عالمی ادب !

پیر 23 مارچ 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ ایک معمولی بات تھی لیکن اس معمولی بات نے اسے وقت کا عظیم ادیب بنا دیا تھا ۔ایک دن وہ میسوری کی گلیوں سے گزر رہا تھا راستے میں اسے کتاب کا ایک پھٹا ہوا ورق دکھائی دیا ، اس نے یونہی وقت گزارنے کے لیئے اسے اٹھا لیا ، اس نے ورق پڑھا تو یہ جون آف آرک کی سوانح حیات کا ایک ورق تھا ، اس صفحے پر جون آف آرک کی قید ے بارے میں کچھ لکھا تھا ۔

وہ جون آف آرک کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا ، اسے اس کے بارے میں دلچسپی ہوئی اور اس نے جون آف آرک کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا ، اس نے جون کے بارے میں ساری کتابیں پڑھ ڈالیں ۔ بتیس سال تک وہ جون آف آرک کے بارے میں سب کچھ پڑھ چکا تھا ۔چھیالیس برس کی عمر میں اس نے ”جون آف آرک کی یادگاریں “نامی کتاب لکھی یہ ایک معمولی کتاب تھی لیکن اس کتاب سے اس نے ادب کی شاہراہ پر سفر شروع کر دیا اور آج دنیا اسے مارک ٹوین کے نام سے جا نتی ہے ۔

(جاری ہے)


اگر آپ کوبھی مطالعے کی عادت پڑ جائے تو کتاب کا ایک پھٹا ہوا ورق آپ کو بھی ادیب بنا سکتا ہے۔بہر حال قومی ادب کے ساتھ ساتھ اگر وقت ملے تو ہمیں عالمی ادب کو بھی پڑھنا چاہیئے اس سے فکر ونظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں اور دنیا کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔در اصل دنیا کے ہر خطے اور قوم کے اپنے حالات ، اپنی اقدارو روایات ، اپنی رسم ورواج اور اپنے مخصوص عقائد ونظریات ہوتے ہیں جس کے تحت کسی ملک اور قوم کا ادب جنم لیتا ہے ۔

اگر ہم بین الاقوامی ادب کی بات کریں تو اس میں لاطینی امریکہ کے نامور ادیب گبریل گارشیا مارکیزکی” تنہائی کے سو سال“ اور” وبا کے دنوں میں محبت“ آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیں گی، پچھلے سال وفات پا نے والے خوشونت سنگھ کی” ٹرین ٹو پاکستان “اور” سچ ،محبت اور ذرا سا کینہ “پڑھنے کے لائق ہیں۔ ہرمن ہیسے کا نوبل ایوارڈ یافتہ نا ول ”سدھارتھ“معرفت ذات کے حوالے سے بہترین انتخاب ہے ، پائیلو کوئیہلو کے نوبل ایوارڈ یافتہ ناول ”الکیمسٹ “ کا اپنا ہی مزہ ہے۔

عالمی ادب اور لکھاریوں میں ڈیل کارنیگی،ترک ادیب حان پاموک کا مائی نیم از ریڈ جسے اردو میں ”سرخ میرا نام “جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے ،فرخ سہیل گوئندی بڑے اہتمام سے ترک تاریخ اور ادب کو اردو میں شائع کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ فکشن میں ٹالسٹائی کی ”وار اینڈ پیس“ ( جنگ اور امن)، الیگزنڈر پوشکن کے افسانے ،شکسپئر کی کہانیاں، انتن چیخوف کے کلاسیکل افسانے ، دستوفسکی کی” جرم اور سزا“ اور” ذلتوں کے مارے لوگ“ اور ارنسٹ ہیمنگ وے کا” بوڑھا اور سمندر“ بھی اچھے ادب کی نمائندگی کرتے ہیں ۔

حوزا سارگوما کا ”اندھے لوگ“ اور ابو یحیٰ کا”جب زندگی شروع ہو ئی“ بہترین ناول ہیں۔کارل مارکس کی” داس کیپٹل “اور گرو رجنیش کی کتابیں بھی دیکھ لی جائیں۔جنرل کتابوں میں مائیکل ہارٹ کی ”سو عظیم آدمی“ ،ستار طاہر کی ”سو عظیم کتابیں “اور جدید سیاست اور سیاسی نظریات کو سمجھنے کے لیئے مولنا تقی عثمانی کی ”اسلام اور سیاسی نظریات “جہاں سے ملے فورا خرید لیں ۔

ہمارے مدارس کے طلبا عموما جدید سیاست ، جمہوریت، آمریت ، پارلیمانی ،صدارتی، وفا قی اور وحدانی نظام اور ان جیسی دیگر اصطلاحات ، تصورات اور ان کی تاریخ سے نابلد ہوتے ہیں اور دوسری طرف کالج او ر یونیورسٹی کے طلباء کے لیئے خلافت ، خلیفہ اور اسلامی نظام حکومت سے متعلقہ تمام اصطلاحات اور تصورات اجنبی ہو تے ہیں، اس مرض کا مکمل علاج مفتی صاحب کی یہ کتاب ہے ۔

محاضرات میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات سیرت اور فقہ علمی کام ہے ، یہودیت اور یہودی سازشوں کو سمجھنے کے لیئے مفتی ابولبابہ صاحب کی کتب بہت معاون رہیں گی۔فکری موضوعات کے حوالے سے مفتی ابو لبابہ صاحب کی کتب کو ضرور دیکھا جائے۔مختار مسعود کی ”آواز دوست“،واصف علی واصف اور اشفاق احمد کی زاویہ کو بھی دیکھ لیا جائے۔” مخزن اخلاق“ اور” بکھرے موتی“ ہر لائیبریری کی زینت ہونی چاہیئے ۔

سفرناموں میں مفتی تقی عثمانی صاحب کا” جہان دیدہ“، ”دنیا مرے آگے“،مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے، وحید الدین خان کے ”غیر ملکی اسفار“ اور قدیم میں” سفرنامہ ابن بطوطہ“ اور البیرونی کا سفر نامہ بہترین ہیں ۔ مزاح میں پطرس بخاری کے مضامین ،مشتاق احمد یوسفی ، کرنل محمد خان کی ”بزم آرائیاں“ ،شفیق الرحمان کی” حماقتیں “، کرشن چندر کی” ایک گدھے کی سرگزشت“، شوکت تھانوی کی” شیطان کی ڈائری“ اور یونس بٹ کی کتابیں بہترین تفریح ہیں ۔

تاریخ میں ڈاکٹر مبارک علی کا کام لائق تحسین ہے اور تاریخ کے ہر طالبعلم اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو ان کو ایک بارضرور پڑھنا چاہئے، اگرچہ ان کے بعض نظریات محل نظر ہیں اور ان سے اتفاق ضروری نہیں لیکن تاریخ پر ان کا کام نہایت شاندار ہے ۔ پاکستان میں تاریخ کے حوالے سے ان سے بڑھ کر شاید ہی کسی نے کام کیا ہو۔ہندوستان کی تاریخ پڑھنے کے لیئے محمد قاسم فرشتہ کی ”تاریخ فرشتہ“ دیکھ لی جائے ،اس کے علاوہ تاریخ کے حوالے سے مولنا اسمعیل ریحان کا کام بھی دیکھنے کے لائق ہے ، مقدمہ ابن خلدون ، ٹائن بی کی اسٹڈی آف ہسٹری ، گبن کی ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائربھی ضرور دیکھنی چایئے۔

قدیم میں ابن کثیر کی” البدایہ والنہایہ“ جس کا اردو ترجمہ” تاریخ ابن کثیر“ کے نام سے ہوا ہے ہر ایک کو پڑھنی چاہیئے۔مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی” تاریخ اسلام“ بھی دیکھ لی جائے۔ خود نوشت میں مولنا زکری کاندھلوی کی ”آپ بیتی“ ہر طالبعلم کو ضرور پڑھنی چایئے ، مہاتما گاندھی کی” تلاش حق“ ،افضل حق کا میر”ا افسانہ“ ، کلدیپ نائر کی” ایک زندگی کا فی نہیں“ ، دیوان سگھ مفتون کی ”ناقابل فراموش“، بینظیر بھٹو کی” مشرق کی بیٹی “،امیر تیمور کی” میں ہوں تیمور“، قد رت اللہ کا” شہاب نامہ“ ، احسان دانش کی” جہان دانش“، علامہ اسد کی ” روڈ ٹو مکہ“ اور” بندہ ء صحرائی“ ، مشرف کی ”سب سے پہلے پاکستان“ ، عمران خان کی” میں اور میرا پاکستان“ اور حال میں صدر الدین ہاشوانی کی چھپنے والی” سچ کا سفر “بہترین آپ بیتیاں ہیں۔


مشہور موٴرخ اور ادیب ابو الحسن علی ندوی کی کتابیں بھی ہر لائیبریری میں ہونی چاہیئں ۔ ان کی کتاب ”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر“ ،” تاریخ دعوت و عزیمت “جس میں عالم اسلام کی اصلاحی اور تجدیدی کوششوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ، ”پاجا سراغ زندگی“،” نقوش اقبال“،” نئی دنیا (امریکہ ) سے صاف صاف باتیں “،”مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش “،” معرکہ ء ایمان ومادیت“ اور” پرانے چراغ “ساری کتابیں پڑھنے کے قابل ہیں ۔ کونسلنگ کے حوالے سے مولانا وحید الدین خان کی کتابیں ضرور خریدی جائیں ، مولانا کے کچھ اپنے تفردات ہیں لیکن بہرحال ان کی کتابیں لازوال ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :