مسرت پہ ہنگامہ کیوں؟

ہفتہ 21 مارچ 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

وہ…جو کشمیر اور یہاں کی سیاست سے ذرہ بھی آشنائی رکھتے ہیں علیٰحدگی پسند لیڈر مسرت عالم بٹ کی رہائی پر جاری ہنگامے کو لیکر حیران نہیں ہو سکتے ہیں لیکن بات حیرانگی کی ضرور ہے بلکہ رائی کا پہاڑ بنے اس مسئلے کو حیرانگیوں کا نبار بھی کہا جا سکتا ہے۔حالانکہ جموں و کشمیر میں ”جمہوریت کے معجزے“کے بطور قائم پی ڈی پی-بی جے پی اتحاد کو فی الواقع کوئی خطرہ نظر تو نہیں آتا ہے لیکن اخباری بیانوں اور ایک دوسرے کو انگلیاں دکھانے کو سنجیدگی سے لیا جائے تو پھرپی ڈی پی اور بھاجپا نام کے ”قطبین“کا ایک دھماکے کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہونا بس چند گھنٹوں کا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔

کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بھاجپا کے اخباری بیانوں سے لیکر پارلیمنٹ کے اعلیٰ ایوان تک مسرت عالم کی رہائی کو لیکر جو ہنگامہ برپا ہے اُس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک سیاسی لیڈر ضمانت پر نہ چھوڑا گیا ہو بلکہ جموں و کشمیر کے پاکستان کو دھان کئے جانے کا اعلان کیا گیا ہو۔

(جاری ہے)


گوپی ڈی پی کے تمام تر توقعات و امکانات کے برعکس بھاجپا کے ساتھ اتحاد کرنے کے روزِ اول سے ہی سیاست کی معمولی سمجھ رکھنے والے عام آدمی سے لیکر منجھے ہوئے سیاسی پنڈتوں تک سبھی کو یہ اندازہ تو تھا کہ اس اتحاد کے لئے راستہ دشوار ہوگا ۔

لیکن شائد یہ کسی کے گماں میں بھی نہ تھا کہ اس اتحاد کی شروعات میں ہی صورتحال یوں ہنگامہ خیز ہوگی۔یکم مارچ کو جموں میں حلف لینے کے فوراََ بعد وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید نے ریاست میں ہوئے پُرامن اسمبلی انتخابات کے لئے پاکستان اور علیٰحدگی پسند جنگجووٴں کی حصہ داری کا اعتراف کیا تو نئی دلی میں ہنگامہ ہو گیا۔اس بات پرمزید بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح مفتی سعید نہ صرف اپنے بیان میں صحیح تھے بلکہ وہ ،یہ کہکر کہ پاکستان اور علیٰحدگی پسندوں نے جمہوری عمل کی اہمیت سمجھتے ہوئے انتخابات میں ٹانگ نہیں اڑائی ہے،ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتے تھے۔

مفتی کے اس بیان پر غیر ضروری ہنگامہ آرائی ابھی تھم نہیں رہی تھی کہ مسرت عالم بٹ کی رہائی کے معمول کے مسئلے پر دوسرا بڑا ہنگامہ کھڑا ہوا اور اس بار یہ ہنگامہ اتنا بڑا ہے کہ مفتی محمد سعید پر ”پاکستان نواز وزیرِ اعلیٰ“ہونے کے طعنے کسے جارہے ہیں۔کیا جموں و کشمیر میں مفتی محمد سعید کے جیسے لوگ بھی،جو بار بار اور حال ہی میں خود نئی دلی کے ایک ٹیلی ویژن چینل کے ساتھ انٹرویو میں خود کو دل سے ہندوستانی کہہ چکے ہیں، مشکوک اور پاکستان نواز ہیں؟اور اگر ہاں تو پھر اس ہاں کے بطن سے پیدا ہونے والے اس سوال کا جواب کون دے سکتا ہے کہ پھر جموں و کشمیر میں غیر مشکوک حد تک ہندوستانی کون ہے؟
آخر ایک آدمی کی رہائی،وہ بھی ضمانت پر،پر دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک میں اتنا بڑا تنازعہ کیوں؟۔

مسرت عالم پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)نام کے قانون کے تحت نظر بند تھے …پی ایس اے جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے معتبر اور غیر مشکوک عالمی ادارے نے 2010کی اپنی رپورٹ میں ”بے قانون“قانون قرار دیتے ہوئے تنقیدو مذمت کا نشانہ بنایا تھا۔مسرت عالم پر ایک نہیں بلکہ2010میں گرفتار ہونے کے بعد لگاتار6/بار مذکورہ ایکٹ لگایا گیا اور عمر عبداللہ کی سابق سرکار نے،جسکا اب کود عمر اعتراف کر چکے ہیں،یقینی بنایا کہ بٹ کے لئے جیل کا دروازہ باہری دُنیا کے لئے نہ کھلے۔

تاہم ایک کے بعد ایک پی ایس اے کے کاش ہوجانے کے بعد اب سرکاری اداروں کے پاس ایسا کوئی بہانہ بھی نہیں تھا کہ جس پر مذکورہ کی اسیری کو مزید طوالت دی جا سکتی تھی۔چناچہ ریاستی ہائی کورٹ نے ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ تک نے مسرت عالم کی رہائی کا راستہ صاف کرتے ہوئے اُن پر غیر قانونی طور مزید پی ایس اے نہ لگائے جانے کی ہدایات جاری کی ہوئی ہیں اور ابھی تک اس معاملے میں جو کچھ تفصیلات سامنے آچکی ہیں اُنکے مطابق بٹ کو عدالتی احکامات کے ہی نتیجے میں رہا کردیا گیا ہے بھلے ہی مفتی محمد سعید نے اس بات کے لئے کریڈٹ لینا چاہا ہو اور کانگریس نے اپنے کھنڈرات کو مسرت عالم کا کاندھا دیکر پھر کھڑا کرنے کاخواب دیکھا ہو۔

خود مسرت عالم کہتے ہیں”میری رہائی کو خواہ مخواہ سیاسی رنگت دی جارہی ہے جبکہ میں عدالتی احکامات کے تحت رہا ہوا ہوں،لا قانونیت اور دھونس دباوٴ اپنی جگہ لیکن اب سرکار کے پاس مجھے سلاخوں کے پیچھے رکھنے کا کوئی بہانہ بھی نہیں بچا تھا ،میرا چھٹا پی ایس اے بھی ختم ہو رہا تھا لہٰذا انہیں مجھے چھوڑ دینا پڑا“۔حالانکہ دستاویزات سے ثابت ہے اور یہ ایک نیا تنازعہ کھڑا ہوا ہے کہ مسرت عالم کوچھوڑ دینے کا در اصل مفتی سعید کے بر سرِ اقتدار آنے سے قبل ریاست میں 49/دن کے گورنر راج کے دوران ہی فیصلہ ہوا تھا جبکہ مفتی سعید نے فقط اس بات کا کریڈٹ لیکر خود کو کشمیر نواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔


کیامسرت کی رہائی کا فیصلہ واقعی گورنر کے یہاں ہوا تھا یا پھر یہ مفتی محمد سعید کی سرکار کا فیصلہ تھا،اِس بات کی تحقیقات ،ہو سکتا ہے کہ،ٹیلی ویژن چینلوں کی ٹی آر پی بڑھا سکے لیکن حقیقت میں اِس پر مغز ماری کرنا غیر ضروری ہے۔سوال یہ ہے کہ مسرت عالم کی رہائی پر اتنا بڑا تنازعہ کیوں ہوا اور اِس حوالے سے اپنے آپ کو حد سے زیادہ حُب الوطن اور قوم پرست ثابت کرنے کی دوڑ دوڑ رہے ذرائع ابلاغ سے لیکر سیاسی جماعتوں تک نے جو ردِ عمل ظاہر کیا ہے اُسکا کشمیر اور کشمیریوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟۔

وقت رہتے اپنی اصلاح و احتساب کرنے میں ناکام رہکر تباہ ہو چکی کانگریس کے لئے مسرت عالم یا کشمیر سے متعلق کوئی بھی مسئلہ پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کا احساس کرانے کے لئے بس ایک مدعا ہے حالانکہ پارٹی شائد بھول چکی ہے کہ اِس نے 2002میں پی ڈی پی کے ساتھ حکومت بنائی تو سید علی شاہ گیلانی کی رہائی کا فیصلہ سرکار کے اولین فیصلوں میں تھا۔اتنا ہی نہیں بلکہ ابھی ماہ بھر قبل ہی کانگریس نے غلام نبی آزاد کو جتوانے کے لئے جموں و کشمیر کے ایک منفرد اور سرگرم ممبرِ اسمبلی انجینئر رشید کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور نہ صرف افضل گورو کی پھانسی پر پشیمانی کا اظہار کیا بلکہ گورو کی نعش کو اُنکے لواحقین کو نہ سونپ دئے جانے پر بھی ندامت ظاہر کی اور وعدہ کیا کہ انجینئر رشید نے گورو کی نعش حاصل کرنے کی کوششیں کیں تو کانگریس اُنکی حمایت کرے گی۔

دلچسپ ہے کہ یہ زبانی معافی نہیں تھی بلکہ کانگریس کے پانچ لیڈروں کے دستخط کے ساتھ یہ جانبین میں ایک تحریری معاہدہ ہے۔جہاں تک ذرائع ابلاغ با الخصوص ٹیلی ویژن چینلوں کا تعلق ہے،اُنہوں نے مسرت عالم کی رہائی پر کیونکر ایک طوفان کھڑا کیا ہوا ہے سمجھ سے بالا تر ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مقدمے میں کئی طرح کے نقائص ہونے کے باوجود جب افضل گورو کو ایک خفیہ آپریشن میں سولی چڑھایا گیا تھا،مسرت کی رہائی پر سوال اُٹھانے والے اِسی میڈیا اور سیاسی پارٹیوں نے کہا تھا کہ یہ ایک عدالتی فیصلے کی تعمیل ہے۔

عدالتی فیصلوں پر سوال اُٹھانے کو بلا جواز اور غیر ضروری بتانے والے یہی حلقے آج مسرت عالم کی رہائی کو پورے کشمیر کو پاکستان کے بازار میں بیچ کھانے کے جیسا بتا رہے ہیں جبکہ مسٹر عالم کو بھی عدالت نے ہی چھوڑ دیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ” Nationکی جانب سے“ بے تُکے سوالات پوچھنے کا ٹھیکہ لے چکیں چینلوں کا ٹی آرپی بڑھ رہا ہو اور اُنہیں ہندوستان کے بڑے محسن ہونے کا گمان ہوتا ہو لیکن کشمیر میں یہ سوالات بڑی بے چینی پھیلا رہے ہیں کہ افضل کے لئے عدالت کا فیصلہ اگر مقدس ہے تو اسی عدالت کا مسرت کے لئے فیصلہ غیر مقدس کیسے ہو سکتا ہے؟ اور یہ بھی کہ 2010کے دوران فورسز کی گولیوں کا شکار ہونے والے سوا سو افراد،جن میں معصوم بچے شامل تھے،کے قتل کی تحقیقات کروانے کی میڈیا کو کیوں نہیں سوجھتی ہے۔


وزیرِ اعظم نریندر مودی بھلے ہی پارلیمنٹ میں یہ کہہ گئے ہوں”میں آکروش میں اپنا سُر ملاتا ہوں“تاہم اُنہیں کود بھی معلوم ہوگا کہ مسرت عالم کی رہائی نہ صرف یہ کہ قانونی طور ہوئی ہے بلکہ اِس سے کوئی طوفا ن بھی نہیں آنے والا ہے۔لیکن حیرانگی کا معاملہ ہے کہ انتہائی مظبوط اعصاب کے مالک 56/انچ کی چھاتی والے وزیرِ اعظم میڈیا کے شور وغوغا کے سامنے یوں سرنڈر ہو گئے کہ جس سے اُنکے بارے میں کئی بھرم ٹوٹتے دکھائی دینے لگے ہیں۔


مرکزی سرکار نے گذشتہ دنوں میں کئی بار مفتی سرکار سے مسرت عالم کی رہائی کے بارے میں رپورٹ لے لی ہے اور اِس بات کے خوب چرچے کئے جا رہے ہیں۔وزیرِ داخلہ اور خود وزیرِ اعظم نے پارلیمنٹ میں بڑے ہی رعب دار اور غضبناک انداز میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر سرکار نے مرکز کو اعتماد میں لئے بغیر مسرت کو رہا کر دیا ہے۔یہ بات الگ کہ دستاویزات کے مطابق مسرت عالم کو جموں و کشمیر میں دلی کے آدمی گورنر نے رہا کردیا ہے لیکن کیا یہ واقعی اِتنا بڑا مسئلہ ہے کہ جسکے لئے ریاست کے وزیرِ اعلیٰ کو مرکز سے پوچھنے کی اجازت لینے کی ضرورت ہے؟۔

مرکز سے پیشگی اجازت نہ لینے کو مفتی سرکار کا بہت بڑا جُرم بتاتے ہوئے مرکزی سرکار اور نام نہاد ذرائع ابلاغ دوسرے الفاظ میں کہیں علیٰحدگی پسندوں کا یہ الزام صحیح ثابت تو نہیں کر رہے ہیں کہ ریاستی وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت ربڑ کی ایک مہر سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے…!۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ دلی سے بہت دور وادیٴ کشمیر میں لوگوں کو امتیاز اور بے گانگی کا احساس ہوا ہو بلکہ 2010کی ایجی ٹیشن کے دوران عمر عبداللہ کی سرکار کی حالت تب غیر ہوگئی تھی کہ جب سرینگر میں کرفیو کے نفاذ اور اِس میں نرمی کئے جانے کا اعلان مرکزی وزارتِ داخلہ کے افسروں کی زبانی ہونے لگا تھا۔


آج جو لوگ مفتی محمد سعید کو مسرت عالم کی رہائی کے لئے پاکستان نواز اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت لگا رہے ہیں فقط چند ایک ماہ قبل ہوئے انتخابات میں اِسی مفتی کی کامیابی کو جمہوریت اور جمہوری اقدار پر لوگوں کے اعتماد کی مثال کے بطور پیش کیا جا رہا تھا۔یاد رہے کہ اب کے وادیٴ کشمیر میں دہائیوں بعد بھاری ووٹنگ ہوئی تھی جسے بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کے جمہوریت پر اعتماد اور نہ جانے کس کس بات کے انکار کے بطور پیش کیا جا رہا ہے لیکن انہی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی سرکار نے ایک قیدی کی رہائی کے عدالتی حکم کی تعمیل کیا کی کہ اِسے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا اور ایک وقت کے مرکزی وزیرِ داخلہ رہے مفتی سعید پر پاکستانی ایجنٹ ہونے تک کے طعنے کسے جانے لگے۔

حالانکہ مسرت عالم کی رہائی کو لیکر کھڑا تنازعے کا اگر کسی کو بہت فائدہ ہو رہا ہے تو وہ مفتی محمد سعید کی ذات ہے کہجنہیں بھاجپا کے ساتھ ہاتھ ملانے کی وجہ سے کشمیری دھتکار رہے تھے۔چناچہ اِس بات کا اندازہ پہلے ہی تھا کہ آگے چل کر مفتی محمد سعید بھاجپا کو مُسلم اکثریت والی واحد ریاست کے اقتدار میں Entryدلانے کے داغ کو دھونے کے لئے کسی خاص موقعہ کی تلاش میں رہیں گے ۔

البتہ یہ بات شائد خود مفتی سعید کو بھی معلوم نہیں رہی ہوگی کہ اُنکے لئے معاملہ اتنا جلد اور آسان ہو جائے گا۔جیسا کہ سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی حُریت کانفرنس کا،جسکے مسرت عالم بھی ایک لیڈر ہیں،ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ سے متعلق جاری کردہ بیان میں درج ہے”مجلس شوریٰ نے اِس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ یہ ساری ہنگامہ آرائی پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین پہلے سے طے انڈر سٹینڈنگ کا حصہ ہے، جس کا مقصد مفتی محمد سعید کو کشمیر نواز ( Pro Kashmir) سیاستدان کے طور پیش کرنا ہے تاکہ آگے چل کر اُس کے ہاتھوں کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت کو نقصان پہنچایا جاسکے“۔


ہندوستان جیسی بڑی طاقت کے لئے ایک نا قابلِ تسخیر ڈر کے بطور پیش کئے جارہے مسرت عالم بٹ کون ہیں ؟پارلیمنٹ میں جاری ہنگامہ آرائی اور ٹیلی ویژن چینلوں پرملک کی سلامتی سے متعلق ظاہر کئے جارہے خدشات کے پیشِ نظر عالم کو جاننے کا تجسس بڑھتا ہے۔مسرت عالم گذشتہ نصف دہائی کے دوران تندیٴ بادٴ مخالف (میڈیا میں اُنکے خلاف مچی ہاہا کار) کے شہرت کی اونچائیوں کی طرف اُڑائے ہوئے ایک شخص کا نام ہے۔


گذشتہ بیس سال کے دوران کشمیر میں بے شمار چاہے ان چاہے ”لیڈروں“کو جنم دیا ہے تاہم ان میں سے چند ایک ہی ایسے ہیں کہ جنہیں عوامی مقبولیت حاصل ہو یا پھر جنکا عوام میں وسیع پیمانے پر تعارف ہو۔44/سال کے مسرت عالم بٹ بھی قریب پانچ سال پہلے تک ایسے ہی غیر معروف”لیڈروں“کی قطار میں شامل تھے کہ جنہیں 1987ءء کے اسمبلی انتخابات نے،جن میں بدترین قسم کی دھاندلیاں ہوئی تھیں اور بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر میں بندوق متعارف ہونے یا آج کی صورتحال کے لئے دھاندلیوں کا شکار ہوئے یہی انتخابات بنیاد بنے تھے،غیر ارادتی طور سیاست میں گھسیٹ لایا تھا۔

مسرت عالم ،انہی کی طرح ”لیڈر“بننے والے دیگر کئی لوگوں کے بر عکس،نہ ہی ایک ملی ٹینٹ کمانڈر کے بطور بہت زیادہ مشہور ہوئے اور نہ ہی جیل سے چھوٹ کر آنے کے بعد سیاست میں آکر اپنے لئے کوئی امتیازی مقام بنا پائے انکے طریقہٴ کار میں تاہم اتنا امتیاز ضرور موجود رہا کہ سید علی شاہ گیلانی اور دخترانِ ملت کی صدر سیدہ آسیہ اندرابی کے بعد ایک وہی ”اسلامی سیاست“کی بات کرتے رہے۔


دس سال کی عمر میں یتیم ہوچکے مسرت عالم کا تعلق سرینگر کے پائین علاقہ کے ایک متوسط اور تجارتی گھرانے سے رہا ہے۔انکے قرابت داروں کے مطابق مسرت کے والد کی موت ہونے کے بعد وہ اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ نانیہال میں رہنے لگے۔وادی کے معروف اور معتبر ترین عیسائی سکول ”ٹینڈیل بسکو“کے طالبِ علم رہ چکے مسرت عالم کے بچپن کے دوستوں کے حوالے سے تہلکہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ علیٰحدگی پسند لیڈر کا بچپن انتہائی خوشگوار رہا ہے۔

انکے دوستوں میں سے ایک کا،جو اب انجینئر ہیں،کہنا ہے کہ مسرت اپنے بچپن میں اپنے رنگین اور نئے ملبوسات اور نئے جوتوں کے علاوہ بھر پور جیب خرچ رکھنے کا امتیاز رکھتے تھے۔انکے ایک رشتہ دار کا کہنا ہے کہ ٹینڈیل بسکو جیسے معروف سکول میں پڑھنے والے دیگر بچوں کی طرح ہی مسرت عالم کا بچپن بھی نہایت ہی شوخ تھا اور کشمیر کے تاریخی ”سری پرتاپ“یا ایس پی کالج میں سائنس کی ڈگری لینے کے دوران بھی انکی شوخی برقرار تھی۔

تاہم سن 1987ءء کے اسمبلی انتخابات نے جیسے کئی دیگر نوجوانوں کی ہی طرح مسرت کی سوچ کو نئی سمت دی۔
مذکورہ انتخابات میں سید علی شاہ گیلانی کے علاوہ حزب المجاہدین کے آج کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین ،جنہوں نے محمد یوسف شاہ کے اپنے اصلی نام سے ان انتخابات میں حصہ لیا تھا،کے علاوہ متعدد ایسے لوگوں نے ”مُسلم متحدہ محاذ“کے پرچم تلے حصہ لیا تھا جبکہ بعد ازاں ریاست میں جنگجوئیت کے ہر اول دستے کے بطور کام کرچکے عبد الحمید شیخ ،اشفاق مجید اور جاوید احمد میر جیسے لوگ اول الذکر امیدواروں کے انتخابی ایجنٹ رہے تھے۔

الزام ہے کہ فاروق عبداللہ کی سرکار نے ان انتخابات میں بد ترین قسم کی دھاندلی کر کے محاذ کے بیشتر لیڈروں کو ناکام قرار دیا جو انتخابی عمل کے صاف و شفاف رہنے کی صورت میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جاتے۔ان انتخابات میں سید علی شاہ گیلانی سمیت محاذ کے محض چار لیڈروں کو ہی کامیاب قرار دیا گیا تھا۔مسرت کے انجینئر دوست کا کہنا ہے کہ مذکورہ انتخابات میں مسرت ایک سولہ سال کے لڑکے کی شکل میں بڑھ چڑھ کر شریک تھے کہ وہ مُسلم متحدہ محاذ کی انتخابی ریلیوں میں شامل رہکر ایک سرگرم کارکن کا کردار ادا کر رہے تھے۔

اس دوران مسرت عالم پہلی بار گرفتار ہو کر تین دن تک تھانے میں بند بھی رہے ۔انتخابات میں ہوئیں ،مبینہ،دھاندلیوں سے دلبرداشتہ ہوکر مسرت عالم نے نوے کی دہائی کی ابتداء میں شروع ہوئی جنگجوئیانہ تحریک میں شمولیت کی اور بندوق اٹھا کرحزب اللہ نامی تنظیم کے ایک کماندار کے بطور سرگرم ہو گئے تاہم اکتوبر 1990ءء میں گرفتار ہو کر زائد از ایک سال کے لئے پسِ دیوارِ زنداں رہے۔

یہ ریاست میں جنگجوئیت شروع ہونے کے بعد انکی پہلی گرفتاری تھی جسکے بعد مجموعی طور وہ ابھی تک،حریت کانفرنس کو ،جب 2004ءء میں علٰیحدگی پسندوں کا یہ اتحاد سید گیلانی کی غیر موجودگی میں مرکز سے بات چیت کرنے پر آمادہ ہو رہا تھا،دوپھاڑ کرنے سے لیکر 2008ءء میں اسے متحد کرنے کی کوششیں کرکے ”ملک دشمن سرگرمیاں“ کرنے کے الزامات کے تحت قریب پندرہ سال کے لئے پابندِ سلاسل رہے ہیں۔

چناچہ مسرت عالم نے ایک جنگجو کماندار کے بطور دیگر کئی ساتھیوں کے جیسی شہرت نہیں پائی ،حالانکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ، وہ کسی قدر خود بھی گمنام رہنا چاہتے تھے کہ انہوں نے بحیثیتِ جنگجو کماندار کے کوئی کُنیت یا عرفیت بھی اختیار نہیں کی جیسا کہ اُنکے ساتھی گوریلاوٴں میں ”فیشن“سا بن گیا تھا۔
جیل سے چھوٹنے کے بعد مسرت عالم نے مقامی تنظیم مُسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تاہم بعدازاں وہ لیگ چھوڑ کر سید علی شاہ گیلانی کی تحریکِ حریت میں شامل ہو گئے جہاں انہیں ضلع سرینگر کا صدر مقرر کیا گیا،البتہ مسٹر عالم بہت دیر تک سید گیلانی کی اس پارٹی میں،جو انہوں نے انہیں جماعتِ اسلامی میں سے نکال دئے جانے کے بعد بنائی ہے،بنے نہ رہ سکے۔

ذرائع کے مطابق بعض اختلافات پیدا ہونے کی وجہ سے وہ پارٹی چھوڑ کر واپس مُسلم لیگ میں شامل ہو گئے البتہ سید علی شاہ گیلانی کی سیاست کے تئیں انکا لگاوٴ نہ صرف جاری رہا بلکہ دونوں کے بیچ موجود قربت میں مزید اضافہ ہو تا گیا۔2004ءء میں مسرت عالم تب سرخیوں میں آگئے کہ جب حُریت کانفرنس دو پھاڑ ہو کر ”اعتدال پسند“اور ”شدت پسند“نام کے دو مختلف خیموں میں بٹ گئی۔

اس تقسیم کو جہاں کئی لوگ خود سراغرساں ایجنسیوں کی کارستانی بتاتے ہیں وہیں بعض لوگ مسرت عالم پر بھی الزام دھرتے ہیں۔اس واقعہ سے ملی اچھی یا بُری شہرت زیادہ دن تک قائم نہ رہ سکی تاہم 2008ءء میں امرناتھ شرائن بورڈ کو غیر قانونی طور سرکاری زمین فروخت کئے جانے کو لیکر ریاست میں اٹھے تنازعے نے مسرت عالم کو یوں سرخیوں میں لایا کہ وہ جیسے ان سرخیوں میں جم کر رہ گئے ہوں۔

حالانکہ امرناتھ تنازعہ چند ماہ تک ریاست کو انگاروں پر رکھنے کے بعد اتنا ہی اچانک ٹھنڈا پڑ گیا کہ جتنا اچانک یہ تنازعہ کھڑا ہو کر ہلاکت خیز ہنگاموں کو جنم دے گیا تھا تاہم مسرت عالم کی شہرت یوں بڑھتی گئی کہ علیٰحدگی پسند خیمے کو اس Angry Young Manکی صورت میں سید علی شاہ گیلانی کا متبادل نظر آنے لگا ہے جسکے لئے یہ خیمہ سید گیلانی کی ضعیف العمری اور خرابیٴ صحت کو دیکھتے ہوئے کئی سال سے سرگرداں تھا۔

”گیلانی کے بعد قائد کون“کی بحث جب،چند سالپہلے ،گیلانی خیمے سے وابستہ افراد کی نجی محفلوں سے نکل کر اخبارات کے ادارتی صفحوں تک آگئی تو ممکنہ ناموں میں مسرت عالم کا نام بھی شامل پایا گیا گو انہیں زیادہ ووٹ ملنے کی امیدیں نہ تھیں البتہ 2010کی ”ایجی ٹیشن“نے اس سلسلے میں انکے نام کوخوب اچھالا اور عام لوگوں کے علاوہ سید گیلانی کے حامی سیاسی حلقوں میں بھی انکی شہرت و مقبولیت میں اضافہ ہوگیا۔


سید گیلانی کے ایک قریبی کا کہنا ہے”مسرت عالم کی مقبولیت میں یقیناََ اضافہ ہوا ہے اور انکے ساتھ امیدیں وابستہ کی جانے لگی ہیں،جوان ہونے کے ساتھ ساتھ انکی خوبی یہ ہے کہ وہ لوگوں سے جڑے رہکر ایک عام کارکن کی طرح سرگرم رہتے ہیں پھر نوجوان پود کو بھی انکے ساتھ خاصا لگاوٴ ہے“۔واضح رہے کہ امرناتھ زمین تنازعے کے دوران مسرت عالم کا ”ایجاد کردہ“ ”رگڑا احتجاج“اس قدر مشہور ہو گیا تھاکہ مذکورہ 2008کی پوری ایجی ٹیشن کو ”رگڑو رگڑو“کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

رگڑا در اصل ایک ناچ کی طرح ہے کہ جس میں احتجاجی لڑکے ایک دائرے کی شکل میں کھڑا ہو کر ایک دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہیں اور ”ہندوستان“کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہیں۔ایک سینئر پولس افسر کا انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتانا تھا کہ ”رگڑا“ایک اشتعال انگیز احتجاج ہے کہ جو مظاہرین میں ہیجان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
رگڑو رگڑو کے دوران جب بیشتر علیٰحدگی پسند گرفتار کئے گئے تو مسرت عالم نے ایک عرصہ تک روپوشی اختیار کر کے پولس و دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کو جیسے انگاروں پر لٹا دیا تاہم وہ مئی 2008ءء میں چوہے بلی کا یہ کھیل ہار کر سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔

حالانکہ بعد ازاں انہیں کم از کم سات بار عدالت سے رہائی کا پروانہ ملا مگر سرکار انہیں دیگر معاملات میں ملوث بتا کرعدالتی احاطے کے اندر ہی گرفتار کرنے کا طریقہ اپنا کر انکی مدتِ قید میں اضافہ کرتی گئی تاہم سال2010 کی8/جون کوطفیل متو نامی طالبِ علم کے مارے جانے سے،جو2010کی ایجی ٹیشن کی وجہ بن گیا،محض تین دن قبل انہیں قریب دو سال کی حراست کے بعد رہا کر دیا گیا۔

متو کے مارے جانے اور پھر اس موت پر ہوئے احتجاج کے خلاف مزید احتجاجی مظاہروں کے دوران مزید اموات ہونے سے صورتحال خراب ہونے لگی تو سرکار نے سید گیلانی سمیت انکے دیگر لیڈروں کو گرفتار کر لیا تاہم مسرت عالم گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش ہو گئے۔25/جون کو انہوں نے شہرِ خاص میں نامہ نگاروں سے خطاب کیا اور ریاست میں ”جموں وکشمیرچھوڑ دو“تحریک شروع کرنے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی ”احتجاجی کلینڈر“کا اجراکیا اور لوگوں سے ”گو انڈیا گو“کا نعرہ لگانے اور اس نعرے کو سڑکوں اور دیواروں پر تحریر کرنے کے لئے کہا۔

رگڑوکی ہی طرح مسرت کا ایجاد کردہ کلینڈر بھی ”مقبول عام“ہو گیا جسکے تحت ہفتے میں دو ایک دن کے لئے عوام سے بازار کھولنے کے لئے کہا جاتا رہا جبکہ بقیہ دنوں کے لئے عام ہڑتال سے زندگی کا پہیہ جام رہا۔حالانکہ سید گیلانی کے جیل سے چھوٹ جانے کے بعد کلینڈر کے اجراء کا کام اور احتجاج سے متعلق دیگر ”ہدایات“سید علی شاہ گیلانی کی طرفسے آنے لگیں تاہم پولس کا کہنا ہے کہ اس سب ،بشمولِ سنگبازی کے،کے پیچھے در اصل مسرت عالم کا ہی ہاتھ تھا۔

پھر اپنی روپوشی کے دوران مسرت عالم نے کم از کم دو بار ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا تھا جس میں سے ایک پیغام میں انہوں نے ریاست میں موجود فوج اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کو ریاست چھوڑ کر چلے جانے کے لئے کہا تھا جبکہ دوسرے پیغام میں عوام سے سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی حُریت کانفرنس کے پروگراموں پر عمل کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔چناچہ پولس اور دیگر سراغرساں ایجنسیاں چار ماہ تک انہیں لگاتار ڈھونڈتی رہیں تاہم وہ پولس کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوتے رہے یہاں تک کہ 18/اکتوبر 2010کو انہیں انکے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔


مسرت عالم گو کہ بالائے زمین سرگرم رہنے والے ایک سیاسی لیڈر ہیں لیکن سرکاری ایجنسیاں کچھ اس طرح انکے پیچھے پڑ گئی تھیں کہ وہ ایک ”زیرِ زمین گوریلا“کا ”روپ دھارن“کر گئے۔”مہذب دنیا“ بالخصوص ”جمہوری ممالک“میں ورنہ ایسی مثال شاذ ہی ملے گی کہ سیاسی لیڈروں کی گرفتاری کو ”بڑی کامیابی“قرار دے کریہ ”کارِ نمایاں“انجام دینے والے افسروں و اہلکاروں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہو۔


مبصرین کے مطابق سیاسی لیڈروں کے لئے ایسے حالات پیدا کرنا کہ وہ روپوش ہوجائیں اور پھر انکی گرفتاری کو بڑی کامیابیوں کے بطور پیش کرنے کے جیسے اقدامات Counter Productiveثابت ہوتے ہیں کہ ایسے میں سیاسی آپشن ختم ہو جاتے ہیں اور باغیانہ طرزِ مزاحمت کا راستہ بنتا ہے جسے بند کرنا بہر حال بہت آسان نہیں ہوتا ہے۔ان مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی لوگوں کو سیاسی Spaceفراہم کر کے انکا سیاسی طور مقابلہ کرنے سے نہ صرف یہ کہ عوام کا جمہوری اقدار میں اعتماد مستحکم کیا جا سکتا ہے بلکہ سیاسی لیڈر بھی خود کو عوام کے سامنے جوابدہ مانتے ہیں،بصورتِ دیگر انارکی کا ماحول قائم ہو جاتا ہے۔


مسرت عالم کو 2008سے لیکر2010تک Mis Handleکر کے سرکار اور اپنے آپ کو شاہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کے لئے اپنے معیار سے گر چکے میڈیا کے ایک حلقے نے ایک ڈر اور خوف کے بطور پیش کیا ہے اور اب جب قریب پانچ سال کی جیل کے دوران تیزی سے بھاگنے والی دُنیا کی یادوں سے وہ اوجھل ہونے لگے تھے،تازہ تنازعے نے اس ”خوف و ڈر“کو حیاتِ جاوداں عطا کر دی ہے ۔

کشمیری میں ایک مشہور ضرب المثل کے مصداق نئی بات نو دن چرچے میں رہتی ہے اور یقیناََ اگلے دنوں پارلیمنٹ میں مسرت عالم کو لیکر کوئی ہنگامہ بھی نہیں ہوگا لیکن ا،س ہنگامے نے مسرت عالم نام کے جس ڈر کو اور بھی ڈراونا کر دیا ہے اُس سے آگے چل کر کس کی نیندیں خراب ہونے والی ہیں ،اِس ڈر کے خالقوں کو اِس بات کا اندازہ نہیں ہو گا تو ہاجائے گا۔پھر اِس پورے تنازعے کے بطن سے پیدا ہوئے کشمیریوں کے احساسِ بے گانگی،جو پہلے بھی گہرائی سے موجود ہے، کو دور کرنے کے لئے کتنی سرکاروں کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑ سکتے ہیں ،اِس بات کا اندازہ لگانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :