جمہوریت کا معجزہ یا مفتی کا جُوا؟

پیر 2 مارچ 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

مقناطیسیت کی سائنس کے شاگردوں کے لئے یہ بات ناقابلِ یقین ہے کہ قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی نہ صرف ایک دوسرے کے نزدیک آئیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کر ایک بھی ہو جائیں۔ لیکن سائنس یا کسی بھی علمی اصول سے آزاد سیاسی دُنیا میں اس طرح کا نا قابلِ یقین عمل ہوتا بھی ہے اور سیاستدانوں نے اس کے لئے ”جمہوریت کے معجزہ“نام کی وجہ بھی دریافت کر لی ہے۔

پی ڈی پی کے بھاجپاکے ساتھ اتحادپر آمادگیکے اشارے اسمبلی انتخابات کے بعد ہی ملنے لگے تھے تاہم دو ماہ کے طویل عرصہ تک اس اتحاد کا اعلان ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو مُسلم اکثریت والی ریاستِ جموں و کشمیر کی سرحدوں سے باہر رکھنے کے نام پر ووٹ حاصل کر چکی پی ڈی پی محض ایک اصطلاح کی ”تحقیق“میں تھی کہ جسکا استعمال کر کے ایک غیر مقدس رشتے کو کشمیر جیسے حساس علاقے میں شرفِ قبولیت بخشوانے کی کوشش ہو۔

(جاری ہے)

”جمہوریت کے معجزہ“کی اصطلاح پی ڈی پی کو مل گئی بلکہ پی ڈی پی کو یہ نئی اصطلاح گڈھنے میں کامیابی ملی تو …جموں و کشمیر میں بھاجپا-پی ڈی پی اتحاد کی سرکار بننے کا اعلان ہو گیا۔
ووتروں کو تھکا دینے والی ”بات چیت“،مذاکرات،میٹنگوں اور نہ جانے کیا کیا کے دو ماہ پر محیط دور کے بعد مفتی محمد سعید نے بھاجپا کے ساتھ جانے کا اعلان کرکے اپنی طویل اور کئی اعتبار سے اہم سیاسی زندگی کا سب سے بڑا جُوا کھیلا ہے ۔

یہ ایک ایسا جُوا ہے کہ جس میں مفتی محمد سعید کے بہت کچھ جیت جانے کو ایک معجزہ ہی کہا جا سکے گا لیکن اُنکے اپنے آپ کو ہار جانے کے حالات واضح نظر آ رہے ہیں۔
ریاست جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے دو ماہ بعدپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں حکومت تشکیل پانے کا معاہدہ طے پایا گیا ہے اور دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے مخلوط سرکار قائم کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا۔

حکومت سازی کے سلسلے میں منگل کو پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے نئی دلی میں بی جے پی صدر امِت شا سے ملاقات کی۔ملاقات کے بعددونوں پارٹی سربراہوں نے جموں کشمیر میں مخلوط حکومت بنانے پر اتفاق ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ اگلے چند روز میں نئی حکومت معرضِ وجود میں آئے گی۔
بھاجپا صدر امِت شاکی نئی دہلی میں رہائش گاہ پر45/منٹ تک ہوئی اِس میٹنگ کے دوران کم از کم مشترکہ پروگرام کوحتمی شکل دی گئی اور باضابطہ اعلان کیا کہ اُن کی جماعت بی جے پی کے ساتھ افہام و تفہیم کے بعد مخلوط حکومت بنانے کے ایک سمجھوتے پرپہنچ گئی ہے۔

محبوبہ کے ساتھ میٹنگ میں پارٹی کے سینئر لیڈر اور رکن پارلیمان مظفر حسین بیگ جبکہ امِت شا کیساتھ رام مادھو بھی موجود تھے۔محبوبہ مفتی نے بھاجپا صدر کے ساتھ مشترکہ طور میڈیا کو بتایا ”ہم حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں“۔ محبوبہ مفتی نے تاہم تفصیلات دینے سے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کی کہ مفتی مودی ملاقات کے بعد ہی اس پر بات کی جاسکتی ہے۔

پی ڈی پی صدر نے کہا کہ دونوں جماعتوں نے ایک ”درمیانی راستہ “تلاش کرلیا ہے اور نئی حکومت صرف اقتدار کی شراکت نہیں بلکہ لوگوں کے دل جیتنے کے لئے معرض وجود میں آرہی ہے۔اُنہوں نے کہا”ہم نے میٹنگ میں ریاست کی تعمیر وترقی اورعوام کے جذبات کومدنظر رکھتے ہوئے پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد کیلئے ایک ایجنڈا مرتب کرلیا ہے “۔ اس موقعہ پر امِت شا نے کہا ”مجھے خوشی ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان بات چیت کے کئی راوٴنڈ ہونے کے بعد تمام اختلافات تقریباً دورکرلئے گئے ہیں اور آنے والے دنوں میں جموں کشمیر کے اندر پی ڈی پی- بی جے پی مخلوط سرکار کا قیام عمل میں لایا جائے گا“۔

اُنہوں نے کہا کہ متنازعہ مسائل کو کم از کم مشترکہ پروگرام میں حل کیا گیا ہے جسے مودی مفتی ملاقات میں حتمی شکل دی جائے گی۔اُنہوں نے اعتماد کے ساتھ کہا کہ جموں و کشمیر میں عنقریب پی ڈی پی اور بی جے پی پر مشتمل ایک مقبول حکومت دیکھنے کو ملے گی۔
دونوں جماعتوں نے متنازعہ مسائل جیسے،جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والی، دفعہ 370/اور ریاست میں تعینات فوج کو خصوصی اختیارات دینے والے کالے قانون ”آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ“یا(افسپا) کو فی الحالیکطرفہ رکھنے پر رضامندی ظاہر کرلی ہے۔

حکومت بنانے پر اتفاق ہونے کا اعلان کرنے کے باوجود بھی دونوں پارٹیوں نے مشترکہ کم از کم پروگرام کے بارے میں کچھ نہیں کہنے کی احتیاط برقرار رکھی ہے اور ا،س سلسلے میں باظابطہ طور کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ دونوں پارٹیوں کی سرکار کی ”مقدس کتاب“میں کیا کچھ لکھا جا چکا ہے۔یہ بات دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ دونوں ہی پارٹیاں اب قریب دو ماہ سے یہ تاثر دلاتی آرہی ہیں کہ مختلف الانظریات کی حامل یہ جماعتیں کچھ ایسے اصول تراشنے کی کوشش میں ہیں کہ جن سے نظریہ کا فرق یکطرف رہے اور سرکار کا کام کاج بھی ممکن ہو جائے۔

حالانکہ سطور ہذاتحریر کئے جاتے وقت افواہ گرم تھی کہ بھاجپا اور پی ڈی پی کے مابین کچھ نئے تنازعات پیدا ہو گئے ہیں اور اب مفتی اور مودی کی وہ میٹنگ بھی معطل ہو گئی ہے کہ جو 27/کی شام کے لئے مقرر تھی تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یکم مارچ کو سرکار کا حلف لینا حتمی ہے۔
جموں و کشمیر کی اسمبلی کے لئے گذشتہ سال کے آخر پر ہوئے انتخابات کے حوالے سے اِس بات کو دہرانے کی شائد ضرورت بھی نہیں ہے کہ لوگوں کی بھاری شرکت کے باوجود بھی کسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو پائی تھی اور 87/رُکنی اسمبلی میں حکومت سازی کے لئے درکار44/نمبرات کا حصول کسی بھی پارٹی کے لئے ممکن نہیں ہوا تھا۔

در اصل انتخابی نتائج نے کئی طرح کی حیرانگیاں اُگل دی تھیں کہ جہاں پی ڈی پی ،جو اسمبلی میں اپنے بل پر حکومت بنانے کے خواب دیکھتے ہوئے اُچھل رہی تھی،محض 28/سیٹوں پر سمٹ گئی وہیں مشن44+کا غبار کھڑا کر چکی بی جے پی کے لئے وادی میں کھاتہ کھولنا تک ممکن نہیں ہواتھا۔پھر اسمبلی میں سیٹوں کا بٹوارہ کچھ اِس طرح ہوا ہے کہ نظریات و اصولوں سے اِنحراف کئے بِنا کوئی بھی اِتحاد بن ہی نہیں پا رہا تھا تاہم ترجیحات طے کرنے کے مواقع دستیاب تھے۔


جموں و کشمیر کی سیاست کی جانکاری رکھنے والے کسی ادنیٰ شخص کے کانوں کو اِس بات پر حالانکہ یقین نہیں آیا تھا لیکن تاریخ اِس بات کو اپنے اندر محفوظ کر چکی ہے کہ نیشنل کانفرنس نام کی حریفِ واحد جماعت نے بھی پی ڈی پی کو سرکار بنانے کے لئے حمایت کی پیشکش کی تھی۔یہ بات الگ کہ عمر عبداللہ کی اِس پیشکش میں کہیں خلوص نام کی شے کا ایک فیصد بھی تھا لیکن حالات کچھ ایسے رہے کہ نیشنل کانفرنس نے پیشکش کی تو کشمیریوں نے پی ڈی پی پر اِسے قبول کرنے کے لئے زور ہی نہیں دیا بلکہ منت سماجت بھی کی۔

چناچہ مپسلم اکثریت والی ریاستِ جموں و کشمیر میں پہلی بار بھاجپا کے قدم پڑھنے والے تھے جنہیں روکنا کشمیریوں مسلمانوں نے اپنی بقا کے مسئلے کے بطور لیا ہوا ہے۔پھر یہ خود پی ڈی پی ہی تھی کہ جس نے انتخابات کے دوران ریاست پر بھاجپا کی نظروں کو ایک بڑے ڈر کے بطور شہرت دی اور لوگوں کو اِس قدر خوفزدہ کر دیا کہ وہ علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال کو مسترد کرتے ہوئے پولنگ مراکز کے سامنے قطاریں باندھنے پر آمادہ ہو گئے اور اب انتخابات کے بعد جب پی ڈی پی نے اُسی بھاجپا کو مسنندِ اقتدار پر بٹھانے کا انتظام کیا تو ظاہر ہے کہ لوگوں میں مایوسی پھیل جانا لازمی ہے۔

کشمیریوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں سے لیکر مقامی اخبارات کے کالموں اور ٹیلی ویژن چینلوں سے لیکر سڑکوں پر اُتر کر احتجاج کرنے تک کے سبھی تیر آزمائے مگر مفتی محمد سعید کے اِرادوں کا شکار کرنا اُنکے لئے ممکن نہ ہوسکا۔
حکومت سازی کے حوالے سے آج،کل پرسوں ،یہ وہ اور ا،س طرح کی تکنیک کا ماہرانہ استعمال کرنے کے علاوہ بعض اخبارات میں ایسی خبریں لگوائی گئیں کہ جیسے مفتی محمد سعید جموں و کشمیر کو بھاجپا کے جبڑوں سے نکال کھینچنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں اور مقابلہ اتنا سخت ہو کہ اِسے جیتنے میں مہینوں درکار ہوں۔

نام نہاد غوروکوض کو طول دینے کی مفتی سعید کی حکمتِ عملی کا تجزیہ کرنے پر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ کشمیریوں کی نفسیات سے واقف مفتی نے لوگوں کو اپنی بھڑاس نکالنے کی لمبی مہلت دی۔سیاسی دُنیا کے ایک شاطر کھلاڑی کی پہچان کے ساتھ اب بھاجپا کے بھروسے جموں و کشمیر کے وزیرِ اعلیٰ بننے جارہے مفتی نے کشمیریوں کو تھکا کر یوں نڈھال کر دیا کہ اُنہیں جیسے تب پتہ بھی نہ چلا کہ جب بھاجپا اور پی ڈی پی نے مشترکہ سرکار بنانے کا باضابطہ اعلان بھی کر دیا۔

چناچہ انتخابات کے فوری بعد جہاں بھاجپا پی ڈی پی اتحاد کے امکان کے خلاف وادی میں احتجاجی مظاہرے ہونے لگے تھے اور اخباری بیانات وغیرہ میں زبردست احتجاج کیا گیا تھا وہیں Dealطے ہونے پر اِس طرح کا کوئی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔
محض دو ایک ماہ قبل بزبان حال یہ کہنے والے، کہ بھاجپا اور پی ڈی پی مقناطیس کے قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی کی طرح ہیں اور اِنکا قریب آنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا ہے،مفتی سعید کشمیریوں کی نفسیات سے واقف ہونے کے باوجود بھی اپنے سبز پر زعفرانی رنگ چڑھانے پر آمادہ کیسے ہوئے یہ ایک حیران کر دینے والا معاملہ ہے۔

حالانکہ مفتی کے دست راست اورالفاظ کا کھیل جاننے والے پارٹی کے ترجمانِ اعلیٰ نعیم اختر نے اِس نا ممکن کو ”جمہوریت کا معجزہ“کہا ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ کشمیری عوام ا،س معجزے کو ایک ناپاک دھوکے کے سِوا کچھ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔حالانکہ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ عمر عبداللہ کے بقول کشمیریوں کی یاداشت کمزور ہے اور پھر مین اسٹریم کے سبھی سیاستدانوں کا کشمیریوں کے متعلق یہی ایمان ہے کہ وہ بہت جلد بھول جاتے ہیں لیکن نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبدلہ کی قبر اِس یقین کی نفی کرنے کے لئے کافی ہے۔

کبھی کشمیریوں کا مائی باپ رہے شیخ عبدلہ کی قبر آج بھی انتہائی کڑے حفاظتی حصار میں رہتی ہے اور یہ بات خود سرکاری اداروں کو بھی معلوم ہے کہ شیخ کی قبر کی نگرانی پر مامور اہلکاروں کو کبھی اونگھ بھی آئی تو ڈل جیل کے کنارے واقع اِس ”تاریخی قبر“کا نشان تک پانا ممکن نہ رہے گا۔بھاجپا کے ساتھ اتحاد کے اعلان کے بعدسماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر گذشتہ دنوں اِس طرح کی پھبتیاں کسی جا رہی تھیں کہ مفتی کی کشمیر میں ایسی دوسری قبر ہوگی کہ جسکی حفاظت کے لئے سکیورٹی اداروں کو دن رات کام کرنا پڑے گا۔

خود مفتی محمد سعید کے آبائی علاقہ بجبہاڑہ میں،جسے پی ڈی پی کا گڈھ تصور کیا جاتا رہا ہے،لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مفتی سعید کے ا،س فیصے کو نہیں بھولیں گے۔مفتی کے آبائی محلہ ”بابہ محلہ“میں ایک دکاندار نے کہا”ہمیں افسوس ہے کہ مفتی صاحب نے بجبہاڑہ کے لئے تاریخ میں یہ بات درج کروائی کہ ا،س قصبے کے ایک باشندہ نے بھاجپا کو جموں و کشمیر میں حکومت بنوانے میں مدد کی“۔

ظاہر وجوہات کے لئے اُنکا نام لینے کی اجازت دینے پر آمادہ نہ ہوئے ادھیڑ عمر کے اِس دُکاندار نے کہا”ہم سمجھتے تھے کہ مفتی صاحب کو ایک بڑا موقعہ ملا ہے لیکن اُنہوں نے نہ جانے کیوں وہ کیا کہ جسکی جموں و کشمیر میں تاریخ نہیں تھی،اُنہوں نے بڑا غلط کیا“۔
مفتی سعید کے ہی سابق دورِ حکومت میں جنوبی کشمیر کے اونتی پورہ قصبہ میں قائم ہوئی اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک اسکالر کا کہنا ہے”مفتی صاحب ا،س بات کو بڑا چڑھا کر پیش کر سکتے ہیں کہ دفعہ370/کو ختم کروانیکی وہ اجازت نہیں دینگے لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ بھاجپا نے خود ہی اِس مسئلے کو دورانِ الیکشن ہی یکطرف کر دیا تھا کہ وہ اِس دفعہ سے متعلق یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اِس پر سیاست تو کی جا سکتی ہے لیکن اِسکی تنسیخ کبھی ممکن نہیں ہو گی“۔

وہ کہتے ہیں کہ بھاجپا اور پی ڈی پی کی ڈیل میں جیت یقیناََ فرقہ پرست پارٹی کی ہوئی ہے کہ جو دہائیوں سے کشمیر پر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھ دیکھ کے اپنی نیند خراب کرتی چلی آ رہی ہے۔یونیورسٹی کے ایک اور طالبِ علم نے کہا”افسوس تو اِس بات کا ہے کہ بھاجپا ایک ایسے وقت پر جموں و کشمیر میں حکمران ہو رہی ہے کہ جب لو جہاد،گھر واپسی اور اِس طرح کے کئی فرسودات پر مبنی پالیسی اپنا کر اِس پارٹی نے اپنے اصل عزائم سامنے کئے ہوئے ہیں“۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکی صدر باراک اوبامہ کی جانب سے مودی کو خبر دار کرنے کے بعد بھاجپا کے لئے جموں و کشمیر جیسی مُسلم اکثریتی ریاست میں حکومت بنانا اور بھی اہم ہو گیا تھا اور اب یہ پارٹی اِس بات کو وہ داغ چُھپانے کے لئے استعمال کرے گی کہ جن سے اِسکا چہرہ مسخ ہو کے رہ گیا ہے۔
اب جبکہ تمام تر خبرداریوں،خدشات اور تشویش کے باوجود مفتی محمد سعید جیسے شاطر سیاستدان نے بھاجپا کے راستے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے یہ بات دیکھنے کے قابل ہو گئی ہے کہ اگلے چھ سال کا کشمیر کیسا ہوگا،بھاجپا کا ہندوتو ایجنڈا کشمیر کو کس طرح اثر انداز کر گیا ہوگا اور خود مفتی سعید کے حصے میں کیا آگیا ہوگا۔

حیرانگی کی بات ہے کہ مفتی محمد سعید نے جموں و کشمیر کی تعمیروترقی کو محورِ سیاست نہیں بنایا ہوا ہے بلکہ وہ کشمیر کی سیاسی تقدیر بدلنے کی باتیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ا،س طرح کے ایجنڈا کو مکمل کرنے کے حوالے سے اُنہیں کئی طرح کے چلینج سامنے آئیں گے۔جہاں تک فوج کو حاصل خصوصی اختیارات کی جزوی تنسیخ یا دفعہ370/کی بات ہے یہ دونوں مسائل بھاجپا کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو سکتے ہیں کہ جہاں اول الذکر کو فوج کے پالے میں دال کر بھاجپا پی ڈی پی کا مطالبہ ماننے کے باوجود بھی بری الذمہ ہوگی وہیں دفعہ370/کو جوں کی توں حالت میں رکھنا بھی کود ایک آئینی مجبوری ہے۔

البتہ جموں میں مقیم بنگالی پناہ گزینوں کو شہریت دئے جانے کے بی جے پی کے منصوبے اور جموں و کشمیر کو گھر واپسی اور لو جہاد وغیرہ کی ہوا نہ لگنے دینا مفتی سعید کے لئے کسی دردِ سر سے کم نہیں ہو سکتا ہے۔پھر جیسا کہ کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی سرکار کا اصل مرکز جموں ، سرینگر یا دلی میں نہیں بلکہ ناگپور میں ہوگا کہ جہاں آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر موجود ہے۔

غلام نبی آزاد کے اِس بیان کے پیچھے بھلے ہی سیاست ہو لیکن اِسے سنجیدگی سے لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آر ایس ایس نے حال ہی میں بھاجپا پی ڈی پی سمجھوتے کو لیکر کھلے عام اعتراض اُٹھایا تھا اور بھاجپا نے اِ بات کا اعتراف کیا ہے کہ اِس نے آر ایس ایس کے یہاں وضاحت دینے کے بعد ہی پی ڈی پی کے ساتھ شراکت کی ہے۔
بھاجپا کے وجود،ا،سکی اب تک کی تاریخ،حالیہ شہرت و قبولیت اور کود نریندر مودی کے سیاسی کیرئر کی چمک دھمک کے حوالے سے سرسری تحقیق بھی ا،س بات کا یقین دلاتی ہے کہ اِس پارٹی کے لئے محض حکومت سازی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہے۔

بھاجپا اور اِسکی اصل منبہ پارٹیوں کی وجہٴ وجود لو جہاد،گھر واپسی اور ہندوتو کے وسیع نظریہ کی دیگر اصنافِ غلیظہ کے اِرد گرد ہے اور ا،س حوالے سے بھاجپا کے جموں و کشمیر جیسی ریاست کے لئے خواب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اب جبکہ مفتی محمد سعید کی وجہ سے بھاجپا کے لئے ا،س ریاست میں قدم جمانا ممکن ہو ہی گیا ہے دیکھنا ہوگا کہ مفتی کی وجہ سے اِس کے لئے اگلے چھ سال میں کیا کیا اور ممکن ہو سکتا ہے۔

پی ڈی پی کے ترجمان نعیم اختر کو اگلے چھ سال کے دوران کتنی بار جمہوریت کے معجزے کی اصطلاح استعمال کرنا ہوگی یا اُنہیں اور کون کون سی نئی اصطلاحات گھڑنا ہونگی،یہ ایک دلچسپ مشاہدہ ہوگا اور یقیناََ اِس سب پر مشتمل جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک الگ باب ہوگا۔البتہ جو چیز وضاحت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ مفتی محمد سعید نے عمر کے آکری پڑاوٴ پر ایک ایسا جپوا کھیلا ہے کہ جس میں وہ سب کچھ ہارتے نظر آ رہے ہیں تاہم اُنکے تجربے کو دیکھتے ہوئے یہ یکطرفہ کھیل پھر بھی آخری گیند تک دیکھنے کے قابل ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :