قوم کے دکھ کا مداوا کون کرے ؟

پیر 23 مارچ 2015

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

جن معاشروں میں آنکھ کی شرم مر جائے ،ماحول پر ہٹ دھرمی ، ڈھٹائی اور جھوٹ کا سورج نہ صرف سوا نیزے پر آ جائے، لوگ اُس کے عادی بھی ہو جائیں، خاص و عام لوگوں میں سے کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کے لئے تیار نہ ہو، ایسے لعنتی معاشرے سلو موشن میں تباہ و برباد ہونے لگتے ہیں اورہم بھی گزشتہ کئی سالوں سے سلو موشن میں تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔


اپنی کسی غلطی سے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے کے حوالے سے ایک شاندار مثال ورلڈ کپ میں ہما ر ی کرکٹ ٹیم کی شرمناک شکست کے بعد ، نجم سیٹھی صاحب کا تازہ ترین بیان ہے، لیکن اس سے پہلے اُن کے اس بیان کا ذکر بھی ضروری ہے ، جو انہوں نے ۱۵ فروری کو انڈیا اور ۲۱ فروری کو ویسٹ ایڈیز کے ساتھ پاکستان کی شکستوں کے بعد دیا تھا۔” پاکستانی ٹیم کے ساتھ زیادہ توقعات نہ رکھیں “میں سمجھتا ہوں کہ اُن کا یہ بیان مکمل ایسے ہو سکتا تھا کہ ہم نے ٹیم ہی ایسی بھیجی ہے کہ اس کے ساتھ زیادہ توقعات نہ رکھی جائیں۔

(جاری ہے)


اب انہوں نے اپنے اس بیان اور شکست کی وجہ بیان کرتے ہوئے اپنے پروگرام ” آپس کی بات“ میں کہا ہے۔ میں نے پاکسانی ٹیم کے ساتھ زیادہ توقعات نہ رکھنے کی بات اس وجہ سے کہی تھی کہ پاکستانی ٹیم گزشتہ کئی سالوں سے کمزور چلی آ رہی تھی اور اُس نے اکثر میچ ہارے تھے “ وغیرہ وغیرہ۔
ذرہ غور فرمائیں ،موصوف نے اپنی یا بورڈ کے اُن لوگوں، جو ٹیم کی کار گزاری کے زمہ دار ہیں، میں سے کسی ایک کی بھی کسی غلطی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

گویا بورڈ میں سبھی لوگ کرکٹ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے پرفیکٹ لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے ٹیم کا انتخاب تو ٹھیک کیا تھا۔ بس ٹیم سے کھیلا ہی نہیں گیا۔
اگر کسی اخبار کا ایڈیٹر کسی ایسے آدمی کو لگا دیا جائے ، جس کے خاندان میں سے کسی نے کبھی قلم کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو تو جو حشر اخبار کا ہو گا وہی حشر گزشتہ چند برسوں سے ہماری کرکٹ ٹیم کا ہو رہا ہے۔

پہلے زرداری صاحب نے کرکٹ بورڈ کو اپنی پارٹی کے کسی رکن کے بھائی اعجاز( اُن کا پورا نام ذہن میں نہیں آرہا ) کے حوالے کر دیا تھا اور اب میاں نواز شریف نے خود کو الیکشن میں جتوانے والوں میں جو بندر بانٹ کی ہے۔اُسی شرمناک بند بانٹ کی زد میں بد نصیب کرکٹ بورڈ بھی آگیا ہے ، جس کا ذکر ٹیلی ویژن پر مسلسل ہو رہا ہے۔لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔

وہی ہمارا معاشرتی مسئلہ ،جس کا ذکر ابتدائی سطور میں کر چکا ہوں۔
ویسے نجم سیٹھی صاحب کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ پاکستانی ٹیم شروع ہی سے کمزور نہیں تھی۔ چند سال پہلے تک انڈین کرکٹ ٹیم سے میچ جیتنے کی تعداد پاکستان کے پاس زیادہ تھا، لیکن وہی ٹیم جو کبھی شکست کے خوف سے ہمارے ساتھ کھیلنے سے کتراتی تھی، اُسے انڈین کرکٹ بورڈ نے اپنے غیر جانب دارانہ اور ماہرانہ انتخاب سے قابل اعتماد ٹیم بنا لیا ہوا ہے۔

یہاں تک کہ کوئی عجب نہیں کہ وہ اپنے ”ورلڈ کپ“ کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو جائے۔بیٹنگ، باوٴلنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں انڈین ٹیم کی کار گزاری قابل تعریف ہے۔
اپنوں کو سازشوں کے علاوہ ہماری ٹیم کے خلاف وہ سازش بھی قابل ذکر ہے ، جس کے بارے میں آج تک بتایا ہی نہیں گیا کہ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ کرنے والے لوگ کون تھے ؟ ممکن ہے بتایا بھی گیا ہو اور اگر بتایا بھی گی۹ا ہے تو اتنے دھیمے لہجے میں کہ کم از کم مجھے معلوم نہیں ہو سکا۔

ویسے بھی اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان کی بے شمار بد نصیبیوں میں سے ایک بد نصیبی یہ بھی رہی ہے کہ پاکستان پر ہمیشہ ایسے لوگوں کی حکمرانی رہی ہے جو پاکستان سے زیادہ پاکستان کے دشمنوں کے خیر خواہ رہے ہیں۔ میں تو اپنے اکثر حمرانوں کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ یہ لوگ ہمارے نہیں، پاکستان میں امریکہ کے سفارت کار ہیں۔ بہر کیف، سری لنکن ٹیم پر حملے نے بھی پاکستان میں کرکٹ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

گو کہ سری لنکن ٹیم کے لئے خصوصی بس کے ہمارے پاکستانی ڈرائیور نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مہمان ٹیم کا بال بِیکا بھی نہیں ہونے دیا تھا۔جس سے سری لنکن ٹیم بھی بہت خوش ہوئی اور اس ڈرائیور کو سری لنکا بلا کر اس کی خوب آوٴ بھگت بھی کی۔لیکن دنیا کو ہمارے ڈرائیور کی جوانمردی تو یاد نہیں رہی، لیکن مہمان ٹیم پر ناکام حملہ یاد رہ گیا ہے۔

جس وجہ سے بیرونی ممالک کی ٹیموں نے پاکستان آنا بند کر دیا ہے۔کوئی آنا بھی چاہیے تو آئی۔سی۔سی رکاوٹ بن جاتا ہے جس پر انڈیا کا قبضہ ہے۔
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ایسے حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کرکٹ بورڈ کو ایسے لوگوں کے حوالے کیا جاتا جو دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی ٹیم پر محنت کر سکتے۔ پورے پاکستان میں گھوم پھر کر کرکٹ کا ٹیلنٹ تلاش کر سکتے۔

کرکٹ کے سبھی سنیئر کھلاڑی کہتے ہیں۔ پاکستان میں کرکٹ کے ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دبدبہ آج بھی دنیا کے دل و دماغ میں موجود ہے۔ یہاں تک کہ
پاکستان کو شکست دینے والی آ سٹریلین ٹیم کے کپتان نے کہا ہے۔” پاکستان کی ٹیم کو شکست دینا اتنا آسا ن نہیں سمجھا جاتا“ آسٹریلین بلے باز شین وارٹسن نے وہاب ریاض کی باوٴلنگ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے ۔

” وہاب ریاض جو کر سکتے تھے ، اُنہوں نے کیا،اُن کی کئی گیندیں بہت خطر ناک تھیں، میں خوش قسمت ہوں کہ ان سے بچ گیا ہوں“
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہار جیت کسی بھی کھیل کا حصہ ہے اور یہ بھی سر آنکھوں پر کہ ہمیں اپنی ہار کو انتہائی وقار کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے ، کھلاڑیوں کے پتلے جلانے اور نجم سیٹھی کے لئے ” ہائے ہائے “ یا مردہ باد کے نعرے لگانے اور غریب قوم کی املاک کو نقصان پہنچانے سے نجم سیٹھی یا اُن کے آقا میاں نواز شریف کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

یہ سب بچکانہ اور افسوس ناک حرکتیں ہیں۔لیکن جس طرح ہماری ٹیم کے تقریباً سبھی کھلاڑی کیچ آوٹ ہوئے ہیں۔ اس پر جتنا بھی شور مچایا جائے وہ کم ہے۔لیکن شور مچانے کا فائدہ ؟ بھینس کے سامنے بین بجانے والی بات ہے۔اگر کوئی سننے والا ہو تو اسے اپنا یہ دکھڑا بھی سنایا جا سکتا ہے کہ آخر اس ہار کا ذمہ دار کون ہے ؟ کرکٹ کریزی قوم کے دکھ کا مداوا کون کرے گا۔

کچھ ٹی۔وی پروگرامز میں حفیظ کی علیحدگی کے فیصلے پر بھی انگشت نمائی ہوئی تھی۔ جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ فٹ نہیں تھے۔جب کہ حفیظ نے کسی ٹی۔وی پروگرام میں کہا ہے کہ فٹنس کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اگر کسی بچے سے پوچھا جائے تو وہ بھی کہئے گا کہ ورلڈ کپ سے ڈیڑھ دو سال پہلے ٹیم میں صرف اُن ہی کھلاڑیو ں کو کھلانا چاہیے جنہوں نے آنے والے ورلڈ کپ میں کھیلنا ہو۔

بورڈ کا سرمایہ اور وقت ان کھلاڑیوں پر ضائع نہیں کرنا چاہیے جنہیں عین وقت پر ٹیم سے الگ کر دینا ہو۔
ساری دنیا میں کھیل کے ادارے خود مختار ہیں۔ اگر وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کرکٹ بورڈ کو خود مختار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اس کے کندھوں پر اپنی سواری ضروری سمجھتے ہیں تو پھر انہیں قوم کی خوشی کے لئے یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ آئی۔سی۔سی پر تو پہلے ہی انڈیا کا قبضہ ہے۔ اگر نجم سیٹھی بھی وہاں پہنچ گئے تو آئی۔سی۔سی میں انڈیا کا وزن مزید بڑھ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :