سیاسی اشرافیہ،پیسہ اور انتخابات

اتوار 29 مارچ 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

جس طرح مچھلی سر کی جانب سے گلنا شروع ہوتی ہے اسی طرح بعض ملکوں کا نظام بھی اوپر کی جانب سے گلنا شروع ہوتا ہے اورآخر کار ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے جس طرح ہمارا جمہوری نظام جیسے جمہوری کہنا بھی جمہوریت کی توہین ہے سر سے لیکر پاوں تک گل سڑ چکا ہے اس کے بطن سے صالح افراد کی توقع ہی عبث ہے۔ جس جمہوریت میں جمہور کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا جاتا ہو اسے جمہوریت کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ جمہوری عمارت کی بنیاد کی اینٹ مقامی حکومتوں کے قیام پر لیت و لعل سے کام لیا جاتا ہو بلکہ اس کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہوں ایسی حکومت کو کیا جمہوریت کہا جاسکتا ہے؟ ابھی چند دن جاتے ہیں سینٹ کے انتخابات ہوئے ان انتخابات میں جس طرح خرید و فروخت کی باتیں سامنے آئیں اور ریٹ لگے اسے کیا کہا جانا چاہیے۔

(جاری ہے)

جب ملک کے اعلی ایوان میں آنے والے عوام کے نمائندے جنہوں نے قانون سازی کرنی ہے عوامی مفادات کا خیال رکھنا ہے کے بارے یہ تاثر ہو کہ وہ پیسہ خرچ کر آئے ہیں تو ان کی کریڈیبلیٹی سوالیہ نشان بن کر نہیں رہ جاتی ۔یہاں ایک اس سوال کو بھی اٹھایا جانا چاہیے کہ اتنا بھاری پیسہ ان لوگوں کے پاس آتا کہاں سے اور کیا یہ پیسہ انکم ٹیکس سے مشتثنیٰ ہوتا ہے ۔

ہم جس المیے سے دوچار ہیں اس کا حل موجودہ سیاسی رجیم کے پاس نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ سیاسی رجیم ہی اس المیے کا باعث ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
اس سچائی پر اخباروں کی خبروں اور کالموں سے صفحے بھرے پڑئے ہیں اور چینلز میں لگنے والی رات کی منڈلی میں بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے دکھوں کا سبب ہمارے ملک کی سیاسی و مذہبی اشرافیہ ہے جو کسی بھی طرح کے کسی بھی اخلاقی میعار پر پورا نہیں اترتی ان لوگوں کا کمال صرف یہ ہے کہ یہ ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ہی اقتدار میں آتے ہیں جس کے لئے دولت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ،کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ بھائی سیاست اگر ”عبادت اور خدمت“ ہے تو اتنا پیسہ خرچ کر کے کیوں انتخاب لڑتے ہو اور یہ پیسہ کیا حلال کی کمائی کا ہے؟
گزشتہ چند روز کی خبروں نے عام آدمی کا دل دہلا کر رکھ دیا ہے کہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمر جینسی تک میں ادویات میسر نہیں غریب لوگوں کے لئے زندگی بچانا مشکل ترین امر بن چکا ہے ۔

جبکہ ہماری الیٹ کلاس جو ان ہی غریبوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر لگژری لائف گزار رہی ہے ان کے حال سے بے خبر ہے۔
عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنے مخالفین کے خلاف تو شعلہ بیان رہتی ہے بلکہ عمران خان اپنے ہر جلسے میں ہر سیاسی جماعت کے لتے لیتے رہتے ہیں مگر ان کی زبان پر بھی پاکستانی عوام کے مسائل یا ان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کوئی لفظ نہیں آتا ۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ اس وقت اگر کسی نے سیاست کرنی اور کامیاب ہونا ہے تو جب تک عوام کا نبض شناس نہیں ہو گا عوام اسے گھاس بھی نہیں ڈالے گی عوام روائتی سیاست دانوں سے اس قدر عاجز آچکی ہے کہ ان کا نام بھی سننا گوارہ نہیں کرتی اور اگر عوام کی امیدوں کا استعارہ عمران خان نے بننا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سیاست دانوں کا برا بھلا کہنے کے بجائے غریب ،پسے ہوئے کزور طبقوں کی آواز بن کر سامنے آئے ۔

اس کے ساتھ ہی سینٹ الیکشن میں جن لوگوں نے ووٹ خریدے یا فروخت کئے ہیں انہیں سامنے لائیں جب تک ملک میں شفاف الیکشن نہیں ہوتے ملکی نظام میں بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ایک ایسے آزاد اور خود مختار الیکشن کیمشن کا مطالبہ ہر وقت جاری رہنا چاہیے جو انتخابات کو منصفانہ بنانے اور عام آدمی کی شمولیت کو یقینی بنانے کے ساتھ کرپشن میں لتھڑئے افراد کو ایوانوں میں آنے سے روکنے کی چارہ جوئی کرنے کا بھی مجاز ہو جس طرح بھارت میں الیکشن کمیشن آزاد ہے ایسے ہی ہمیں بھی آزاد الیکشن کمیشن کی شدید ضرورت ہے۔

حالانکہ پچھلے چند ماہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نشانہ بنائے رکھا۔ انھیں شکایت ہے کہ دوران الیکشن دھاندلی روکنے کے لیے کمیشن خاطر خواہ اقدامات نہیں کر سکا۔اب جبکہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ بھی سامنے آچکی ہے انہیں اپنے آزاد اور خود مختار الیکشن کیمشن کے مطالبے میں شدت لانی چاہیے تا کہ بنیادی جمہوریت مظبوط ہوسکے۔


میڈیا میں بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ دنوں بھارتی الیکشن کمیشن کے زیر اہتمام پارلیمانی انتخابات کامیابی سے انجام پائے۔ حالانکہ بھارت آبادی اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا بڑا ہے۔ بھارتی کمیشن کی کامیابی کا راز کیا ہے؟اس ضمن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن آزاد و خودمختار ادارہ ہے۔ اسی آزادی نے اسے ایک طاقتور ادارہ بنا دیا ہ۔

حتیٰ کہ پچھلے دنوں بھارتی بری فوج کے نئے سربراہ جنرل دلبیرسنگھ کا تقرر بھی الیکشن کمیشن کی اجازت ہی سے ہوا۔سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی بری فوج کے چیف کی تقرری میں الیکشن کمیشن کا بھی کردار ہے؟ عام حالات میں کمیشن کا اس اہم تقرری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، مگر جیسے ہی انتخابات ہونے کا اعلان ہوتا ہے وہ بھارت کا عارضی حکمران ادارہ بن جاتا ہے۔

امن و امان سے منصفانہ الیکشن کرانے کے لیے بھارتی آئین نے الیکشن کمیشن کو بے پناہ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کمیشن دلیری اور بہادری سے یہ اختیارات استعمال کرتا ہے۔ اسی باعث وہ دنیا میں سب سے بڑا انتخابی میلا بھی کامیابی سے منعقد کرا لیتا ہے۔بھارت میں 80کروڑ سے زیادہ ووٹر بستے ہیں۔ پھر لسانی، جغرافیائی اور دیگر مسائل مدنظر رکھے جائیں، تو انتخابات کا عمل مشکل ترین مرحلہ نظر آتا ہے ۔

اس کے باوجود بھارتی الیکشن کمیشن کامیابی سے انتخابات کراتا ہے۔ اور سبھی امیدوار و جماعتیں انتخابی نتائج تسلیم کر لیتی ہیں۔ اس پر مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی عاجلانہ و فوری قدم نہیں اٹھاتا۔دوسری طرف الیکشن کمیشن پاکستان ہر انتخابات کے موقع پر تنازعات و اسکینڈلز کا نشانہ بن جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ازروئے آئین پاکستان الیکشن کمیشن کو بھی بھارتی کمیشن جیسی خودمختاری اور اختیارات حاصل ہیں۔ تاہم ان کے مابین کچھ فرق بھی ہیں۔ عمران خان کو اپنے بینادی مطالبے میں آزاد اور خود مختار الیکشن کیمشن کے مطالبے پر ہی سیاست کرنی چاہئے تا کہ ملک کا بھلا ہو صاف اور شفاف لوگ اسمبلیوں میں آئیں اور عوام کے لئے فلاحی منصوبے شروع کر سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :