یا اللہ تیرا ہی آسرا ہے

جمعہ 6 مارچ 2015

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

اس گھپ اندھیرے میں یا اللہ تیرا ہی آسرا ہے۔ اس قوم کا تیرے سوا کون ہے ؟ اگر تو نے بھی اپنی رحمت کو قوم کے کردار سے مشروط کر دیا تو پھر یہ بے چاری بالخصوص غریب لوگ کہاں جائیں گے ؟ جو دو جنگوں میں گھرے ہوئے ہیں۔”دہشت گردی “اور” لوٹ کھسوٹ “کی جنگ۔یا اللہ افواج پاکستان کو ان دونوں جنگوں پر فتح عطا فرما کہ تیری کم و بیش بیس کروڑ مخلوق کا اسی میں بھلا ہے۔

کروڑوں پاکستانیوں کی یہ دعا افواج پاکستان کے ساتھ ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ ” بلا کی لوٹ کھسوٹ“ کے خلاف جنگ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دہشت گردی کے خلاف کہ دونوں پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کر رہی ہیں۔ ہم جب یہ سنتے ہیں کہ آئی۔ایس۔آئی دنیا بھر میں نمبر( ۱) ایجنسی ہے تو معاشی تباہی و بربادی کے راستے پر گامزن پاکستان کی حالت زار پرپاکستانیوں کے دلوں میں یہ شکایت سر اٹھاتی ہے کہ اتنی با صلاحیت ایجنسی دہشت گردوں کے گڑھ تک کیوں نہیں پہنچ پاتی ؟ نعیم بخاری صاحب کے پروگرام میں جنرل (ر) شجاعت علی خان ”آئی۔

(جاری ہے)

ایس۔ آئی “کی پیشہ ورانہ صلا حیتو ں کی تعریف کرتے ہوئے فرما رہے تھے۔
” کبھی کبھی سرمائے کی کمی بھی ہمارے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔“ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”سی۔ آئی ۔ اے کا بجٹ ہم سے تین گنا زیادہ ہے۔ “ بے شک جنرل (ر) شجاعت علی خان صاحب کی یہ بات سو فیصددرست ہے۔ہمارے ہاں عوامی فلاح و بہبود کے سبھی کام سرمائے کی کمی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔

لیکن دوسری طرف ہمارے ہاں ار بوں روپیوں کی لوٹ کھسوٹ کے حوالے سے جس بھی عوامی نمائندے کی دم پر ہاتھ رکھیں، وہی زہریلا بچھو نکلتا ہے۔ ایسی کسمپرسی کی حالت کے تناظر میں ٹی۔وی ہی کے کسی پروگرام میں یہ سن کر بڑی کڑھن ہوئی کہ گزشتہ سال صرف دوبئی میں 4.8بلین ڈالر کی جائیداد خریدی گئی ہے۔
ٍیکم مارچ کے ٹاک شو ” سوال یہ ہے “ کے پر ڈیوسر ڈاکٹر دانش نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیٹوں علی ڈار ، جو کہ میاں نواز شریف کے داماد بھی ہیں، اور حسنین ڈار کی دوبئی میں بزنس ایمپائر کی دل دہلا دینے والی تفصیل سنائی تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس تفصیل کو رَد کرتے ہوئے کہا۔

” میں نے ۱۹۷۴ ءء میں چاٹرڈ کاوٴٹنٹ کی ڈگری انگلینڈ سے لی تھی اور تب سے آج تک انگلینڈ اور دوبئی میں اکاوٴنٹ کنسلٹنٹ کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں اور میں کسی کو اپنی انکم بتانے کے لئے باوٴنڈ نہیں ہوں۔ اپنے بیٹوں کو بزنس کے لئے سرمایہ میں نے گفٹ کیا تھا۔“موصوف نے پاکستان کے ساتھ مخلص اور اپنے پاک دامن ہونے کے لئے کچھ قسمیں بھی کھائیں“ قسموں کے بعد اسحا ق ڈار پر کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

لیکن موصوف پر یقین کرنے کی راہ پر کچھ کانٹے پاوٴں میں چبھنے لگتے ہیں ۔ جہاں تک موصوسف کا پاکستان کے ساتھ مخلص ہونے کا تعلق ہے۔ اُس کی سچائی کا شاہد موصوف کا پاکستان کی کسی عدالت میں، یہ بیان بھی ہے کہ” میں میاں نواز شریف کے لئے منی لانڈرنگ کرتا رہا ہوں“ اس کے علاہ موجودہ دور میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے موصوف کا یہ بیان بھی موجود ہے کہ سویز بنکوں میں پاکستانی لٹیروں کے جو دو سو بلین ڈالر رکھے ہیں وہ ہم واپس لے کر آئیں گے۔

وہ پیسے ابھی تک واپس نہیں آئے۔کیوں ؟ کیا یہ بتانا ضروری ہے ۔ پاکستانی عدلیہ میں ایسے جھوٹوں پر جھوٹ بولنے کا کوئی مقدمہ نہیں چلتا کہ خلفائے راشدین کے بعد ایسا شخص کون ہے۔ جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو۔سبحان اللہ ! ایک جھوٹے آدمی کو چھوڑنے کی کتنی نرالی مَنطق ہے۔
پاکستان اور پاکستانی عوام سے زیادہ میاں برادران سے ہمدردی کی شہرت رکھنے والے تین رانا صاحبان میں سے ایک رانا افضال، جو ڈاکٹر دانش کے مذکورہ شو میں موجود تھے، نے وزیر خزانہ کی وکالت کرتے ہوئے کہا۔

” اسحاق ڈار صاحب دنیا میں ایک معروف اکانمسٹ اور چارٹرڈ اکاٹنٹ کی شہرت رکھتے ہیں ۔ جن کی ایک اکاوٴنٹ فرم بھی ہے۔جس کی ماہانہ انکم ڈیڑھ ملین ڈالر ہے “ میں نے ٹورونٹو کے ایک معروف چارٹرڈ اکاوٴنٹٹ ، جن کی گزشتہ پچیس تیس سال سے ایک مصروف تریں ایک اکاوٴنٹ فرم بھی ہے، سے پوچھا کہ کیا کسی چارٹرڈ اکاٹنٹ کی اتنی انکم ہو سکتی ہے ؟ جوابا وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے۔


” اسحاق ڈار صاحب کے کاغذی شیش محل بنانے کی کہانیاں سبھی پڑھے لکھے پاکستانی بخوبی جانتے ہیں ۔ اسحاق ڈار ایک صاحبِ کمال انسان ہیں،وہ اپنی فرم کی انکم جتنی چاہیں کاغذوں پر شو کر سکتے ہیں۔لیکن سچ یہ ہے کہ کسی چارٹر اکاوٴٹنٹ کی ڈیڑھ ملین ڈالر ماہانہ اور اٹھارہ ملین ڈالر سالانہ انکم نا ممکن ہے، اتنی انکم کے لئے جتنے کلائنٹس کی ضرورت ہے ، اُن کی سروس کے لئے ایک بہت بڑے سٹاف کی ضرورت ہوتی ہے۔

جس کی تنخواہ دینے کے بعد باقی کیا بچتا ہے ؟ آپ خود حساب لگا لیں۔کسی کی انکم کا سب سے بڑا ثبوت ادا کئے گئے انکم ٹیکس کی رسیدیں ہوتی ہیں اورایک بات یقینی ہے کہ جس دن اسحاق ڈار کسی ایماندار اورپاکستان کے ساتھ مخلص آمر کے شکنجے میں آ گئے تو اپنی ڈیڑھ ملین ڈالر ماہانہ انکم ثابت نہیں کر سکیں گے۔
رانا افضال نے ن لیگ کے کئی دوسرے جانبازوں کی طرح ڈاکٹر دانش سے یہ بھی کہا اور دو ٹوک لہجے میں کہا۔

” اگر آپ کے یہ الزامات درست ہیں تو آپ انہیں عدلیہ کے پاس کیوں نہیں لے جاتے ؟ کاش کہ کوئی رانا افضال صاحب سے پوچھ سکتا۔” جناب والا !کس عدلیہ کے پاس ؟ جو سانحہ ماڈل ٹاوٴن پر ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس باقر رضوی کی رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے کی تخت لاہور کی سینہ زوری کے جواب میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، معروف کالم نگار ایاز امیرکے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں میاں صاحب کی کم و بیش سات ارب روپئے کی نا دہندگی کا ایک کیس گزشتہ دس سال سے قوم کی فاقہ مستی پر آنسو بہا رہا ہے۔

میاں صاحب کے خلاف انصاف لینے کے لئے کوئی کس عدلیہ کے پاس جائے؟ جس نے حال ہی میں میاں صاحب کی نا اہلی کے کیس پر یہ کہہ کر میاں صاحب کے کیس کو خارج کر دیا تھا کہ خلفائے راشدین کے بعد کون ہے ؟ جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور اب تازہ تریں کیس ”کھرا سچ “ والے مبشر لقمان کا ہے، جس کے شو کو محض سچ بولنے کے جرم میں بینڈ کر دیا گیا ہے۔ مبشر لقمان کا کہنا ہے کہ ”پیمرا“ اپنے قوانین کے مطابق میرے پروگرام کو بینڈ کر ہی نہیں سکتا۔

اس لئے کہ” پیمرا“ ٹی۔ویز کو لائسنس دیتا ہے اور ٹی۔ویز ہی کو بینڈ کر نے کا اختیار رکھتا ہے۔”پیمرا “ٹی۔ویز پر کام کرنے والے صحافیوں کو لائسنس دیتا ہے اور نہ کسی بھی صحافی کو بینڈ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔کسی صحافی کو صرف عدلیہ بینڈ کر سکتی ہے۔ مبشر لقمان کے خلاف” پیمرا“کا یہ نادر شاہی اقدام میاں صاحب کی نام نہاد جمہوریت کے مُنہ پر ایک شرمناک طمانچہ ہے۔

لیکن شرم توہمارے ہاں عدل و انصاف ہی کی طرح مر چکی ہے۔ میاں صاحب کے حاشیہ بردار تو لوگوں کو عدلیہ کا راستہ دکھاتے ہیں۔اگر مبشر لقمان کے انکشافات میں سے کوئی من گھڑت انکشاف تھا، کوئی خبر جھوٹی تھی تو میاں صاحب انہیں عدلیہ کے پاس کیوں نہیں لے گئے؟ اُن کا پروگرام ”پیمرا “ کے چیئر مین سے ایک نادر شاہی حکم کے تحت کیوں بند کرایا گیا ہے؟جس چیئر مین کی تقرری نجم سیٹھی کی طرح ایک الگ شرمناک کہانی ہے۔

اللہ ہی جانے کہ پاکستان میں اداروں کو اپنے خوشامدی اور ضمیر فروش لوگوں کے حوالے کرنے کا یہی رحجان اور عدل و انصاف کے گھٹا ٹوپ اندھیرے پاکستان کو کس گڑھے میں پھینکے گے ؟
میاں صاحب کی شہرت میں لوٹ کھسوٹ کے علاوہ ایک داغ یہ بھی ہے کہ وہ قومی اداروں کو اپنی پسند کے نا اہل لوگوں کے حوالے کر کے قومی اداروں کو تباہ کر رہے ہیں۔دوسری طرف میاں صاحب کی نوازشات اور احسانات کے بوجھ تلے دبے ہوئے صحافی رائی کا پہاڑ بنانے کے دھن میں یہ لکھ کر کہ چھوٹے میاں صاحب ٹیلنٹ کی تلاش میں رہتے ہیں اور جہاں بھی انہیں کوئی ٹیلنٹڈ آدمی مل جاتا ہے تو اسے فوراً ، اُس کے ٹیلنٹ کے مطابق کسی کام پر لگا دیتے ہیں۔

کاش کہ چھوٹے میاں صاحب کو سارے پاکستان میں سابق کرکٹرز میں سے کوئی کرکٹ کی سوجھ بوجھ رکھنے کا ٹیلنٹڈ پرسن بھی مل جاتا تو آج ورلڈ کپ کت میدان میں پاکستانی قوم کو جو دہچکے لگ رہے ہیں۔وہ نہ لگتے۔
میرے پاکستان کی ٹیم اپنی بہتر کار گزاری کے سبب کبھی پوری دنیا میں انتہائی عزت مندانہ پہچان رکھتی تھی۔یہاں ٹورونٹو میں ہر سال ”صحارہ کپ “ہوا کرتا تھا۔

جس میں ہندوستان ہمیشہ ہارا کرتا تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے ایک عوامی لیڈر کا بیان مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ نہیں کھیلنا چاہیے ، پاکستان سے ہار کر ساری قوم ڈیپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔الغرض ”صحارہ کپ “ بھی ” شارجہ “ میں ہر سال جو کرکٹ کا میدان سجایا جاتا تھا، کی طرح انڈیا ہی کی طرف سے بند کیا گیا تھا۔

میرے پاکستان کی کرکٹ ٹیم دنیائے کرکٹ میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی تھی۔آج اس کی حالت پر کسی کا شعر ایک سسکتی ہوئی آہ بن کر لبوں سے پھسل جاتا ہے۔
میں کی پر زور سمندر تھے میرے پاوٴں میں
اب کے ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاوٴں میں
غلطیاں تو کسی سے بھی ہو سکتی ہیں۔لیکن ہمارے محسن قوم میاں صاحب ! غلطیاں نہیں کرتے ،قومی اداروں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے اپنی مرضی کے لوگ ، اُن کی ذہانت و فطانت اور جس کام کے لئے انہیں رکھا جا رہا ہوتا ہے،اس سے ان کی واقفیت کی پروا کئے بغیر صرف ” ییس مین “ رکھ لیتے ہیں۔

میاں صاحب کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی غلطیوں کو یہاں تک کہ کرپشن کو بھی بڑی فراخ دلی سے معاف کر دیتے ہیں،ورنہ معین خان اور نجم سیٹھی جیسے کرپٹ لوگوں کا کب سے تّیا پانجہ ہو چکا ہوتا ۔ معین خان کا کیسینو میں پایا جانا میرے قریب کوئی ایسا قانونی جرم نہیں ہے کہ انہیں معاف نہ کیا جا سکے۔ وہ کیسینو میں اپنے فارغ ٹائم میں بیٹھے تھے اور یہ اُن کا ذاتی فعل تھا۔

میرا اُن سے بس ایک سوال ہے کہ وہ چیف سلیکٹر ہیں۔ انہوں نے پشاور سے کراچی تک کرکٹ کا ٹیلنٹ تلاش کرنے کی کتنی کوشش کی ہے ؟ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ انڈیا کی کرکٹ میں سوائے کپتان کے ایک بھی پرانا کھلاڑی نہیں ہے اور سبھی نئے کھلاڑی آگ کے پڑکالہ ہیں۔ ہم ہمیشہ سے سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کا بڑا ٹیلنٹ ہے۔بورڈ میں لاکھوں روپئے ماہانہ تنخواہ لینے والے لوگ اُس ٹیلنٹ کی تلاش کیوں نہیں کرتے ؟ یہ سفارشی لوگوں ہی کے گھیرے میں کیوں گھرے رہتے ہیں ؟
ٹی۔

وی کے کسی پروگرام میں بتایا جا رہا تھا کہ نجم سیٹھی ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے انڈیا گئے تھے اور وہاں اُن کے میزبان کوئی بہت بڑے بُکی تھے۔میں کہتا ہوں کیا اس خبر کے بعد ان کا کرکٹ بورڈ میں رہنا ، کر کٹ کی تباہی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ان کا اپنا بیان ہے کہ عوام اپنی ٹیم سے زیادہ توقعات نہ رکھیں۔خدا کے واسطے کوئی تو اُن سے پوچھے کہ انہوں نے ایسی ٹیم ، جس سے زیادہ توقعات نہ رکھنے کا مشورہ قوم کو دے رہے ہیں، انہوں نے ورلڈ کپ میں اتاری ہی کیوں ہے ؟
میاں صاحب ! خدا کے واسطے باقی محکموں کی تباہی کے بارے میں تو قوم کو اسی وقت معلوم ہو تا ہے جب کوئی خبر باہر نکلتی ہے۔

کرکٹ بورڈ تو ایسا محکمہ ہے جس کی کار گزاری کے ساتھ قوم کے دل دھڑکتے ہیں ۔ قوم کے پاس خوشی کا ایک یہی ذریعہ رہ گیا ہے ۔ اپنی کرکٹ ٹیم کے ساتھ پوری قوم کے دل دھڑکتے ہیں۔خدا کے واسطے کرکٹ بورڈ کے کندھوں پر ، کرپٹ ، ضمیر فروش اور بد کردار قسم کے اپنے منظور نظر لوگوں کو سوار نہ کریں۔نجم سیٹھی کا اگر آپ پر کوئی احسان ہے تو اُس کی قیمت اپنی گرہ سے ادا کریں اور اپنے پیارے نجم سیٹھی کو اپنے درجنوں کاروباری اداروں میں سے کسی کا چیئر مین بنا دیں۔

لیکن کرکٹ
بورڈ کو ان سے بچا لیں۔جاتے جاتے ایک تو اچھا کام کر جائیں۔کرکٹ بورڈ کے کندھوں پر سوار دو کرکٹ سے نا آشنا گدوں کی جگہ کسی کرکٹ سے آشنا سابق کرکٹر کو بٹھا جائیں اور چیف سلیکٹر کی جگہ انضمام الحق یا کسی بھی سابق کرکٹر لیکن محنتی انسان کو لگا جائیں۔ قوم آپ کے اس احسان ہی کے طفیل کبھی آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کر لیا کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :