بکاؤ مال

منگل 10 مارچ 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اللہ جھوٹ نہ بلوائے آج سے پہلے تک ہم دعوے سے کہہ سکتے تھے کہ کبھی منڈی مویشیاں جانے کااتفاق نہیں ہوا لیکن بھولا ․․․․․․․ ایک ایسا رازدار دوست جس کی عادت ہے کہ بتائے بنا ہی گھسیٹتاچلاجاتا ہے اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ، بس بتائے ہی بنا گھسیٹتا چلاگیا، ہم چیختے چلاتے ،طلملاتے رہ گئے مگر اسے تو نہ کوئی فکر تھی نہ کوئی پرواہ، جب عقل ،ہوش ٹھکانے آئے تو مانوس سی بو اور مخصوص سی بولیاں ہرسو کانوں میں پڑیں ، کہیں سے میں میں کی آوازیں توکہیں سے بھاں بھاں کا نقارہ، ابھی حیرت کے سمندرمیں غوطہ زن ہی تھے کہ بھولا نے کمر پر ایک دھپ مارتے ہوئے کہا ”استاد! آج دیکھنا گھوڑے کیسے خریدے جاتے ہیں“ یہ جملہ ہمارے لئے آفت ہی ثابت ہوا کہ بھلا منڈی مویشیاں میں گھوڑوں کی خریداری کیسے؟ پوچھ ہی لیا ”بھولیا! یہ بھیڑبکریوں، بھینسوں کی منڈی ہے بھلایہاں گھوڑوں کی خریداری کاکیاکام؟ بھولا آخر بھولا ہے، کہنے لگا ”پاکستان میں ہرچیز ممکن ہے ، جب گھوڑے پارلیمنٹ میں پائے جاسکتے ہیں تو منڈی مویشیاں میں کیوں نہیں؟ ہم نے لاکھ اصرار کیا کہ ”کملے لوکے! یہاں گھوڑوں کاکیا کام؟؟ وہ جن گھوڑوں کا تم ذکر کررہے ہو وہ عادتاً تو گھوڑے ہوسکتے ہیں لیکن نسلاً انسان ہی ہیں“ لیکن مجال ہے جو اس کی کانوں میں کوئی ایک آدھ جوں بھی رینگی ہو، بس گھسیٹے چلاگیا، ایک گائے والے کے پاس جا پہنچا ”یہ گھوڑا کتنے کا ہے ؟؟ “گائے والے کو شاید بھولے کی عقل پر شک سے ہوا اورپھرہمارے بکھرے بالوں اورلباس نے بھی ا س کے شک کو تقویت بخشی ،کہنے لگا ”لگتے تو مسلمان ہی ہو لیکن عادتیں سرداروں جیسی کیوں ہیں“ پاس ہی کھڑا ایک بڑی مونچھوں والا شخص اپنی مخصوص پتلی سی آواز میں بول اٹھا” یہ شاید سیاسی پاگل ہیں“ بھولے کے کان کھڑے ہوگئے، اس کی عادت ہے کہ جونہی سیاست کالفظ آتا ہے اس کے کانوں سے دھواں ہی نہیں پورا آتش فشاں ابلنے لگتاہے۔

(جاری ہے)

بھولا کہنے لگا ” او ئے مسٹر! سیاسی پاگل پن کیاہوتاہے بھلا؟“ وہ بڑی مونچھوں والاکہنے لگا کہ جوشخص غلط مقام پرصحیح اورصحیح مقام پرغلط چیزکاانتخاب کرنا چاہے وہ سیاسی پاگل ہی ہوتاہے؟؟ یقین کریں کہ اپنی پوری صحافتی زندگی میں اتنی ”آسان اور پرکیف“ تشریح آج تک سننے کو نہیں ملی۔بعد میں پتہ چلا کہ منڈی مویشیاں کاوہ ”دانشور“ دلال تھا جسے سیاست کی اتنی سد ھ بدھ تھی جتنا کہ ہمارے ہاں کے سیاستدانوں کو، وہ خود ہی کہنے لگا کہ ”جتنی سیاست ہمارے ہاں کے سیاستدانوں کوآتی ہے اتناتو میں روزانہ کرلیتاہوں“ ہماری حیرانی کو بھانپتے ہوئے اس نے فوراً کہا ” یہ کام سیاست کی منڈیوں میں سال چھ مہینوں بعد ہوتاہے لیکن میں توروزانہ ہی کرتاہوں“ ہم نے پھرحیرانی سے پوچھا ”کونسا کام؟؟“ وہ قہقہہ لگاکر بولا” بیچنے خریدنے کاکام“ اب بھلا کوئی اس ناہنجار قسم کے جواب پر کیاسوال کرے۔

لہٰذا کان لپیٹے، کپڑوں کودرست کیا اور اڑن چھوکاارادہ کیا ہی تھا کہ وہ ”سیاسی دانشور“ کہنے لگا ”باؤ جی !آپ اس گائے کو ہی گھوڑاسمجھ کرلے جاؤ“ بھولا بھی گائے کو گھوڑاہی سمجھ کر(یہ شاید ہماری عقل کاقصورتھایا پھرنظروں کوفتور) مول تول کرنے کے بعد ہاتھ میں رسی پکڑے چل پڑے۔ پیچھے سے اسی ”دانشور“ نے آواز لگائی ”ایک بات سنتے جاؤ“ ہم رک گئے وہ چلاکر بولا ”ا س گھوڑے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دودھ بھی دیتاہے اوروقت پڑنے پراسے آپ باقاعدہ زبح کرکے کاٹ کرکھابھی سکتے ہیں ،اگر․․․․“ اس نے جملہ ادھوراچھوڑدیا اورپھر ہمارے پوچھنے سے پہلے ہی خود ہی بول پڑا”اگر ․․․․․عادتاًہندو نہیں ہیں تو“
یقین کریں کہ جب سے منڈی مویشیاں سے واپسی ہوئی ہے کوئی ایک پل بھی سکون سے رہنے کونہیں مل رہا، اس دانشورکی ایک ہی بات کانوں میں گونج اورعقل کو کھائے جارہی ہے ”اصلاً،نسلاً ،عادتاً“
صاحبو!امتحان ختم نہیں ہوا بھولا ہمیں اس جگہ لے گیا جہاں گھوڑے بکتے تھے ،اب کی بار اس کی فرمائش تھی کہ وہ ”گائے “ خریدنے آیاہے ۔

یقین کریں اس کی بات مکمل ہونے پرہرسو ہنہناتے ہوئے ”قہقہے “ بلند ہوئے ۔ہم نے اپنی اصلی ،نسلی اورعادتاً تاریخ میں پہلی بار ایسے بے سرے اوربے ترتیبے قہقہقے پہلی بار سنے۔عقدہ کھلا ، کالے پیلے سفید گھوڑے دانت نکالے گویا بھولے کی بات پر ہنس رہے تھے، ایک نسبتاً شریف سے گھوڑے پرنظرپڑی اور ہم بھولے کی نظربچاکراس کی جانب جاکھڑے ہوئے ،کان میں آہستگی سے کہا ”تم بکناچاہتے ہو؟؟“بس جملہ مکمل ہونے کی دیرتھی اورہمیں آسمان گھومتانظرآیا ۔

سر زمین پراور ٹانگیں آسمان کی طرف ہوگئیں لیکن یہ ہماری بھول تھی۔یہ توکمرسے اٹھتی درد کی لہر نے عقدہ کھول دیا کہ ”گھوڑے میاں کو ہماری بات پسند نہیں آئی“ ہم پھر خودکو سہلاتے ہوئے قریب ہوئے اورپہلے جملے پرمعذرت کرنے کے بعد پھر سے گویاہوئے اورکہا ” یار تم توخواہ مخواہ ہی محسوس کرگئے “ وہ ہنہناتے اور دندناتے ہوئے لہجے میں بولا ” خواہ مخواہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ،پھردوں ایک لات“ یہ خواہ مخواہ بکنے والا کام آپ کی پارلیمنٹ میں ہوتاہوگا ہمارے ہاں نہیں، ہم خواہ مخواہ بکنے والے نہیں بلکہ ہم بکتے ہیں تو اپنی حیثیت، اوقات کے مطابق “گویا بات کھل گئی، اچانک وہی منڈی مویشیاں کادلال پسینے پسینے بھاگتادوڑتاآپہنچا۔

پھر اس نے ہمیں لنگڑاتے ، خود کوسہلاتے دیکھ کرکہا ”لگتاہے مجھے آنے میں دیرہوگئی“ آپ نے اس بار خریدنے کیلئے غلط جگہ کاانتخاب کرلیا ہے، یہ گھوڑوں کی منڈی ہے اگرآپ نے یہاں ”گائے کی فرمائش کی “ یاپھر ”بکنے کی بات کہی “تونتیجہ کچھ بھی ہوسکتاہے “ لیکن اسے ہماری حالت سے اندازہ ہوگیاتھا کہ ہم یہ نتیجہ بھگت چکے ہیں۔ وہ اسی گھوڑے کے قریب ہوااورچمکارتے ہوئے کہا ” تمہیں سیاست کی منڈی میں لے جاؤں“ وہ فوراً ہی غصے میں آگیا اور اس سے پہلے کہ ”دانشور“ کو دولتی جھاڑتا، دانشور نے ہاتھ جوڑدئیے اور کہا ’#’یار میں تو مذاق کررہاتھاوہاں تو ”عادتاً نظرآنے والے گھوڑے ہی ملتے ہیں تم تواصلاًنسلاً ہی گھوڑے ہو“ گھوڑے نے ہنہناتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہا ”بھول میں نہ رہنا، ہم عادتاً ،نسلاً ،اصلاًگھوڑے ہی ہیں “ ہم ضرور خریدے اوربیچے جاتے ہیں مگر”بکاؤ مال “ نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :