عمران، سلطان اور نیا پاکستان

جمعرات 26 فروری 2015

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

سائیں یا جھلا وہ شخص ہوتا ہے جسے کوئی ذہنی بیماری ہو یا وہ کسی حادثے کے نتیجے میں اپناذہنی توازن کھو بیٹھے ۔ایسے لوگ اکثر اپنی ہی دنیا میں رہتے ہیں ، لوگ انہیں مجذوب سمجھتے ہیں، ان سے شفقت سے پیش آتے ہیں اور ان پر ترس بھی کھاتے ہیں جبکہ کچھ انہیں پاگل بھی کہہ کر بلاتے ہیں ۔سائیں لوگ بھی اپنی ہی مستی میں رہتے ہیں انہیں دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بے فکری ہو جاتی ہے ، یہ ایک عجیب بے نیاز جہان میں چلے جاتے ہیں ۔

ان سائیں لوگوں کا بھی اپنا ہی موڈ ہوتا ہے ۔انہیں نہ بارش تنگ کرتی ہے اور نہ ہی سردی یا گرمی سے انہیں کوئی الجھن ہوتی ہے ، کوئی جیے یا مرے ان کی بلا سے ، مگر یہ سائیں لوگ ہوتے بڑے حساس ہیں .
بہت سال پہلے ہمارے گاوٴں میں ایک "سائیں "آتا تھا ، گرمیوں میں انتہائی گرم کوٹ اور سردیوں میں نہ ہونے کے برابر پوشاک، سائیں صرف کچھ گھروں میں جاتا اور کسی سے کچھ مانگتا نہیں تھا ۔

(جاری ہے)

جن دو یا تین گھروں میں وہ جاتا وہاں کے مکین اسے اپنے کنبے کا حصہ سمجھتے اور اس کی خوراک کا خیال رکھتے ۔کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ سائیں اپنے ساتھ ان کے لیے اچھا مقدر لے کر آتا ہے ۔جب سائیں کسی بات پر اداس یا ناراض ہو جاتا تو وہ کبھی واپس اس گھر نہ جاتا اور وہ ان گھروں کے دروازے پر کھڑا ہو کر کچھ بولتا، آسمان کی طرف دیکھتا اور پھر کبھی واپس نہ آتا ۔

سائیں کی ایک اور عادت تھی وہ اکثر گاوٴں کے نمبردار صاحب کے پاس آ کر بیٹھ جاتا اور اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہتا " نمبردارا آج سر میں بڑا درد ہے " یا سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا " نمبردارا آج پیٹ میں بڑا درد ہے "۔بہت سے لوگوں کے لیے یہ سائیں ایک پاگل ، جھلا ، عجیب حرکتیں کرنے والا ملنگ تھا مگر مجھے وہ بہت اچھا لگتا تھا ۔میرا یہ ماننا ہے کہ ہر شخص میں میرے رب کا نور ہے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اگر رب کائنات نے کسی کو زبان نہیں دی یا ہاتھ پیر نہیں دیے تو وہ مجھ سے کم ہے ۔

میری طرح وہ بھی بہت اہم ہے ۔خیر سائیں آخر ایسا کیوں کرتا تھا ۔اگر اس کے سر میں درد ہوتا تھا تو وہ پیٹ پہ ہاتھ رکھتا تھا اور اگر اس کے پیٹ میں درد ہوتا تھا تو وہ سر پکڑ لیتا تھا ۔
ایک روز میں نے سائیں سے پوچھا کہ وہ ایسے کیوں کرتا ہے ۔سائیں ہنستے ہوئے بولا " پیٹ خالی سر وچ درد ، سر خالی پیٹ وچ درد " ۔ سائیں کی یہ بات میری طرح آپکو بھی سمجھ نہیں آئی ہو گی مگر ہم اب سائیں کی بات کو سائنسی انداز میں پرکھتے ہیں ۔

ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر پیٹ خالی ہو تو بلڈ پریشر کم ہوجاتا ہے ، شوگر لیول گر جاتا ہے اور سر میں درد ہوجاتا ہے ۔اسی طرح اگر آپکو ڈپریشن کا اٹیک آئے تو پیٹ میں درد ہو سکتا ہے اور اگر یہ کافی مدت تک رہے تو معدے کا السر ہو جاتا ہے ۔اب اس کو تھوڑا آسان کرکے سمجھتے ہیں۔اگر کوئی شخص یا گروہ ، قبیلہ یا تنظیم کسی ملک میں وہاں کی حکومت کے لیے سر کا درد بن جائے تو اس تنظیم ، فرد یا قبیلے کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے ، انھیں بڑی پوسٹیں، نوکریاں یا حکومت میں حصہ دے دیا جاتا ہے اور حکومت کی سردردی کم ہو جاتی ہے ۔

اسی طرح جن قبیلوں ، جماعتوں یا افراد کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں اور جن کے پیچھے کوئی بڑی طاقت ہوتی ہے ان کے دماغ گھوم جاتے ہیں اور وہ عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہیں ۔ لہذا سر کا پیٹ سے اور پیٹ کا سر سے گہرا تعلق ہے اور سائیں جو کہتا تھا اس میں حقیقت تھی ۔اب آپ ہمارے بہت ہی قابل سابق وزیراعظم آزاد کشمیر جناب بیرسٹر سلطان محمود چوہدری صاحب کو لے لیں ۔

حال ہی میں آپ نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے مگر مجھے سلطان محمود صاحب سے زیادہ عمران خان صاحب پہ حیرانگی ہو رہی ہے جو اب فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں اور ممکن ہے کہ انھیں اس بار غلط شاٹ نقصان نہ پہنچا دے ۔
عمران ہمارے ہی نہیں پوری دنیا کے ہیرو ہیں ۔الله نے انہیں دولت ، علم اور شہرت عطا کی اور انہوں نے اپنی دولت ، شہرت اور علم کو اپنی نمود و نمائش کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اسے پاکستان کے عوام کا سرمایہ سمجھا اور ایک انتہائی مشکل سفر کا آغاز کیا یعنی تبدیلی کے سفر کا آغاز ۔

عمران خان پر ہزاروں ناقدلاکھوں تنقیدیں کر لیں اور ان کے خلاف کروڑوں باتیں بنا لیں مگر عمران خان عمران خان ہیں بیشک ان کا بات کہنے کا انداز مختلف یا تھوڑا سخت ہے مگر وہ بات ہمیشہ ٹھیک کرتے ہیں ۔عمران کو نہ تو کوئی پیٹ کا مسئلہ ہے اور نہ ہی سر کا ۔پیٹ بھرا ہوا ہے اور سر بھی کام کرتا ہے مگر وہ آزاد کشمیر میں تبدیلی کے لیے باب سلطان سے ہی کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں ؟ سوچنے کی بات ہے !
میں نے آٹھ یا نو سال پہلے ( جب میں لند ن کے ایک ٹی وی اسٹیشن پر کام کرتا تھا ) سلطان محمود چوہدری صاحب کا ایک انٹرویو لیا تھا جو آج بھی آن لائن دستیاب ہے ۔

چوہدری صاحب ایک نفیس آدمی ہیں اور بیشک ان پر ذاتی کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور چونکہ یہ خود لکھنا پڑھنا جانتے ہیں اس لیے ان کی بھی خان صاحب کی طرح ایک مثبت سوچ ہے مگر ان دونوں کی سوچوں میں کافی فرق ہے ۔یہ دونوں پودے مختلف نرسریوں میں اگے اور دونوں کا پس منظر بہت مختلف ہے ۔عمران خان کی زندگی گلیمر اورجدوجہد سے بھرپور ہے جبکہ چوہدری صاحب ایک مالدار اور صاحب حیثیت خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔

یہاں تک تو سب ٹھیک ہے مگر کچھ عرصہ پہلے تک پی ٹی آئی کو بیماری کہنے والے سلطان محمود صاحب کیسے ایک دم تبدیلی کا جھنڈا تھامے عمران خان کے ساتھ جا بیٹھے سب کی سمجھ سے باہر ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے سائیں کی باتیں ہوا کرتی تھیں ۔
کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ چوہدری مجید اینڈ کمپنی اور فریال تالپور اینڈ گروپ آف کمپنیز کی شراکت سے کشمیر میں چلنے والی حکومت میں سلطان محمود چوہدری صاحب کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی اس لیے انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سلطان محمود چوہدری صاحب کی عادت ہے کہ وہ پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ یہ تبدیلی کا سفر کسی سونامی میں بہہ جائے گا ۔


یہ تمام باتیں ضمنی ہیں سب سے پہلے اگر حقیقت میں عمران سلطان گٹھ جوڑ اچھی نیت اور حقیقی تبدیلی کے لیے ہے تو عمران خان اور سلطان محمود صاحب کو کشمیر کے حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ پالیسی ترتیب دینی ہو گی ۔چوہدری صاحب کو اپنے ماضی پر ایک نگاہ ڈالنی ہو گی اور مستقبل کو بہتر بنانا ہو گا ۔کیا یہ سچ نہیں کہ سلطان محمود صاحب کے دور اقتدار میں برادری ازم کی لعنت نے کشمیر کو ناسور کی طرح کمزور کیا ، کیا یہ سچ نہیں کہ ان کے دور میں ان کے وزرا اور کابینہ نے کرپشن کی لوٹ سیل لگائی اور جو آج چوہدری مجید اینڈ کمپنی کر رہی
ہے اس کی کڑیاں اسی دور سے ملتی ہیں ۔

جس سٹیٹ میں ایک ٹیکسی ڈرائیور امور سلطنت میں حصہ دار رہا ہو وہاں کیا ماحول ہوا ہو گا سلطان صاحب بہتر جانتے ہیں ۔بہت سی باتیں اور بہت سے کام غلط ہوئے مگر انہیں ٹھیک کیا جا سکتا تھا ۔ اگر ہم اب آگے کی بات کریں تو کیا سلطان محمود صاحب یہ سب سدھار پائیں گے ؟ مجھے امید ہے کہ وہ اس بار اپنے حلقے میں بھی جیت جائیں گے اور پی ٹی آئی کی مقبولیت انھیں شائد اگلے عام انتخابات میں حکومت سازی کا موقع بھی دے دے مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تمام لٹیروں کو پکڑا جائے گا ، کیا پھر سے برادری کے لوگوں کو نوازا جائے گا اور کیا پھر سے آزاد کشمیر کے جنگلات کو مال مفت سمجھ کر لوٹ لیا جائے گا ؟ وادی نیلم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ سردار قمر الزمان نے یہاں کے جنگلات اور نوادرات کے ساتھ کیا کیا ، آزاد کشمیر کے سینیر وزیر نے جاگراں پاور پروجیکٹ میں کتنا کمایا اور چوہدری مجید نے کتنا مال بنایا سب کے علم میں ہے ۔

پچھلے تین چار سال کے اخبارات میں یہ سارے انکشافات چھپے مگر کسی نے کوئی کاروائی نہیں کی ۔اگر کشمیر کونسل حکومت آزاد کشمیر سے زیادہ طاقتور ہے او ر آزاد کشمیر میں ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا تواس کا مطلب ہے کہ اس کرپشن میں ان کا بھی ہاتھ ہے بلکہ کرپشن کرنے والوں کے سر پر ان کا ہاتھ ہے ۔ جب تک پی پی پی کی حکومت آزاد کشمیر میں ہے جو چندہ آزاد کشمیر سے اکٹھا کیا جاتا تھا اس کا چڑھاوا دربار عالیہ زرداریاں پر چڑھتا رہے گا ۔

آزاد کشمیر کا نوجوان پڑھا لکھا ہے ، آزاد کشمیر میں شرح تعلیم پاکستان کے کسی بھی صوبے سے زیادہ ہے مگر تعمیر اور ترقی صرف میرپور کے حصے میں آئی ۔آزاد کشمیر میں علاقائی تعصب اور برادری ازم کشمیر کی قومی شناخت سے زیادہ طاقتور علامتیں ہیں ۔کیا ان سب مسائل سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے ؟
عمران خان ایک نئی سوچ رکھنے والے کپتان ہیں اور انہیں ٹیم بنانے اور اسے چلانے کا تجربہ ہے مگر کشمیر کے پی کے نہیں ، کشمیر پاکستان کے کسی حصے جیسا نہیں یہ ایک آزاد ریاست اور ایک متنازعہ علاقہ ہے ۔

اگر عمران خان یہ سوچ رکھتے ہیں کہ جیسے وہ پہلے کئی بار ہندوستان کے نظام کو آئیڈیل اور پاکستان ہندوستان مشترکہ پروجیکٹس کو مستقبل بتاتے رہے ہیں ویسے ہی وہ مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کی خوشی کے لیے اس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈال سکتے ، اگر ان کے ذہن میں کوئی ایسی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے تو انھیں فوری طور پر اسے ذہن سے نکال دینا چاہیے ورنہ آزاد کشمیر میں اسمبلی سیٹ تو دور یونین کونسل کی سیٹ بھی جیتنا مشکل ہو گا ۔

کشمیر میں آنے سے پہلے پی ٹی آئی کو ہوم ورک کرنا ہو گا ۔یہ علاقہ پچھلی ایک صدی سے حالت جنگ میں ہے ، یہاں کے لوگ اپنوں کی چیرہ دستیوں اور اغیار کی ستم گری کا شکار رہے ہیں ، یہاں ریاستی اور غیر ریاستی جماعتوں نے کچھ نہیں کیا ، یہاں ایک جہادی سے لیکر سیاستدان تک سب نے اسے نقصان پہنچایا ہے ، کیا عمران خان اور سلطان محمود ملکر اسے تبدیل کر سکتے ہیں ؟ اگر انصاف کو تحریک کی صورت یہاں آنا ہے تو عوام کے ذہنوں کو جیتنا ہوگا اور انکی سوچ بدلنی ہو گی۔

یہ میاں محمد بخش کی دھرتی ہے اور یہاں کے رسوم و رواج سے واقف ہونا ضروری ہے اور عمران خان کو اچھے کردار کے لوگوں کو عوامی نمائندگی کا حق دینا ہوگا کیونکہ حضرت میاں محمد بخش نے فرمایا تھا
درد منداں دِے سْخن مْحمّد ،دین گواہی حالوں
جِس پلّے پھْل بدھّے ہوون، آوے باس رْومالوں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :