مشکوک افراد سے مشتعل افراد تک

منگل 17 مارچ 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں سے دنیا میں کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا ایسے واقعات سے پاکستانیوں کے غیر محفوظ ہونے کا تاثر ابھرتا ہے مگر جس طرح سے یوحنا آباد کے واقعہ کے بعد شدید اشتعال کا مظاہرہ کیا گیا اس نے پاکستان میں اقلیتوں کے غیر محفوظ ہونے کے تاثر کو تقویت مل سکتی ہے۔ حالانکہ دہشتگردی کے ایسے واقعات کئی سال سے ہو رہے ہیں جن میں سفاک دہشتگرد بلاامتیاز مذہب و مسلک کے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اپنے پیاروں کی موت ایک ناقابل برداشت صدمہ ہے مگر اس کا مطلب اشتعال میں آکر قومی املاک کو نقصان پہنچانا اور عوام کے لئے ایزارسانی کا باعث بننا ہرگز نہیں ہے۔ میٹرو سٹیشنوں کو جلا دیا گیا اور یہ سروس معطل کر دی گئی۔ میٹرو سے یوحنا آباد کے ہزاروں مسیحی بھی استفادہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ایسا جلاوٴ گھیراوٴ اپنے ہی آشیاں کو جلانے کے مترادف نہیں تو کیا ہے۔

دہشتگردوں کا کوئی مذہب ہے نہ مسلک بلکہ ان کے قریب سے تو انسانیت بھی نہیں گزری۔ یہ انسان کے روپ میں درندے‘ عفریت اور بھیڑئیے ہیں۔ جو معصوم بچوں کے قتل کو بھی اپنے عقیدے کا حصہ قرار دیتے ہوں ان سے انسانیت کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ آج پوری قوم ان کے خاتمے کے لئے متفق اور متحد ہے۔ ان کے خاتمے کے لئے ضرب عضب آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔

کبھی ان کی کارروائیوں کو سیاسی مصلحتوں کی بنا پر حکومتی سطح پر صرفِ نظر کیا جاتا تھا مگر آج ان کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں۔ لاہور میں دہشتگردوں کے کئی نیٹ ورکس پکڑے گئے اور دہشتگردی کی ممکنہ کارروائیاں ناکام بنائی گئیں۔ اس کے باوجود بھی دہشتگردی کے واقعات ہو جاتے ہیں۔

اس میں سکیورٹی لیپس کا بھی کسی حد تک عمل دخل ہے۔ تاہم سکیورٹی ادارے پہلے سے کہیں زیادہ متحرک اور فعال ہیں۔ یوحنا آباد کے دھماکوں اور کالعدم تنظیم کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کار بدستور لاہور اور دیگر شہروں میں موجود ہیں۔ ان کے خلاف بھی کراچی کی طرح بے لاگ اور سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر بے رحمانہ کارروائی کی ضرورت ہے۔

حکومت اور ایجنسیوں سے دہشتگردوں کی آماجگاہ بنے چند گنے چنے مدارس اور دہشتگردوں کے پشت پناہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماوٴں کا کردار اوجھل نہیں ہے۔ ان کے خلاف ایکشن نہ لینے سے یہی نتیجہ ہو سکتا ہے جو یوحنا آباد میں ہوا اور چندہ ماہ قبل واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کی صورت میں ہوا تھا۔لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں واقع کرائسٹ اور کیتھولک گرجا گھروں میں خودکش دھماکوں میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور80سے زائد زخمی ہوگئے۔

دھماکے اتوار کی خصوصی عبادات کے دوران ہوئے۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ حکومت اور پولیس انہیں حفاظت فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ مشتعل افراد نے وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ اور وفاقی وزیر کامران مائیکل کو علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے لاہور میں یوحنا آباد کے علاقے میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

سکیورٹی کی عدم فراہمی کے الزام کی پولیس نے تردید کی ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جہاں سات اہلکار تعینات تھے ان میں دو جاں بحق اور تین زخمی ہوئے۔ یوحنا آباد کے گرجا گھروں پر دہشتگردی بھی قوم کے اندر نفاق پیدا کرنے اور دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہو سکتی ہیتاہمہجوم نے سب سے بڑا ظلم دو مشکوک افراد کو بہیمانہ طریقے سے زندہ جلا کرکیا۔

اگر وہ واقعی دہشت گرد تھے تو ان کو قتل کرکے ان کے ماسٹر مائنڈز تک پہنچنے کا راستہ بند کر دیا گیا اور وہ بے قصور تھے تو ظلم کی انتہا ہے۔ ہجوم نے ان دو نامعلوم افراد کو تشدد کے بعد پولیس کے حوالے کر دیا تھا جس کے بعد پولیس سے چھین کر سر عام آگ لگا کر انسانیت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے ان دو افراد کو زندہ جلا دینا اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا چار ماہ قبل کوٹ رادھا کشن میں ایک ہجوم نے شمع اور شہزاد مسیح کو زندہ جلا کر کیا تھا۔ دونوں نا قابل تلافی جرائم ہیں۔ دو خودکش حملوں کے ساتھ ساتھ اسے بھی تیسرا خودکش عوامی حملے کہنا چاہئے،اس سانحہ کو بھی تاریخ کبھی نہیں بھول پائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :