اعمال کی اصلح

جمعرات 26 فروری 2015

Tauqeer Riaz

توقیر ریاض

تو جناب کس کس کو روئیں۔ کس کو گلا کریں ۔حکمرانوں کی غیرت کا معیار یہ ہے کہ ٹس سے مس ہی نہیں ہوتے۔ کون سا شعبہ ہے جو اپنی کام صحیح کر رہا ہو۔ پاکستان بنے 60 سال سے زاہد ہو چلے ہم بھی اپنی زندگی کی زیادہ تر بہاریں دیکھ چکے۔ بونس زندگی پر زندہ ہیں ۔ لیکن ایک افسوس، اپنے ساتھ شاہد لے کر چل دیں۔ کہ ہمار ا بھی کوئی مداوا کرنے والی کوئی ہوگا۔

خبر سنی کے ایک باپ نے اپنے ہی بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یعنی بچوں کو ساتھ لے جا کر، بہت محبت سے آب موت نوش کرو ا دیا۔ بچوں کو بازار سے جوس پلایا اور دو بچے موت کے حوالے اور ایک کی زندگی خطرے میں ہے۔ میں نے جب اس باپ کی حالت دیکھی تو میرے ہاتھ پاوں سن ہوگئے۔ کس طرح وہ بے بس دھاڑے مار مار کر رو رہا تھا۔ لیکن افسوس کہ کوئی نہیں سوائے خدا کے۔

(جاری ہے)

یار زہریلا جوس ۔غیر معیاری اشیاء۔ناقص مٹیریل ۔اشیاء خوردونوش کی گھٹیا ترین کوالٹی ۔کس نے دیکھنا ہے یہ سب کچھ ۔ صاحب اقتدار کا تو پانی بھی باہر سے آتا ہے۔ غریب نے تو بچوں کو میٹی مو ت پلا دی۔ اور سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھتا ہے کہ کون ہے میرا مداوا۔ لاکھوں روپوں کی تنخوائیں لینے والے یہ بے غیرت پاکستانی فوڈ انسپکٹرجن کا یہ کام ہے کہ وہ اشیاء خردونوش کی جانچ پڑتال کریں ۔

ان کا معیار چیک کریں تاکہ عوام کو ناقص میٹرل نا میسر ہو۔ یہ دوکاندار بے غیرت ،سب کے سب بے غیرت ۔کسی کو احساس نہیں کہ وہ موت تقسیم کر رہے ہیں۔ معصوم بچوں غیرمعیاری جوس بھیج کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حکمران تو گردنوں میں طوق ڈالے صرف تماشاہی ہیں۔ نہ تو تعلیم ہے۔ نہ بجلی ہے۔ نہ تحفظ ۔تو جناب چلوایک امید ہے کہ اللہ کے ہاں ایک دن جواب تو دیناہے۔

بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ انسانیت کے علمبردار ادارے صرف دھندوں پر ملحوظ ہیں ۔ انسانیت کے نام پر بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں۔ انسان تو ایک جانور بن کر رہ گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے سنا تھا کہ دبئی میں ایک دوکان پر انڈے غیر معیاری ،زاہد المعیاد بھیچے گئے تو وہ پورے کا پورا ادارہ بند کر دیا گیا۔ ہمارے ہاں تو گندے انڈے سرے عام بیکریوں میں پہنچائے جاتے ہیں اور مزے دار کیک بنا کر عوام کو پیش کر دیئے جاتے ہیں۔

فوڈ انسپکٹر کا تومیں نے نام سنا کبھی دیکھا نہیں۔ کس مخلوق کا نام ہے معلوم نہیں۔گدھے کے گوشت کو سپلائی یو ں ہوتی رہی پاکستان کے مختلف شہروں میں کہ اللہ کی پناہ۔ اب تو یہ حال ہے کہ کسی بھی چیز کو کھانے سے پہلے اپنی احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑھتا ہے۔ اللہ کی پناہ چوہے کے گوشت کا قیمہ کرکے سموسمے بنا کر لوگوں کو کھلا دیئے گئے۔

حکمران صاحبان کا تو پانی بھی باہر سے آتاہے جناب ۔1 نمبر کیٹیگری سے لے کر 4 نمبر تک مال تیار ہوتاہے۔ ارے بھائی کون سا شعبہ ہے جو اپنی چال میں معتدل ہے۔ سب کے سب کرپشن کی دوڑ میں سب سے آگے۔ کاش وہ دن آئے گا کہ ہم بھی دوسرے غیرمسلم سلطنتوں کی طرح ایک محفوظ اور صحت مند معاشرے کی طرح زندگی گزارے گے۔ حکومت عناصر جو ہم پر ہماری ہی غلطی سے ہم پر مسلط ہیں۔

کو تو صرف اقتدار کے بچ بچاوں کے سواہ کچھ نہیں سوجھتا۔ ایوانوں میں بیٹھے ہمارے نام نہاد نمائندے صرف اور صرف ہمارے ہی خون پسینے سے کٹی ٹیکس کی رقم سے گل جھڑے اڑاتے نظر آتے ہیں۔ کروڑوں روپے کے اخراجات جس کا کوئی احتساب نہیں۔ جناب اگر جڑوں میں کیڑا لگا ہوتو اس کا اثر اوپر تک جاتاہے حکومتی عناصر کو پیش کیا جانے والے کھانوں میں بھی معیار کافقدان سامنے آیا لیکن کوئی ہے کہ پوچھے۔

وہ باپ جس کے دو بچے اسی کے ہاتھوں سے موت پی کر اپنا سفر مکمل کر کے چلے گئے۔ وہ باپ رت انکھیوں سے ہم سب سے سوال کر تاہے کہ یہ معاشرہ کب سدرے گا۔ ساری کی ساری ذمیداری میری اور آپ کی ہے جناب ۔ہم ہی نے تو نااہلوں سے بھری فوج کو تیار کیا ہے۔ یہ ہماری غیر ذمیداری ہے کہ ہم اس کا مزہ چک رہے ہیں۔ میں جب بھی اپنے دفتر سے نکلتاہوں تو اللہ کی پناہ حاصل کر تاہوں میرے اوپر بھی ایک گھرانے کی ذمیداری ہے ۔

کیا پتا کون سی نامعلوم گولی میر ی زندگی کا خاتمہ کر دے۔ کون سا بم بلاسٹ مجھے اس جہاں میں نہ چاہتے ہوئے شہید کردے۔ میں تو ابھی جینا چاہتا ہوں۔ صحت مند زندگی ۔ محفوظ معاشرے میں۔ رات جب بجلی کڑک رہی تھی تو میں نے کہا اللہ ہم رحم کر کیونکہ ہم ویسے ہی ایک خوف کی اذیت سے دو چار ہیں ۔تو توہم پر فضل کر ۔ہمیں نہیں تو ہمارے بچوں کو ایک پرامن معاشرے میں زندہ رہنے کی نوید دے۔

امین۔سار ا دن لعن و تعن کا بازار گرام رہتاہے۔ سب کے سب ایک دوسرے کو ذمیدار سمجھتے ہیں لیکن کون سوچے گا میں کتنی ذمیداری کا مظاہر کر رہاہوں۔ آج اگر فرد واحد میں تبدیلی آجائے تو شاہد ہم نہیں تو ہماری نسلیں ایک آڈئیل معاشرے میں زندگی گزار سکیں۔ اگر دیکھا جائے تو چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں کر پشن کر نی پڑتی ہے۔سبزی بیچنے والا اچھا اچھا مال دکھا تا ہے اور دیتے وقت ملاوٹ ۔

دودھ والا دودھ میں طرح طرح کی کیمیائی عناصر ڈال کر بے وقوف بنا رہا ہوتاہے۔اس وقت جو بھی سطح ہو چاہئے وہ ایک موچی ہی کیوں نہ وہ جانے انجانے میں کرپٹ ہے ۔۔ میں ایک بات کی کہ جڑوں میں کیڑا لگا ہوتو اس کا اثر اوپر تک جاتاہے۔اس وقت تو میں حیران ہوں سیب خریدے تو دیکھنے میں بہت بھلے اور تازہ جب گھر گیا تو زیادہ تر اندر سے خراب۔تو میں نے سوچھا جناب ہمارے اعمال میں کوئی کوہتائی ہے جس کا یہ صلہ ہے۔ ہمیں اپنے اپنے اعمال کو غور کرنا ہوگا۔ تاکہ اس کا اثر مثبت ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :