طاقت کا سرچشمہ عوام!

جمعرات 19 مارچ 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

ہم اسلامی وجمہوری ملک کے عوام،ایک ایسے جنگل نمامعاشرہ میں زندگی بسرکر رہے ہیں،جہاں ہرقومی ادارہ مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ خدمت ِ خلق کی بجائے ہرقومی ادارہ چیرپھاڑ کرنے والے درندہ صفت انسانوں کامسکن بن چکاہے۔ہر ایک،ہروقت غربت اور مشکلات میں گھرے عوام کے شکار کا منتظردکھائی دیتا ہے ۔سائلین کو بھیڑ بکریوں کی طرح شکار کیا جاتا ہے۔

جہاں ہردرندہ صفت صرف اپنا پیٹ بھرنے کی فکرمیں ہے۔ عوام اپنے مسائل اور پریشانیاں لے کر دربدربھٹک رہے ہیں،کسی کی کہیں کوئی سنوائی نہیں۔عوام،دہشت گردی، غربت، مہنگائی،بے روزگاری جیسی لعنتوں میں جکڑے ہیں اورملک بھر میں کسی کی جان و مال محفوظ ،نہ ہی عزت و آبرو۔
کہاجاتا ہے کہ مختلف ادوار سے لے کرآج تک جتنے نظام متعارف ہوئے ان میں جمہوریت کو خاص مقام حاصل ہے کیونکہ یہ واحد نظام ہے جس میں عوام براہ راست طاقت کا سرچشمہ ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

یعنی "عوام کی حکومت عوام کے لئے عوام کے ذریعہء"۔ہمارے ہاں انتخابات سے قبل عوام کی اس طاقت کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے اورعوام کو باوربھی کروایاجاتا ہے کہ ہماری طاقت کا اصل سرچشمہ آپ عوام ہی ہیں۔ہم عوام کی حمایت اور تعاون سے منتخب ہوکر سارے مسائل حل کردیں گے اور سہولیات سے ملک بھر کو جل تھل کردیں گے ۔ بے پناہ وعدوں اور یقین دہانیوں کے بعد عوام کی مدد اور حمایت سے انتخابات جیتنے کے بعد یہی افرادپروقار تقریب میں کہتے ہیں۔

میں وعدہ کرتاہوں کہ میں ہمیشہ اپنا وعدہ پورا کروں گااور ہمیشہ سچ کہوں گا۔میں ہرطرح کے حالات میں کسی خوف،رورعایت اور رشتے وتعلق سے بے نیاز ہوکرصرف قانون کے مطابق کام کروں گا۔
یہ الفاظ یا کم و بیش ان سے ملتے جلتے الفاظ منعقدکی جانے والی اس تقریب ِ حلف برداری کے دوران پڑھے جاتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم جو کہہ رہے ہیں اس پر سوفیصد عمل کریں گے۔

دین ِ اسلام میں تو خاص طور پر وعدہ کی پاسداری کی تلقین کی گئی ہے کہ جب کسی سے عہد کیا جائے تو ہرصورت اُس پر پورا اُترا جائے۔حلف کا براہِ راست تعلق انسان کے عمل سے ہوتا ہے۔اگروہ اپنی زبان سے اقرارکرے اورعمل کچھ کرے یہ منافقت ہے۔مومن کے عمل کا ایک ڈھانچہ ہے،جسے اللہ کی حدود کہاجاتاہے جواس بات کا تعین کرتا ہے کہ عمل مومنانہ ہے یا کافرانہ! ۔


پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا، ہمارے راہنماء سچے پاکستانی اور پکے مسلمان ہیں ۔حب الوطنی ہماری رگ رگ میں بھری ہے اور منافقت، توبہ توبہ۔منافقت انہیں چھو کربھی نہیں گزری۔ اقتدار کے ایوان میں کہے گئے الفاظ سن کربیچارے عوام بہت خوش ہوتے ہیں۔یہ الفاظ دُکھوں ، مصیبتوں اور مسائل میں گھری قوم کی اُمیدہوتے ہیں کیونکہ یہ حلف اور عہد کرنیوالے عام انسان نہیں ہوتے بلکہ پورے ملک میں موجود کروڑوں انسانوں کا انتخاب ہوتے ہیں ۔

انہیں اس ملک کے لوگوں نے منتخب کیا ہوتا ہے کہ یہ ہم میں سب سے اچھے ہیں یہ لوگ علاقائی سطح سے لے کرصوبائی اور قومی سطح پر اپنے علاقہ اور پوری قوم کے مسائل حل کریں گے۔لیکن ہم عوام مطلب اخذکرنے میں غلطی کرجاتے ہیں جب یہ لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں "میں وعدہ کرتاہوں میں ہمیشہ اپنا وعدہ پورا کروں گااور ہمیشہ سچ کہوں گا"دراصل اس کامطلب یہ بنتا ہے کہ کہ ہم جو کہہ رہے ہیں اس پر کسی بھی طورپر عمل نہیں کریں گے۔


قومی وسائل کو بے دردی سے لوٹنے والے ہمارے حکمران عوام کو طاقت کا سرچشمہ کہتے ہیں۔ان جھوٹے،فریب کار،مفاد پرست،ریاستی وسائل کو بے دردی سے لوٹنے کے فن میں یکتا حکمرانوں کوکیا معلوم، کہ یہ عوام کیسی زندگی گزار رہے ہیں۔کتنے لوگ بنیادی سہولیات اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔کھانے کوروٹی،پینے کوصاف پانی،پہننے کو کپڑے،صحت کے لئے مناسب علاج،رہنے کے لئے گھر اور بچوں کی تعلیم کامعقول بندوبست ہے یا نہیں۔

کیا ان کی جان ومال،عزت وآبرو محفوظ ہے یا نہیں۔ اپنے وقت کی اسمبلی سے سقراط نے کہا تھا"اسمبلی احمقوں،ذہنی معذوروں ، دکانداروں اور ان منافع خوروں پر مشتمل ہے،جوہروقت یہ سوچتے رہتے ہیں،کہ کیسے کوئی چیزسستی لے کرمہنگی بیچی جائے۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوام کے مسائل پرایک بار بھی نہیں سوچاہوگا"۔
بدقسمتی سے ہمارے راہنما اپنی سوچ اور مفادکے اسیربن چکے ہیں۔

انہیں عوام کے حالات سے ذرا دلچسپی نہیں۔ان حکمرانوں کی بے حسی،نااہلی اورہر معاملہ میں لاپرواہی سے پورا ملک مقتل گاہ بن چکا ہے ۔رہی سہی کسر گروہوں، مسلکوں، عقیدوں نے پوری کردی۔آج ہم بے راہ اورنشان ِمنزل سے بھٹک چکے ہیں۔سیاستدانوں کی خودغرضی،نااہلی کے سبب پھیلنے والے انتشار نے ملک دشمن عناصر کے حوصلے بلند کردیئے ہیں اورانہوں نے پورے ملک میں تباہی پھیلادی ہے۔

مسجد ، چرچ ، درسگاہیں کہیں بھی انسان محفوظ نہیں۔آج عوام امن وسکون کے ایک لمحہ کو ترس گئے۔ آپ انتخابات سے قبل عوام کی اس طاقت کااقراربھی کرتے ہیں اورعوام کو باوربھی کرواتے ہیں کہ ہماری طاقت کا اصل سرچشمہ آپ عوام ہیں۔انتخابات میں کامیابی کے بعدجب عوامی طاقت آپ کو منتقل ہوتی ہے توتین تین بارملک کے اعلیٰ ترین عہدہ پربراجمان ہونے کے باوجودعوام کواُن کے حال پر چھوڑدیتے ہیں۔

آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کیسی جمہوریت، کیسا نظام ہے،کس کام کی عوامی طاقت؟ جس کے تحت غربت،بیروزگاری جیسی لعنتوں میں جکڑے عوام، اندھیرے میں غرق شہر، ملک بھر میں بکھری لاشیں، کسی کی جان و مال محفوظ ،نہ ہی عزت و آبرو۔یہ سب عوام کی طاقت کا سرچشمہ ہے یاحکمرانوں کی بے حسی اورنااہلی کا ثبوت ؟
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراپا موم ہو یا سنگ ہو جا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :