دو کالمی خبر

اتوار 8 مارچ 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

سینٹ انتخابات اور کرکٹ ورلڈ کپ پاکستانی قوم کے لیے اس وقت اہم ترین موضوعات ہیں۔ سینٹ انتخابات اس لیے پوری قوم کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہیں کیوں کہ ان انتخابات میں ایم پی ایز کی بولیاں لگیں۔ کہیں چار سے پانچ کروڑ کی بازگشت سنائی دی تو کہیں پچیس کروڑ سے بھی زیادہ کے راگ سننے کو ملے۔ پاکستانی قوم اپنی بے بسی پہ افسوس کرنے کے بجائے اس تمام صورت حال سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔

نہ تو اقبال کے شاہین اس خطرناک صورت حال کا ادراک کر رہے ہیں کہ ان کے نمائندے بازار میں بکنے کو تیار بیٹھے ہیں نہ ہی قائد کی فکر کے پاسبان اپنی سوچ کے دروازے اس رخ پہ کھولنے کو تیار ہیں کہ جن لوگوں پہ عوام نے اعتماد کیا ان کا مرکز و محور پیسہ بن چکا ہے۔ خواب غفلت میں گم قوم کے لیے بس یہ بات باعث دلچسپی ہے کہ ذرا دیکھیں کہ کس کا ریٹ زیادہ لگتا ہے۔

(جاری ہے)

اور کس کا نام میڈیا میں مرچ مصالحوں کے ساتھ آتا ہے۔ اس بات میں ہرگز دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ہم پہ ویسے ہی لوگ مسلط کیے جاتے ہیں۔ جیسے ہم چاہتے ہیں۔ جو آج بک رہے ہیں کل پھر سے پاکدامنی کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے سامنے ہوں گے اور ہم سب کچھ نظر انداز کر کے دوبارہ سے انہیں مسند ِ اقتدار پہ بٹھا دیں گے۔ اسی طرح میوزیکل چیئر کا یہ کھیل جاری رہے گا۔

حیران کن طور پر بکنے والے اور خریدنے والے دونوں ہی بازار ِ سیاست میں ایوان میں رہنے کی باقاعدہ تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔ اور کروڑوں روپے قیمت لگنے پر بھی ان کے چہروں پہ ایسے معصومیت بکھری ہوتی ہے جیسے کہہ رہے ہوں کہ۔۔۔۔
ہنگامہ ہے کیوں برپا
تھوڑی سی جو پی لی ہے
دوسرا اہم ترین موضوع یعنی کرکٹ ورلڈ کپ۔ پاکستانی قوم کے لیے وبالِ جاں بنا ہوا ہے لوگ اتنی توجہ سے کام کاج نہیں کر رہے جتنی توجہ سے میچ دیکھ رہے ہیں۔

اور پورا دن میچ دیکھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ 4لاکھ روپے سے زیادہ تنخواہ وصول کرنے والے کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہو کر سینہ تان کے پویلین جا رہے ہیں۔ زمبابوے اور ،متحدہ عرب امارات جیسی ٹیموں کے خلاف فتح پر بھی جشن منائے جا رہے ہیں جنہوں نے کرکٹ کھیلنا ہم سے سیکھا۔ بھولی قوم لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے کھلاڑیوں کی صرف ایک بات کہ" ہار جیت کھیل کا حصہ ہے" پر دوبارہ سے ان کو اپنا آئیڈئیل بنا لیتے ہیں۔

اور سوئی ہوئی قوم یہ سوال تک نہیں کرتی کہ کیا وہ کھیلے بھی ہیں؟ یا صرف رونمائی کے لیے گئے ہیں؟ سونے پہ سہاگہ یہ کہ کروڑوں روپے خرچ کر کے جانے والی ٹیم کے کرتا دھرتا جواء خانوں میں ملتے ہیں تو پھر بھی ان کو معصومیت کی سند دے دی جاتی ہے۔ دو بابو مل کر معافی تلافی کی درمیانی راہ نکال لیتے ہیں یا پھر یہ راہ انہیں کوئی چڑیا سجھا دیتی ہے۔


ان دونوں موضوعات پہ قارئین یقینا حیران ہوں گے کہ میرے کالم کا عنوان تو اس بحث سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔ سیاست و کھیل اس لیے موضوع بحث بن گئے کہ پاکستانی قوم ان عام موضوعات میں الجھ کر ایسی خبروں کو نظر انداز کر جاتی ہے جو قوموں کی تاریخ بدل دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سیاست میں کرپشن کے گند اور کھیل میں نا اہلی کے ریکارڈ ز کی وجہ سے اس ملک کی قسمت بدلنے والی خبریں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔

ایسے پس منظر میں چلے جانے والے حقائق شاید بھولی عوام کے لیے معنی بھی نہیں رکھتے۔ لیکن شاید وہ یہ بھی نہیں جاننا چاہ رہے کہ ان کے ٹیکسوں کا پیسہ اس ملک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے بجائے کہاں خرچ ہو رہا ہے۔
جو لوگ اخبارات کا مطالعہ باریک بینی و عرق ریزی سے کرتے ہیں ان کی نظروں سے شاید ایک خبر گزری ہو گی جس میں ایک سابقہ سرکاری ملازم کی بعد از ریٹائرمنٹ مراعات کا تذکرہ تھا۔

در اصل یہ ایک رپورٹ تھی جو ایوان بالا میں پیش کی گئی تھی۔ "یہ ایک دوکالمی خبر تھی" شاید صرف اخبارات کا پیٹ بھرنے کے لیے یا پھر صرف خانہ پری کے لیے یہ خبراخبارات کی زینت بنی ورنہ اگر عوام کی آگاہی کے لیے ہوتی تو واضح اشاعت پاتی۔ مختصراً ان شخصیت کو بعد از ریٹائرمنٹ ان کی تنخواہ کا 85فیصد بطور پنشن مل رہا ہے۔ صرف یہی شخصیت نہیں بلکہ 1985 کے بعد اسی عہدے سے سبکدوش ہونے والی کم و بیش بارہ شخصیات یہی مراعات لے رہی ہیں۔

یہ عہدہ اعلیٰ عدلیہ کا اعلیٰ ترین عہدہ ہے۔ دو ملازمین پنشن کے علاوہ ہیں جن کے اخراجات حکومت وقت کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں تین ہزار ٹیلی فون کالز(لوکل) مفت استعمال کرنے کا حق ہے۔ دو ہزار یونٹ بجلی بھی مراعات و سہولیات کا حصہ ہے۔ سرکاری پانی کا استعمال مکمل طور پہ مفت ہے۔ 300 لیٹر پٹرول بھی مفت ہے۔ ایوان بالا میں یہ بتایا گیا کہ 30جنوری 2014 تک تقریباً4689لیٹر پٹرول بعد از ریٹائرمنٹ استعمال کیا جا چکا ہے۔

جب کہ ایک بلٹ پروف گاڑی کی مرمت و بحالی پہ آنے والا 33,75,029روپے کا خرچ بھی حکومت برداشت کر چکی ہے۔
یہاں یہ بات واضح کرنا نہایت ضروری ہے کہ اس دو کالمی خبر کو موضوع بحث بنانا ہرگز بھی کسی کی ذات پہ بحث کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ پاکستان کے نظام پہ بحث کرنا ہے۔ سب تحریر کرنے کا مقصد اس ملک کے نظام پہ بحث کرنا ہے جس کے ذمے 65ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے ہیں۔

کسی کی ذات پہ تنقید ہرگز مقصد نہیں ہے۔ ضرب تو اس بوسیدہ نظام پہ لگانی ہے۔ سوئی ہوئی قوم شاید یہ نہیں جانتی کہ جس بجلی کے نہ ہونے کا بل وہ ہر مہینے باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں وہ کسی بنگلے ، حجرے یا محل وغیرہ پہ مراعات کی صورت میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ سادہ لوح عوام شاید یہ نہیں جانتی کہ جس پٹرول کے حصول کے لیے وہ قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور جس کو سستا کر کے حکومت ان پہ احسان جتاتی ہے وہی پٹرول اشرافیہ کو مفت میں دستیاب ہے۔

ایک عام پاکستانی کا ٹیلی فون کا کنکشن صرف2,010/-روپے کے واجبات پہ کٹ جاتا ہے( باوجود بل نہ ملنے اور مہینوں فون بند رہنے پہ بھی)۔ لیکن بعض جگہ پہ ہزاروں مفت کالز کی سہولت دے دی جاتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ حکومتِ وقت یا ادارے ان مفت کالز، مفت پٹرول، مفت گاڑیوں، مفت ملازمین،کا خرچہ کہاں سے پورا کرتی ہے ؟ عوام سے۔۔۔ عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد کے۔

۔۔ حکومت کی مثال ایک دھوبی کی سی ہے اور عوام کی اس کے ہاتھ میں نچڑتے کپڑے کی سی اور چھوا چھو کی آواز بھی نہیں آتی ۔
کتنے سرکاری افسران سبکدوشی کے بعد مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟ کتنے لوگ گھروں میں بیٹھ کے عوام کے ٹیکس کھا رہے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو پٹرول و گیس کے جھنجھٹ سے آزاد ہیں؟ کتنے ایسے ریٹائرڈ افسران ہیں جو تا حیات بجلی، گیس، فون وغیرہ مالِ مفت سمجھ کے دلِ بے رحم کے ساتھ کھا رہے ہیں؟ لیکن چھوڑیے ان تمام سوالات کو ۔

ذرا دیکھتے ہیں کہ سینٹ انتخابات کا زیادہ سے زیادہ ریٹ کہاں تک گیا۔ اور کرکٹ ورلڈ کپ میں ہمارے کھلاڑی کیسے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہیں۔ کیوں کہ اہم موضوعات تو بس یہی ہیں جن کو میڈیا بھی خوب کوریج دے رہا ہے۔ باقی کی تمام بحث تو صرف ایک " دوکالمی خبر " ہی ہے اور یہ دو کالمی خبریں تو ایسی ہی ہوتی ہیں کہ بس ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ بس۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :