کتاب دوستی!

منگل 10 مارچ 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں نے برسوں پہلے کسی سفرنامے میں یہ واقعہ پڑھا تھا ۔میں سفر نامہ اور سفرنامہ نگار کو بھول چکا ہوں لیکن یہ واقعہ نقش بن کر میرے ذہن پر ثبت ہو چکا تھا۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب اندلس کے درو دیوار اسلامی علوم وفنون سے روشن تھے اور اندلس کی درسگاہیں دینی و عصری علوم کی آماجگاہیں تھیں۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک عالم کو کسی کتاب کی تلاش تھی،کتاب نایاب تھی اورکتاب کی یہ تلاش انہیں قرطبہ لے آئی،وہ قرطبہ کے تمام بازاروں میں گھومے لیکن انہیں اپنی مطلوبہ کتاب کہیں نہ ملی ، آخر ایک جگہ پر کتابوں کا نیلام ہو رہا تھا ،کہتے ہیں مجھے وہ کتاب وہاں نظر آ گئی ، میں خوشی سے اچھل پڑا ، جس کتاب کے لیئے میں نے سینکڑوں میل سفر کیا تھا آخر مجھے مل ہی گئی تھی، میں نے کتاب کے حصول کے لیئے ذیادہ سے ذیادہ بولی لگانی شروع کر دی ،میں جو بھی بولی لگا تا کوئی دوسرا شخص آگے بڑھ کر مجھ سے ذیادہ کی بولی لگا دیتا ،میں بولی میں حصہ لیتا رہا حتیٰ کہ اس شخص نے حد سے ذیادہ بولی لگا دی ، میں پریشان ہو گیا ، میں آگے بڑھا ،بولی لگانے والے کو دیکھا جو کوئی بڑ ا رئیس اور صاحب علم دکھائی دیتا تھا ، اس کا ہاتھ پکڑا اور اطمینان سے کہا ” ماشاء اللہ آپ کو ئی بڑے فقیہ اور صاحب علم دکھائی دیتے ہیں اگر آپ کو واقعی اس کتاب کی ضرورت ہے تو میں آپ کے حق میں دستبردار ہو تا ہوں “اس نے میری بات بڑی توجہ سے سنی اور نرمی سے بولا ”میں کو ئی عالم یا فقیہ نہیں ہو ں مجھے تو یہ بھی نہیں پتا یہ کتاب کس فن کی ہے ، میں نے اپنے گھر میں ایک کتب خانہ بنا رکھا ہے جوشرفاء کی علامت ہے، ایک الماری میں تھوڑی سی جگہ خالی ہے اور یہ کتاب اس میں فٹ آئے گی،اس کتاب کی جلد خوبصورت ہے ، ٹائٹل بھی اچھا ہے اور کتابت بھی بہت عمدہ ہے، اس لیئے میں یہ کتاب خرید رہا ہوں، یہ میرے کتب خانے میں بہت فٹ آئے گی“ وہ عالم کہتے ہیں میرے ذہن سے فورا یہ آواز آئی کہ بادام اس کو مل رہے ہیں جس کے دانت نہیں ۔

(جاری ہے)


کتاب دوستی ترقی یافتہ معاشروں کی علامت ہے اور کتاب کو نظر انداز کر کے کو ئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ۔ ہمارے پیچھے رہ جانے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے من حیث القوم کتاب کو نظر انداز کر دیا ہے ۔ ہمارے ہاں کتاب بینی کا کتنا ذوق ہے اس کا اندازہ آپ کو اس بات سے ہو جائے گا کہ ہمارے ہاں جو کتابیں چھپتی ہیں اس کا پہلا ایڈیشن عموما گیارہ سو کتابوں پر مشتمل ہوتا ہے ، اگر کو ئی اچھی کتاب ہو تو چھ ماہ ورنہ عموما سال تک دوسرے ایڈیشن کی نوبت ہی نہیں آتی ،گویا اٹھارہ کروڑ عوم میں سے صرف گیارہ سو ایسے ہیں جو کتاب خریدتے ہیں ، اوران گیارہ سو خریدنے والوں میں سے بھی ضروری نہیں کہ سب پڑھتے ہوں گے ،کیا کمال ہے ۔

ہمارے ہاں بیسٹ سیلر کتابوں کے ایڈیشنوں کی حد بھی ذیادہ سے ذیادہ پچیس تیس تک ہے گویا اگر کو ئی کتاب تما م ریکارڈ توڑ دے تو بھی اس کی اشاعت تیس چالیس ہزار سے زائد نہیں ہو گی۔ مغرب میں ایسی بھی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں جن کی اشاعت دس دس کروڑ تک گئی ہے ، ان کی کو ئی کتاب نارمل بھی چھے تو دس ہزار سے کم نہیں چھپتی۔ آپ مغربی ممالک کا سفر کر کے دیکھیں آپ کو وہاں لو گ، سڑکوں ،فٹ پاتھ، ایئرپورٹس ، ریلوے اسٹیشنز اور انتظارہ گاہ پر کوئی نہ کوئی کتاب پڑھتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

وہاں لوگ اشارے پر بھی رکیں تو کتاب نکال کے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم کم از کم مغرب سے اچھی باتیں تو سیکھ سکتے ہیں ۔ہمارے ہاں ایک تو پہلے ہی کتاب بینی کا رواج نہیں تھا اوپر سے رہی سہی کسرسوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز نے پوری کر دی ہے ۔ مجھ سے اگر کو ئی دوست پوچھے کہ کون سا ٹا ک شو دیکھنا چاہئے تو میں فورا کہتا ہوں کو ئی بھی نہیں ،بھائی لوگو ٹاک شوز کی بجائے آپ وہ وقت کتاب کو دیا کرو ، ذیادہ افاقہ ہو گا۔

ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس کو عموما پڑھا لکھا اور سمجھدار سمجھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ یہ طبقہ بھی کتاب کو وہ اہمیت نہیں دے رہا جو دینی چاہیئے،یہی وجہ ہے کہ یہی لوگ پڑھ لکھ کرجب آگے آتے ہیں تو وہ کارکردگی نہیں دکھا پاتے جس کی ان سے توقع اور امید کی جاتی ہے ۔ آپ تھوڑی سی خالص اردو بولیں تو یہ بوکھلا جائیں گے۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو صورتحال اور بھی گھمبیر ہو چکی ہے ، پہلے تو طلباء تھوڑا بہت وقت کتاب کو دے ہی دیا کرتے تھے لیکن اب یہ سار ا وقت یو ٹیوب،فیس بک ، ٹویٹراور واٹس ایپ کی نذر ہو جاتا ہے ۔

ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن اپنا سارا وقت انہی ذرائع پر خرچ کردینا بھی عقلمندی نہیں ۔ وقت کو کچھ اس طرح سے مینج کیا جائے کہ کتاب کے لیئے وقت ضرور بچ جائے۔ اکثر طلبا صرف نصابی کتابوں پر ہی توجہ دیتے ہیں ، اگر ان سے کہا جائے کہ خارجی کتب کا بھی مطالعہ کیاجائے تو لگا بندھا جواب ملتا ہے جی وقت ہی نہیں بچتا، بھائی وقت بچانا پڑتا ہے ، اگر ایک سبجیکٹ کو آپ تیس منٹ دیتے ہیں تو اگر آپ چاہیں تو وہی کام پچیس منٹ میں بھی ہو سکتا ہے ۔

آج اگر آپ خود کو خارجی مطالعہ کی عادت نہیں ڈالیں گے تو خسارے میں رہیں گے۔ہماری یونیورسٹیوں میں جو صحا فت پڑھائی جا رہی ہے اس میں بھی تھیوریز اور ٹیکنالوجی پر ذیادہ زور دیا جاتا ہے ، کتابیں پڑھنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے ،ہر کوئی اینکر اور نیوز کاسٹر بننا چاہتا ہے ، کوئی ان کو بتائے کہ آپ ٹی وی پر بیٹھ کر تب ہی کچھ بول سکیں گے جب آپ کے پاس بولنے کے لیئے کچھ ہو گا ، کتابیں آپ کو بولنا سکھائیں گی، آپ ماضی کے جتنے بھی نامور لکھاری یا اخبار نویس ہیں ان کا بائیو ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں کسی نے جرنلزم کی ڈگری نہیں لی تھی مگر وہ غضب کے لکھاری اور اخبار نویس تھے۔


جس طرح انسان جسمانی طور پر اپنی عمر کی حدیں طے کرتا ہے اسی طرح اس کے عقل و شعور کی حدیں بھی پروان چڑھتی ہیں ، اگر ایک انسان کتابیں پڑھتا ہے اور مسلسل پڑھتا ہے تو وہ دوسروں کی نسبت جلد شعور کی منزلیں طے کر لیتا ، اس کی عقل پختہ ہو جاتی ہے اور اس کا شعور بالغ ہو جاتا ہے ۔ سردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں بستر میں لیٹ کر ،کمبل یا رضائی اوڑھے چائے کی چسکیاں لگاتے ہوئے کتاب پڑھنے کا جو مزہ ہے شاید وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانا کھانے سے بھی حاصل نہ ہو۔

ہر انسان کی کوئی نہ کوئی تفریح ہوتی ہے ، ہر کوئی اپنے فارغ وقت میں اپنے لیئے تفریح کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈتاہے ، کوئی دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا کر ریلکس ہو تا ہے ، کسی کی تفریح کھیل ہے ، کوئی کسی اچھے ہوٹل میں کھانے کو تفریح سمجھتاہے ، کوئی اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ کرخوش ہوتا ہے اور کسی کی تفریح ٹی وی اور انٹرنیٹ ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بہتر تفریح یہ ہے کہ آپ اپنا فارغ وقت کتاب کے ساتھ گزاریں ۔

اگر کوئی کتاب کے ساتھ رہ کر خوش ہے اور کتاب اس کے فارغ وقت کی تفریح بن گئی ہے تو شاید وہ دنیا کا خوش قسمت انسان ہے۔ کتابیں پڑھنے سے انسان کی شخصیت سنورتی ہے، انسان مہذب اور باشعور بن جاتا ہے،سوچنے اور غور کرنے کی عادت پڑ تی ہے، قوت مشاہدہ بڑھ جاتی ہے اور انسان وہ چیزیں اور احساسات بھی محسوس کرنے لگتا ہے جو عام آدمی محسوس نہیں کر سکتا۔اگر کسی کو بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کی عادت پڑ جائے تو وہ اپنے ہمعصروں سے بہت آگے نکل جاتا ہے ۔باقی رہا یہ سوال کہ کون سی کتابیں پڑھی جائیں اس کا جواب اگلے کالم میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :