انسداد تشدد بل ، جواب دہی کی طرف احسن قدم

جمعہ 6 مارچ 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

اچھی یا مثالی حکومت اسے کہا جاتا ہے جہاں انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہونے کے ساتھ اس کی عزت نفس بھی محفوظ رہے اور کام کرنے کے مواقع بھی یکساں دستیاب ہوں اس کے ساتھ امن و امان کی صورت حال ایسی ہو کہ انسان کو کسی قسم کا خوف محسوس نہ ہو بدقسمتی سے پاکستان میں ان ساری باتوں کا فقدان ہے۔حکومت ہے مگر شہریوں سے لاتعلق، شہری کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں حکومتی اشرافیہ کو اس کی کوئی خبر نہیں۔

عام آدمی تو یہاں تک کہتا پایا جاتا ہے کہ نظام فیل ہو چکا ہے کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے جب شہریوں کو انصاف نہیں ملنا ان کے ساتھ ہونے والی کسی بھی قسم کی زیادتی کا ازالہ ہی نہیں ہونا تو پھر ان کے نزدیک حکومت ہے یا نہیں سے کیا فرق پڑتا ہے ہم ابھی تک بنیادی سوالوں کے جواب تلاش نہیں کر سکے اور جن مسلوں کو دنیا برسوں پہلے حل کر چکی ہم آج بھی انہی کے ساتھ جڑئے چلے آرہے ہیں ہمارے ہان قانون سازی تو ہوتی ہے مگر قانون پر عملدرامد کرنے کی مشینری فیل دکھائی دیتی ہے خواتین اور بچے کسی بھی معاشرے کا کمزور ترین طبقہ ہوتا ہے اور حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے پاکستان میں خواتین اور بچوں کے ساتھ معاشرے کی جانب سے رکھے گئے ناروا سلوک کے خلاف برسوں سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں ہوں یا درد دل رکھنے والے افراد ان کا یہ ماننا ہے کہ ہم خواتین اور بچوں کے ساتھ کوئی مناسب رویہ نہیں رکھتے ان کے ساتھ ہونے والی ہر طرح کی زیادتیوں کے واقعات سے روزانہ اخبارات بھرے نظر آتے ہیں لیکن ان کی داد رسی نظر نہیں آتی قانون سازی کے عمل میں بھی ہم بہت پیچھے ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ دنوں سینٹ سے تشدد کے خلاف پاس ہونے والے بل سے یہ امید بندھی ہے کہ بچوں اور خواتین کے ساتھ ظلم کرنے والے اب انصاف کے کٹہرئے میں کھڑئے نظر آئیں گے۔
جواب دہی کا تصور کسی بھی معاشرے کی بقا کی ضمانت ہوتا ہے سینٹ سے پاس ہونے والا یہ بل جواب دہی کے تصور کو اجاگر کرتا نظرآرہا ہے حاصل معلومات کے مطابق سینیٹ نے متفقہ طور پرجن چار اہم بلوں کی منظوری دے دی ہے( تعزیرات پاکستان 1860ء اور مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898ء اور قانون شہادت آرڈر 1984ء میں مزید ترمیم کے لئے انسداد جنسی زیادتی قوانین (فوجداری قوانین ترمیمی بل 2014ء ) جس کی تفصیل کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم بنانے کا بل اور تیز ترین انصاف فراہم کرنا بھی شامل ہے۔

پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے دوران حراست تشدد اور موت کے ذمہ دار عناصر کو سزائیں دینے کے حوالے سے بھی بل کی منظوری دی ہے ۔سینیٹ نے پرائیویٹائزیشن کمیشن آرڈنینس میں ترامیم کا بل بھی منظور کیا ہے تاکہ اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔
یہ تمام بل حزب اختلاف کی مرکزی جماعت پیپلزپارٹی کی خاتون رکن سیدہ صغری امام نے پیش کیے اور ایک بل فرحت اللہ بابر نے پیش کیا یہ دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں کے انہوں نے ایک طویل جدو جہد کے بعد یہ بل سینٹ سے پاس کروا لیے ہیں۔

صغری امام کی بہترین کار کردگی کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں دوبارہ سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ بل صدارتی اور قومی اسمبلی کی منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کر لیں گے۔ بل کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم بنانے کے لیے بل میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر (سی آر پی سی) 1898 میں ترامیم کی گئی ہیں۔ بل میں بتایا گیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل پاکستان بھر میں عام ہیں اور ہر سال اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد مارے جاتے ہیں“۔

بل میں کہا گیا ہے کہ خواتیں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے عورت فاونڈیشن سے حاصل کردہ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ 2012 میں غیرت کے نام پر 432 خواتین قتل ہوئیں، 2011 میں 705 ، 2010 میں 557، 2009 میں 604 اور 2008 میں 475 قتل ہوئے۔ان اعدادوشمار میں وہ واقعات شامل نہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے یا وہ مرد جو خواتین کے ساتھ غیرت کے نام پر قتل ہوئے، موجودہ قوانین میں موجود جھول اور رخنوں کی روک تھام اس طرح کے جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔


انسداد تشدد بل ،تشدد، حراست میں ہلاک اور زیرحراست زیادتی بل 2014 میں حراست میں تشدد اور زیادتی و ہلاکتوں کے ذمہ داران کو قید اور جرمانے کی سزاوں کی تجویز دی گئی ہے اور اس بل کو پی پی پی کے فرحت اللہ بابر نے ایوان میں پیش کیا۔اس بل میں تشدد کے ذریعے لیے گئے بیانات کو ناقابل قبول جبکہ زیرحراست موت یا زیادتی کے ملزمان کو عمر قید اور تیس لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، اسی طرح تشدد پر کم از کم پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزاوں کی تجویز دی گئی ہے۔

تشدد کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دوران حراست کسی شخص کو جسمانی یا ذہنی تکلیف پہنچانا ہے تاکہ کوئی معلومات یا اعتراف حاصل کیا جاسکے یا ایک خاتون کو اس مقصد کے لیے ہراساں اور زیادتی کا ہدف بنایا جائے۔بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کوئی سرکاری ملازم یا کوئی اور شخص دانستہ یا غیردانستہ طور پر زیرحراست موت یا زیرحراست زیادتی کے جرم کی روک تھام میں ناکام ہو اسے بھی کم از کم سات سال قید جسے دس سال تک بڑھایا جاسکتا ہو اور جرمانے جو دس لاکھ روپے تک ہوسکتا ہے، کی سزائیں دی جائیں۔

کسی اور کے جرم میں کوئی نہیں پکڑا جائے گا اس حوالے سے بھی بل میں قدغن لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی جرم کے ملزم کی معلومات کے حصول کے لئے اس کے گھر کی خاتوں یا کسی اور فرد کو حراست میں نہیں لیا جائے گا۔ کسی خاتون/لڑکی کو کوئی مرد حراست میں نہیں لے سکتا یا رکھ سکتا اور صرف خواتین سرکاری ملازمین ہی ملزمہ خاتون کو حراست میں لے سکتی ہیں۔

بل کے تحت تشدد کے خلاف شکایات وفاقی تحقیقاتی ادارے یا سیشن جج کے روبرو سرکاری ملازمین سمیت کسی بھی فرد کے خلاف دائر کی جاسکتی ہیں۔بل میں تجویز دی گئی ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے دائر کی گئی شکایات قابل سزا ہوں گی اور اس کے مرتکب افراد کو ایک سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانے تک کی سزا سنائی جاسکے گی۔ جنسی زیادتی کے متاثرین کی شناخت کو ظاہر نہ اورعدالتی کارروائی کی اشاعت پر متعلقہ عدالت کی منظوری کے بغیر پابندی لگائی گئی ہے اور اس شق کی خلاف ورزی پر دو سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

اس بل کے مطابق ایسے پولیس اہلکاروں یا دیگر سرکاری ملازمین کے خلاف سزائے موت کی تجویز دی گئی ہے جو دوران حراست خواتین سے زیادتی میں ملوث پائے جائیں۔ جبکہ مناسب طریقے سے تحقیقات کرنے یا کسی عدالت میں مقدمے کی درست طریقے سے پیروی اور اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری ملازمین کو تین سال قید کی مزید تجویز دی گئی ہے ۔بادی النظر میں یہ ان بلوں کے بعد جواب دہی کا تصور اجاگر ہوتا نظر آئے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قانون کی حکمرانی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے انتظامی مشینری کو بھی اس بات کا پابند کرے کہ شہریوں کی عزت سب سے پہلا اصول ہونا چاہیے اور ظلم و جبر کرنے والا کوئی بھی فرد قانون سے بچنے نہ پائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :