کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے

ہفتہ 21 مارچ 2015

Aamir Khan

عامر خان

غزہ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر ایک باریک لیکن انتہائی گنجان آباد پٹی ہے اس کے 365 مربع کلو میٹر میں18لاکھ افراد آباد ہیں جن کی اکثریت پنا گزینوں کی ہے۔ ہر ملک کا اپنا اپنا قومی کھیل ہوتا ہے فلسطین میں بھی آج کل ایک کھیل بہت مقبول ہو رہا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی ننگی جارحیت اور دہشت گردی تو روک گی ہے پر جاتے جاتے فلسطینی بچوں کو منفرد کھیل دے گیے ہیں بچے تو بچے ہوتے ہیں جو ااپنے والدین کو کرتا دیکھتے ہیں وہ بھی وہی کرنے لگ جاتے ہیں فلسطینی بچے اب عام بچوں کی طرح ا ور کھیل نہیں کھیلتے اب وہ زندہ بچے کو لیٹا کر اُس کا جنازہ اُٹھاتے اور اُسے قبرستان لے جاتے ہیں ۔

غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 2100 سے زائد فلسطینی شہید ہو ئے جن میں 570 معصوم بچے تھے۔کہا جاتا غزہ پر اسرائیل نے اتنا بارود برسایا کے اس کی طاقت 6 ایٹم بموں سے بھی زیادہ عا لمی امدادی ادارے کہے رہے ہیں غزہ کی تعمیر نو کے لیے 15سے 20 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے ۔

(جاری ہے)

جنگ کے دوران عمارتوں کی تباہی اپنی جگہ انسانوں کے ساتھ ساتھ جو تباہی غزہ کے ہسپتالوں کی ہوہی اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔

بسترو ں کی کمی کی وجہ سے بہت سے مریض فرش پر پلاسٹک کی شیٹوں پر لٹائے جاتے ان کی ادوایات کی بوتلیں ان کے سروں پر لٹک رہی ہوتی تھیں غیر ملکی میڈیا ان ذ خمیوں کے سروں پر سے بھاری کیمرے اُٹھا کر ادھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے تھے۔بستر نہ ہونے کی وجہ سے کہی لوگوں کو جلد گھر جانے کا کہا جاتاپر اُن میں سے کُچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اپنا گھر کھو چُکے تھے اپنا سب کھو چکے تھے ۔

اب بات سوا ل یہ آتا ہے کہ اتنا ظُلم و بربریت کی ضرورت کیا تھی اس کا انکشاف انٹرنشنل سیکورٹی کے عالمی شہرت یافتہ ماہر ڈاکٹر نفیز احمد نے متعبر برطانوی اخبار گارڈین میں بتایا کے اسرائیل کا اصل ہدف غزہ کے ساحل کے قریب دریافت ہونے والے 4.1 کھرب مکعب فٹ گیس کے ذخائر ہیں جن پر قبضہ کرنے کے لیے غزہ پر آگ برسائی جا رہی ہے ۔ اسرائیل کے اپنے ذخائر چند دہائیوں میں ختم ہو نے والے ہیں اگر فلسطینی خود ان ذخائر سے گیس نکالیں تو اس کے فوائد اسرائیل کی دشمن تنظیم حماس کو بھی ہوں گے جو مظبوط ہو کر اُن کے لیے مزید خطرہ ثابت ہو گی اس لئے سرائیل نے حماس کو ختم کرنے کے لیے 2007 میں آپریشن کاسٹ لیڈ کا آغاذ کیا گیا1387 فلسطنییون کی شہادت کے باوجود حماس کا خاتمہ نہ کر ہو سکا۔

اس وقت اسرائیل عملی طور پہ فلسطین کے تمام مد نی ذخائر ، ساحلون اور سمندروں کا ستعمال کر رہا ہے مستقبل میں فلسطینی گیس ذخائر کو اسرائیلی ذخائر کا حصہ بنانے کے لیے غزہ پر حملہ کیا گیا اسرائیل کے دو چیف سائنسدان اپنی حکومت کو بتا چُکے ہیں کہ ملک معدنی ذرائع خصوصا گیس ضروت سے بہت کم ہے۔
2020 تک اسرئیل کا توانائی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔

اب اسرائیلی اس صورتحال کے پیش نظر فلسطینی معدنی ذرائع پر قبضے کو ازحد ضروری سمجھ رہا ہے اب یہ ذرائع غزہ کے ساحل کے پاس ہیں اور غزہ حماس کے زیر اثر آتا ہے اسی لیے اسرائیل نے ایک دفعہ پھر حماس کو کے خاتمہ کے لیے جنگ مسلط کر دی ۔غزہ کی عوام کو حماس کی حمایت کی سزا دینے کے لیے بمبوں اور میزائلوں کا نشانہ بنایا گیا غزہ کی جنگ فلسطینی مسلمانوں کو ان کے ازمین اورر قدرتی وسائل سے ہمیشہ کے لیے محروم کرنے کی جنگ ہے یہ زمین اور وسائل اسرائیل کے نا جائز وجود کو زندہ رکھنے کی جنگ ہے۔


پچاس روز تک جاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت پر اس دوران نہ تو اقوام متحدہ سامنے آئی نہ عرب ممالک ،اسلامی جہموریہ پاکستان سمیت کوئی اسلامی مُلک اس جارحیت کی کُھُل کے مذمت نہ کر سکا ۔ جبکہ امریکہ،برطانیہ،فرانس،اور یورپی یونین کی حکومتیں بھلے ہی اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہوں ان کی عوام نہ اسرائیل مخالف مظاہروں سے خود کو انسان ثابت کیا ۔
سنا ہے تجھے درد کا احساس نہیں ہوتا۔۔۔
آ تجھے شہر فلسطین لے چلوں۔۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :