بکاوٴ مال

پیر 2 مارچ 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہارس ٹریڈنگ توہماری جمہوریت کاجزوِلاینفک ہے۔کیا مزہ ایسی سیاست میں جس میں کوئی ”لوٹا“ہو نہ ”بکاوٴمال“۔ساری رونقیں تو انہی کے دَم قدم سے ہیں ،اگریہ نہ ہوں توہماری سیاست پرجمود طاری ہوجائے اِس لیے کوئی کچھ بھی کہے ،ہم توہارس ٹریڈنگ کے حق میں ہی ہیں ۔حیرت ہے کہ جمہوریت کی روحِ رواں ”ہارس ٹریڈنگ“کو رواج دینے والے ہی آج اِس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔

شاید وہ 1989ء کاوہ دَور بھول چکے جب ہارس ٹریڈنگ کاشور اُٹھا،میاں صاحب اپنے اراکین کوچھانگامانگا لے گئے اوربی بی شہیداپنے اراکین کوجہازوں میں بھرکے سوات جاپہنچیں ۔تبھی ہارس ٹریڈنگ اورلوٹاکریسی کارواج پڑاجو آج تک جاری وساری ہے ۔نوازلیگ اورتحریکِ انصاف نے اِس خریدوفروخت پر بہت شورمچایا اور وزیرِاعظم صاحب نے توپارلیمانی لیڈروں کا اجلاس بھی بلالیا لیکن ”کَکھ“ فائدہ نہ ہوا ۔

(جاری ہے)

پیپلزپارٹی اورجمعیت علمائے اسلام نے تو ”ٹَکاسا“جواب دے دیااور سوائے تحریکِ انصاف ،جماعت اسلامی اورایم کیوایم کے کسی نے کھُل کر 22ویں ترمیم کی حمایت بھی نہیں کی ۔نوازلیگ بلوچستان میں”وَخت“ میں پڑی ہوئی ہے ۔بلوچستان کے نوازلیگ سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی کوغصّہ یہ ہے کہ وزیرِاعظم صاحب نے اکثریت رکھنے کے باوجود بلوچستان کی حکومت ڈاکٹرعبد المالک کے سپردکیوں کی ۔

اب وہ اپنے ووٹ بیچ کرمیاں صاحب کوسبق سکھانے کی تگ ودَو میں ہیں ۔کچھ ایسی ہی صورتِ حال کاسامنا خیبرپختونخوا میں ہمارے کپتان صاحب کوہے ۔اُنہوں نے جذبات میں آکر اسمبلیوں سے استعفے تودے دیئے لیکن یہ سوچاتک نہیں کہ اِس کاردِعمل بھی آسکتاہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف کے بہت سے گھوڑے اِدھراُدھر مُنہ مارتے پھِر رہے ہیں اور وزیرِاعلیٰ بے بَس ۔

جماعت اسلامی تحریکِ انصاف کے اتحادسے خیبرپختونخوا میں اپنا ایک سینیٹر منتخب کرواسکتی ہے لیکن ہارس ٹریڈنگ کی صورت میں نتیجہ کیانکلتاہے ،اللہ جانے یا”گھوڑے “۔
اُدھرشاطرانہ چالیں چلنے کے ماہرمحترم آصف زرداری اِس ساری صورتِ حال کافائدہ اٹھانے کی تگ ودَومیں ہیں۔ اُن کے 40 میں سے 21 سینیٹرفارغ ہونے کے باوجودبھی وہ سینٹ کی چیئرمینی چاہتے ہیں ۔

پیپلزپارٹی کوسندھ سے توآسانی سے 7 سیٹیں مِل جائیں گی لیکن مرکز سمیت باقی کسی بھی صوبے میں وہ اپناکوئی بھی سینیٹر منتخب کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اگروہ کسی نہ کسی طریقے سے مزید تین چار سینیٹرمنتخب کروانے میں کامیاب ہوجاتی ہے توپھر باقی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مِل کروہ سینٹ کی چیئرمینی کی دَوڑمیں شامل ہوسکتی ہے اِس لیے اُسے ہارس ٹریڈنگ ہی راس ہے کیونکہ اِس کے بغیرتو سینٹ کی چیئرمینی محض خواب ہی رہے گی ۔

اب ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب ہونے والے رہنماوٴں کی منڈی سج چکی ۔ہرضمیرفروش نے اپنی قیمت اپنی پیشانی پہ لکھ لی ۔انسانوں کی اِس منڈی میں سب سے زیادہ قیمت خیبرپختونخوا ،بلوچستان اورفاٹاکے ”گھوڑوں“کی ہے کیونکہ پنجاب میں نوازلیگ کو قطعی اکثریت حاصل ہے اورسندھ میں پیپلزپارٹی اورایم کیوایم کا الحاق ہونے کے بعدسندھ کی صورتِ حال بھی پنجاب جیسی ہی ہے۔

سب سے زیادہ بولی فاٹاکے گھوڑوں کی لَگ رہی ہے کیونکہ وہاں صرف تین ووٹوں سے ایک سینیٹرمنتخب ہوسکتاہے ۔شنیدہے کہ یہ بولی چالیس کروڑروپے تک پہنچ چکی ہے ۔بلوچستان میں دَس ووٹوں سے ایک سینیٹرمنتخب ہوگا اور خیبرپختونخوامیں 14 ووٹوں سے ،اِس لیے ارب پتی انہی علاقوں سے ضمیرفروشوں کی تلاش میں ہیں ۔
ہمارے کپتان صاحب نے توبہت پہلے سے ہارس ٹریڈنگ کاشور مچاناشروع کردیا تھا لیکن کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی البتہ جب محترم آصف زرداری نے چومکھی چال چلناشروع کی تو نواز لیگ کوبھی ہوش آیااور وزیرِاعظم صاحب نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے ٹھَک سے آل پارٹیزکانفرنس طلب کرلی جس میں تقریر کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا ”ووٹ خریدنا ضمیرخریدنے کے مترادف ہے ۔

سب کومِل کر سینٹ کے تقدس میں اضافہ کرنا ہوگا اور ضمیرفروشی کے اِس کاروبارکو روکناہوگا کیونکہ پیسے دے کرووٹ خریدنا سب کے لیے بدنامی کاباعث ہے ۔اِس اے پی سی کا نتیجہ یہ نکلا کہ حریف ،حلیف بن گئے اور حلیف حریف ۔پیپلزپارٹی جوجمہوریت کی بقاکی خاطر نوازلیگ کے کندھے سے کندھاملا کرکھڑی تھی اُس نے 22 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے سے صاف انکار کردیا اورمولانا فضل الرحمٰن جو نوازلیگ کی حکومت کاحصّہ ہیں،نے فرمادیا کہ وہ 21 ویں ترمیم کے ڈَسے ہوئے ہیں اورمومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا اِس لیے وہ بھی 22 ویں ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے ۔

مرنجاں مرنج سیّدخورشیدشاہ نے کہا ”ہم جان بوجھ کرحکومت کو ”ٹَف ٹائم“نہیں دیتے لیکن ارکانِ پارلیمنٹ پرچور اورکرپٹ کاالزام لگانامناسب نہیں “۔دوسری طرف تحریکِ انصاف ڈَٹ کرحکومت کے ساتھ کھڑی ہوگئی اوریہ عندیہ بھی دے دیاکہ اگر 22ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے لیے پارلیمنٹ میں بھی آناپڑا توآجائیں گے ۔ایم کیوایم نے بھی حکومت کابھرپورساتھ دینے کا اعلان کردیا ۔


موجودہ منظرنامے کو مدّ نظررکھتے ہوئے وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ ہارس ٹریڈنگ کی اصل قصوروار سیاسی جماعتیں ہیں ،گھوڑے نہیں۔ وہ سیاسی جماعت جوایک سیٹ بھی حاصل نہیں کرسکتی ،اُس نے بھی تین ،تین اُمیدوار کھڑے کیے ہوئے ہیں ۔پیپلزپارٹی پنجاب ،خیبرپختونخوا اوربلوچستان سے ایک سینیٹربھی منتخب نہیں کرواسکتی لیکن اُس نے ہرجگہ اپنے امیدوار کھڑے کیے ہوئے ہیں۔

اُس کے خیبرپختونخوا میں صرف پانچ اراکینِ اسمبلی ہیں جبکہ ایک سینیٹرکو منتخب کروانے کے لیے 17 اراکینِ اسمبلی کی ضرورت ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اُس نے وہاں سے بھی تین اُمیدوار کھڑے کیے ہیں ۔پیپلزپارٹی ،اے این پی اورعوامی وطن پارٹی ،تینوں مِل کر خیبرپختونخواسے بمشکل ایک سینیٹر منتخب کرواسکتی ہیں جبکہ اِن تینوں کے تین ،تین اُمیدوارمیدان میں ہیں اور اِن سبھی کی رال تحریکِ انصاف کے اراکین پرٹپک رہی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ کپتان صاحب ہارس ٹریڈنگ کا سب سے زیادہ شورمچا رہے ہیں۔آفتاب شیرپاوٴ صاحب نے سینیٹروقار اورگلزار کے خاندان کے عمارکوٹکٹ دے کرمیدان میں اتارا ہے ۔آفتاب شیرپاوٴ کے پاس صرف 9 ووٹ ہیں باقی 5 ووٹ یہ ارب پتی خاندان خریدنے کی تگ ودَو میں ہے مولانافضل الرحمٰن کے پاس 17 ووٹ ہیں اوراگر کوئی ووٹ کھسک نہ لیا تووہ اپنے بھائی مولانا عطاء الرحمٰن کوتو سینیٹر منتخب کرواہی لیں گے لیکن مولانا بھی دوسینیٹرز کے خواہش مندہیں ۔وزیرِاعظم صاحب نے بالکل بجاکہا کہ ووٹ خریدنا ضمیرخریدنے کے مترادف ہے لیکن جب سیاسی جماعتیں ہی اِس ضمیرفروشی کے دھندے میں ملوث ہوں توپھرکیاآمریت جمہوریت سے بہترنہیں؟ ۔اگرنہیں توپھر ہارس ٹریڈنگ میں حرج ہی کیاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :