طبقات میں بٹا تعلیمی نظام

جمعہ 27 مارچ 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

حضوراکرمﷺ کاارشاد عظیم ہے ‘فرمایا”علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین کیوں نہ جاناپڑے“آپ کی زبان اطہر سے یہ کلمات اس وقت نکلے جب ہوائی جہاز ‘ بسوں کاروں کاسفر نہیں ہواکرتاتھااونٹ اورگھوڑے ہی سواری کے کام آتے تھے ۔گویا اس دور میں چین کاسفرگویامشکل مرحلہ تھا۔ آپ کی بعثت سے قبل بھی انبیاء کرام علم کے حوالے سے دعاکیاکرتے تھے جیساکہ ”اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما“ گویاتعلیم حاصل کرنا ارشادات انبیائے کرا م کی روشنی میں ایک ایساعظیم فعل ہے جس کی نظیر تک نہیں ملتی ۔

دنیائے عالم کی تاریخ کامطالعہ کریں تو جہاں بے شمار عوامل سامنے آتے ہیں وہیں پر نت نئی ایجادات ‘ترقی کے میدان میں بڑھتی ہوئی مقابلہ بازی نے واضح کردیا ہے کہ جن قوموں نے علم کوبنیاد بنایاوہی ترقی کی راہ پر چل نکلیں۔

(جاری ہے)

اب اس موڑ پر پہنچ کر اگرہم اپنے ہاں کے تعلیمی سلسلے کاجائزہ لیں توبے شمارافسوسناک ‘دردناک پہلو واضح دکھائی دیتے ہیں۔

ہم ماضی کی بات نہیں کرتے کیونکہ ہمارا خیال یہ ہے کہ پاکستان کاماضی حال سے کہیں بہتر تھا اس بارے میں تاریخ کے صفحات بھی کھنگالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ یہ محض 68 برس کی داستان ہے اوراس کے ہزاروں عینی شاہدین بھی موجود ہونگے لہٰذا موجودہ روش اوراس کے منفی اثرات کاجائزہ لے لیں توزیادہ مناسب ہوگا۔
ایک سکول میں تعلیمی مباحثہ کے حوالے سے موجودتھے ‘ ہمارے درمیان سینئر ماہر تعلیم ‘ دانشور ظفراللہ خان نیازی موجودتھے‘ انہوں نے اپنی گفتگو میں یوں توکئی اہم اورقابل ذکرباتیں کہیں لیکن دوتین باتیں توایسی تھیں جو ہمارے جیسے کم علم کیلئے ”نشان منزل“ کاکام کرگئیں۔

آپ نے فرمایا ہمارا سارے کاسارا تعلیمی نظام غیرملکی امدا د پر چل رہا ہے خود سوچئے کہ جب ہم امدادی رقوم کے سہارے اس شعبے کوکھڑارکھیں گے اس وقت تک ہم میں خودی اناکاجذبہ کیسے پیداہوگا۔ ظاہرہے بھاری بھرکم امدادی رقوم دینے والے پھربھاری بھرکم خواہشیں بھی رکھتے ہیں جن کی تکمیل کیلئے ہردوتین چار سال کے بعد تعلیمی سسٹم کوتہہ بالا کیا جاتاہے۔

انہوں نے دوسری اوراہم بات جو کہی وہ آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ”میری کتاب میں دنیابھرمیں دوقسم کے بڑے لوگ شامل ہیں ایک تووہ جوخود بڑے نہیں تھے لیکن بڑوں کی جگہ آگئے توبڑے بن گئے اوردوسرے وہ لوگ جنہوں نے بڑے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی “
یہ طویل ترین ابتدائیہ سمجھ لیجئے یا ہمارے زیرنظر کالم کی بنیاد بھی مانی جاسکتی ہے۔

اپنے صحافتی سفر کاجائزہ لیں تو ہمیں سب سے زیادہ تعلیمی مدارس سے واسطہ پڑا ‘ اساتذہ کرام سے بھی گپ شپ ہوتی رہی ‘ کئی ایسے اساتذہ سے شرف ملاقات کاموقع ملا جو حقیقی معنوں میں تعلیمی شعبہ کیلئے قابل فخر سرمایہ تھے۔ان کے تجربات ‘ مشاہدات سے مستفیدہونے کاموقع ملا بدقسمتی دیکھئے کہ ایسے اساتذہ کو ہم مثال کے طورپر توپیش کرتے ہیں لیکن تقلید کی بات آئے توہماری آنکھوں کے سامنے لال ہرے نیلے پیلے نوٹ لہرانے لگتے ہیں۔

ہم اکثرتعلیمی مباحثوں میں ذکر کیاکرتے ہیں ماضی قریب میں دو طرح کاتعلیمی سسٹم موجودتھا ایک و ہ جس سے سرکاری سکول جڑے ہوئے تھے اوردوسرا وہ جس میں پرائیویٹ سکولز کا الحاق تھا اس دور میں دوسرے سسٹم کی سب سے بڑی اور قابل تعریف مثال ڈسٹرکٹ پبلک سکول ہی ہوا کرتاتھا اب صورتحال عجیب تر ہوچکی ہے کہ کئی طرح کے سسٹم وجود میں آچکے ہیں‘ اب پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں طرح طرح کے نصاب لاگو ہوچکے ہیں ‘ بلکہ ہمارے ایک دانشورنے مباحثہ کے دوران بڑی ہی تلخ بات کہی کہ ”معاشی طبقات کے حساب سے اب پرائیویٹ تعلیمی ادارے وجو د میں آچکے ہیں‘ چپڑاسی‘ کلرک کے بچوں کیلئے الگ پرائیویٹ سکول سسٹم ‘جہاں فیسیں اورسہولیات کم ‘ چھوٹے افسرکیلئے زیادہ فیسوں اورکچھ سہولیات والے سکول اور بیحد اعلیٰ افسران کے بچوں کیلئے ایجوکیٹرز قسم کے سکول وجود میں آچکے ہیں۔

اب یہاں فرق بھی ملاحظہ ہو کہ چپڑاسی ‘کلرک کابیٹاجس سکول میں پڑھ رہاہے وہاں کورس اور ہے جبکہ چھوٹے افسر کابچہ جس سکو ل میں پڑھ رہاہے وہاں کورس مختلف اور جہاں بڑے افسر کابچہ پڑھ رہا ہے وہ مختلف کورس کاحامل ادارہ ہے۔ گویا ہم نے معاشی حالت کے مطابق مزید طبقات پیداکرنا شروع کردئیے ہیں۔ جس کانتیجہ ابھی ہمارے سامنے آیاہے تولیکن اس کے اثرات اتنے شدید نہیں کہ ہم انہیں محسوس کرسکیں لیکن آنیوالے دس بارہ سالوں میں معاشی حالت کی بنیاد پر پیداکی جانیوالی تقسیم کے مضمرات سامنے آئیں گے ۔

اب اس سے ہٹ کر الگ دنیا میں لئے چلتے ہیں ‘ ان تعلیمی اداروں کے علاوہ ملک بھرکے کروڑوں بچے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں ‘ گویا یہ الگ قسم کی دنیا ہوئی۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ مدارس میں مذہبی تعلیم (وہ بھی مخصوص طبقات اور فرقہ ہائے تک محدود ہے‘اسے بھرپور مذہبی تعلیم نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی وہ فرمان رسول مکرمکی روشنی میں مکمل تعلیم کی کسوٹی پرپورا اترتی ہے)ہی دی جاتی ہے وہاں دنیاوی تعلیم کاگزر تک نہیں ہوتاجس کے لازمی اثرات یہ مرتب ہوئے کہ دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے دیگر طبقات سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔

ہمارے ایک مباحثے کے دوران ایک بہت بڑی مذہبی شخصیت اظہار کررہی تھیں کہ ہم امریکہ کی ٹیکنالوجی ‘میڈیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے کہ ہمارے وسائل بہت کم ہیں“ ہم نے دورا ن مباحثہ ان کی بات کاٹنا مناسب نہیں سمجھا البتہ بعد میں یہ ضرور عرض کیا کہ کمپیوٹر گوکہ غیرمسلم کی ایجاد ہے لیکن اسے اگرمسلمان اپنے مقاصد کیلئے استعمال کریں تو اس پرکسی قسم کا اعتراض سامنے نہیں آئیگا اور نہ ہی زمانہ موجود میں بدعت کافتویٰ لگ سکتاہے اسی طرح آپ انٹرنیٹ کو اگر مثبت انداز میں اور مذہبی تعلیمات کے فروغ کیلئے استعمال کریں تو یہ کوئی بری چیز نہیں ہے ۔

اگر محض کمپیوٹر ‘انٹرنیٹ کا مثبت استعمال کرلیاجائے تو یقینا بے شمار مثبت تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں“ وہ قابل قدر شخصیت اس کاجواب دینے سے گریز کرگئی
اب آئیے ذرا آپ کو ان تین چار قسم کے تعلیمی طبقات کاایک آئینہ دکھاتے ہیں‘ ہم نے تین چارقسم کے کئی تعلیمی اداروں میں گھوم پھر کے دیکھاہے‘ نتائج بھی ملاحظہ کئے ۔فیسوں ‘سہولیات کی تفریق کو بنظرغائر دیکھا‘ جب سالانہ نتائج پر نظر پڑتی ہے توواضح ہوتاہے کہ یہ سب ڈرامہ بازی محض پیسے بٹورنے کاذریعہ ہے ‘ جگہ جگہ کھلے پرائیویٹ سکولوں میں والدین کی جیب خالی کرنے کے مختلف ذرائع استعمال ہوتے ہیں لیکن جب نتایج کی بات آتی ہے تو سرکاری سکولوں کے بچے ہی پوزیشن لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

ماضی قریب میں پوزیشنوں کے حوالے سے بڑا عجب ڈرامہ رچایاگیااس وقت ضلعی نظام حکومت کے تحت پانچویں‘ آٹھویں جماعت کے امتحانات بھی مقامی محکمہ تعلیم ہی لیاکرتاتھا ۔ پھر آئے روز یہ واویلا اٹھتا کہ فلاں پبلک سکول کابچہ ضلع میں اول‘ فلاں کی بچی تحصیل میں اول اورپھر ڈرامہ بازی اتنی طول پکڑجاتی کہ گولڈمیڈل کے ڈرامے رچائے جاتے لیکن اب جبکہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی تشکیل ہوئی اورپانچویں آٹھویں جماعتوں کے امتحانات اسی بورڈ کے تحت ہونے لگے تو ”پوزیشنوں کے خریدار “ دس بہترین طلبہ کی فہرستوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔

اس بات کاا مکان تو موجود ہے کہ بہترین نتائج کے حامل کسی سکول کے بچہ کسی ایک برس شاندار نتائج نہ دے سکیں لیکن یہ نہیں ہوسکتاکہ پھر سالہاسال تک اس سکول کی پوزیشن ہی نہ آئے اگرایسا ہوتو پھر لازمی طورپر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ پوزیشنیں خریدی گئی تھیں۔
صاحبو! اب چوں چوں کامربہ قسم کے تعلیمی نظام اور طبقاتی تقسیم کے بل بوتے پرقائم تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ کے درمیان واضح ذہنی، تعلیمی، طبقاتی فرق محسوس ہوگا گویا تعلیم نے طبقاتی فرق مٹانے کی بجائے اسے مزید گہراکردیا۔

یہ صورتحال صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے حوالے سے نہیں بلکہ اگر سرکاری سکولوں کی صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو افسوسناک پہلو سامنے آتا ہے کہ ہردوتین سال بعد بدلتا نظام اور پھر ریفریشر کورسز کے نام پرہونیوالی خواہ مخواہ کی ”دھینگامشتی“ بھی سرکاری سکولوں کے نتائج بہتر نہیں کرسکی۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وسائل نہ رکھنے والے والدین ہی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں بھیجتے ہیں ۔

دوسری جانب اگر ایک پرائمری سکول کے استاد پرلادی جانیوالی ذمہ داریوں کو دیکھاجائے تو شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
اب اگرتعلیم کو طبقات میں تقسیم کرنیوالے قسماقسم کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں اورسرکار کے زیرنگیں تعلیمی اداروں کا موازنہ کیاجائے تو بھی مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔رہی سہی کسر حکومت کی طرف سے ہرتین چار سال بعد ہونیوالے تجربات نے پوری کرکے رکھ دی ہے ۔

بلکہ بقول ماہرین تعلیم حکومت میں بیٹھے کارپردان ابھی تک طے نہیں کرسکے کہ اس دھرتی کے بچوں کو آخر کونسانظام ہی ”سوٹ“ کریگا ۔اس کی ایک واضح مثال سرکاری پرائمری سکولوں میں انگلش میڈیم کلاسز کا اجرا ،سلیٹ تختی کلچر کا خاتمہ اور اب دوبارہ چوتھی کلاس تک ارد ومیڈیم ،تختی سلیٹ کلچر کا لاگو ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت میں بیٹھے لوگ ابھی تک خود طے نہیں کرسکے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ یہاں حکومتی کارپردان سے ایک شکوہ ضرور کرناچاہیں گے کہ تسلیم کہ طلبہ کو کمپیوٹر، لیپ ٹاپ ،سولر انرجی سسٹم دینا قابل تقلید مثال ہے لیکن سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جن تعلیمی اداروں میں چار دیواری ،بنیادی سہولیات میسر نہ ہوں وہاں کا تعلیمی ماحول کیا ہوگا؟ نیز تعلیم دینے والا استاد اگر خود ذہنی پریشانیوں ،حکومت کے فراہم کردہ احکامات کی ”گھمن گھیریوں“ میں گھراہوا ہوگاتو وہ خاک طلبہ کو تعلیم دے پائیگا۔

لہٰذا یہ ضروری ہے کہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی صورتحال ،اساتذہ کے مسائل پر نظر رکھی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :