اسی شعبے کے وزیر ہیں اگر ان کے ویوز بھی لے لیئے جائیں تو پروجیکٹ کی تکمیل میں آسانی رہے گی اور پروجیکٹ بھی اچھا ہو جائے گا ، اسٹوڈنٹس نے ان سے علیحدہ پانچ دس منٹ مانگے ، پروگرام ختم ہوا تو وہ اسٹوڈنٹس کو لے کر سائیڈ پے بیٹھ گئے اور انہیں انٹر ویو ریکارڈ کروادیا ۔

اگلے دن جس یونیورسٹی کی وہ اسٹوڈنٹس تھیں اس یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو فون گیا ، پروفیسر صاحب وزیر موصوف کے دوست تھے،وزیر صاحب کہنے لگے یار وہ کل جن اسٹوڈنٹس نے انٹر ویو کیا تھا ،ان کا پتا چلاوٴ وہ کس ڈیپارٹمنٹ سے تھیں، ان سے بات کرو ، اور ۔۔۔۔۔ مجھے ان کا نمبر چاہیئے۔میرے خیال میں اس کے بعد سیاستدانوں کویہ شکوہ نہیں کرنا چاہیے کہ عوام ان کی عزت نہیں کرتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :