آسیہ اندرابی ، سید علی گیلانی اور کشمیری عوام
اتوار 29 مارچ 2015
(جاری ہے)
آسیہ اندرابی کی پچیس سالہ سیاسی جدوجہد پر ڈالی جانیو الی طائرانہ نگاہ پتہ دیتی ہے کہ یہ جری خاتون اپنی زندگی کے متعدد قیمتی ماہ وسال بھارتی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزار چکی ہیں ۔
اس کے باوجود وہ استقامت و استقلال کا ایسا کوہ گراں ثابت ہوئی ہیں کہ زبان حال سے کہتی ہیں ”حق بات کہے اور ڈٹ جائے ،پھر چاہے گردن کٹ جائے“۔آسیہ اندرابی کی سیاسی جدوجہد اور صبرو ثبات کا مظاہرہ درحقیقت حریت پسندوں کیلئے مشعل راہ ہے ۔خدا غریق رحمت کرئے ۔فلسطینی رہنما شیخ یاسین فرمایا کرتے تھے ”ہم مزاحمت کرتے ہیں اسی لئے زندہ ہیں“۔یہ حقیقت ہے کہ حریت کی تحریکوں کا وجود مزاحمت کی بدولت زندہ رہتا ہے بصورت دیگر جارح اور قابض حکومتیں ان کے استحصال میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتیں۔بھارت کو یہ ادراک حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اڑسٹھ سالوں سے وہ کشمیر پر قابض ہے اور بلاشرکت غیرے جموں و کشمیر کی قسمت کا مالک بنا بیٹھا ہے اس کے باوجودوہ جموں وکشمیر کے عوام کو اپنی جانب مائل نہیں کر سکا ۔ خطہ کشمیر کے عوام الحاق پاکستان کے نعرے لگاتے اور بھارتی پرچم نذر آتش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔خواتین اور طالبات پاکستان کا قومی ترانہ گنگناتی اور سبز ہلالی پرچم لہرانے کو سعادت تصور کرتی ہیں ۔کشمیریوں کی نمائندہ جماعت حریت کانفرنس بھارتی یوم آزادی 15اگست کو یوم سیاہ کے طور پر جبکہ 14اگست کو پاکستان کا جشن آزادی مناتے ہیں ۔کہاں گئے بھارتی دانشور اور تھنک ٹینک جو نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں اور دہلی سرکار کو یہ باور نہیں کروا رہے کہ وہ کشمیر میں ناکام ہو گئے ہیں ۔ جارحیت ہار گئی ہے اور فوجی قوت کی بنیاد پر کشمیر کو زیر تسلط رکھنے کی پالیسی شکست کھا چکی ہے ۔ قوت اور طاقت کی بنیاد پر ریاستوں کو نظام کی حد تک تو فتح کیا جاسکتاہے تاہم وہاں رہائش پذیر انسانوں کو زیرنہیں کیا جاسکتا ۔ انسانوں کی تسخیر کیلئے قلوب تک رسائی حاصل کرنا پڑتی ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے دل بھارت سے کیونکر ہمدردی رکھ سکتے ہیں جبکہ یہی بھارت ان کے بچوں کی یتیمی اور عفت مآب بہنوں بیٹیوں کی بے ردائی کا حقیقی مجرم بھی ہو ۔ کشمیری عوام کے دلوں میں بھارت کیلئے کیسے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں کہ جب انہیں معلوم ہو کہ کشمیر کے معاملے میں بھارت نے ہمیشہ جھوٹ اور دوغلے پن کا مظاہرہ کیا ہے ۔30مارچ 1951ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جب اپنی قرار داد میں پاکستان اور بھارت کو پابند کرتی ہے کہ ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدرانہ رائے شماری کا اہتمام کریں تو اس پر بھارتی حکومت سر تسلیم خم کرتے ہوئے آزادانہ رائے شماری کیلئے یقین دہانی کرواتی ہے ۔کشمیری عوام کو بھارت کے بانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی لندن میں کی جانے والی پریس کانفرنس بھی یاد پڑتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ”ہم پہلے دن سے اس موقف کے علمبردار رہے ہیں کہ کشمیری عوام کو اس بات کا حق ملنا چاہئے کہ وہ استصواب رائے کے ذریعے خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں “۔اسی طرح کشمیری عوام کو 6جولائی 1951کو آل انڈیا کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پنڈت کے وہ الفاظ بھی یاد رہتے ہیں جب وہ کہتے ہیں ”یوں معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ کشمیر کوئی خرید و فروخت کی چیز ہے ۔بلکہ اس کا اپنا ایک وجود اور تشخص ہے لہذا اس کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حتمی حق صرف اور صرف کشمیری عوام کو حاصل ہے “۔کشمیری عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ جواہر لال نہرو ایک جانب دنیا کو یقین دہانیاں کرواتے رہے جبکہ دوسری طرف کشمیر پر اپنے تسلط کو مستحکم کرتے رہے ۔ جیسے ہی بھارتی غاصبانہ تسلط کو استحکام حاصل ہو گیا بھارت اپنے بین الاقوامی وعدوں اور یقین دہانیوں سے صاف مکر گیااور حیلے بہانے شروع کر دیے۔اب بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا ہے ۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت اس قدر ہٹ دھرمی پر اترا ہوا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قرار دادیں تو ایک طرف کشمیری عوام کی منشا اور مرضی جاننے کا بھی روادار نہیں ۔سید علی شاہ گیلانی کی پاکستانی ہائی کمیشن کی تقریب میں شرکت بھارت کیلئے واضح پیغام ہے کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں؟سید علی گیلانی نے بجا کہا ہے کہ ”کشمیری بھارتی فوج کے بدترین تشدد کا شکار ہیں۔ 150 سے زائد بار مذاکرات ہوئے مگر ہر بار بے نتیجہ رہے۔مجھے یہ کہنے میں جھجک نہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ بھارت ہے۔ بھارت ایک بات نہیں کرتا۔ بھارت ایک سانس میں بات چیت کرنے کا کہتا ہے اور دوسری سانس میں کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے“۔ سید علی گیلانی نے کشمیری عوام کی درست انداز سے ترجمانی کی ہے ۔بھارت کو یہ یاد رہنا چاہئے کہ اگر بھارت کی یہی روش رہی اور اس نے کشمیری عوام کے دلوں کوفتح کرنے کی بجائے گردنوں کو مسخر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر ترنگے جلتے رہیں گیا ور پاکستان پرچم لہرائے جاتے رہیں گے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذبیح اللہ بلگن کے کالمز
-
پاک بھارت کشیدگی
بدھ 28 ستمبر 2016
-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتوار 12 جون 2016
-
مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر
جمعہ 13 مئی 2016
-
مودی کی “اچانک “پاکستان آمد
اتوار 27 دسمبر 2015
-
بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟
ہفتہ 5 دسمبر 2015
-
نریندر مودی کا دورہ کشمیر
پیر 9 نومبر 2015
-
مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015
ذبیح اللہ بلگن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.