آج کا سوال !

منگل 24 فروری 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اگر آپ کہیں کہ مسلمانوں کی گزشتہ دو سو سالہ تاریخ کو مختصر لفظوں میں بیا ن کرو تو شاید اس کے لیئے موزوں ترین الفاظ تنزل،انحطاط اور زوال ہوں گے۔ جی ہاں ہماری گزشتہ د و،تین سو سالہ تاریخ کا مختصر خلاصہ یہی ہے۔ اسلام کے دور اول اور قرون وسطیٰ میں ہمارے آباء اجداد نے جو شاندار دینی اور دنیوی ترقی کی تھی ،علم وادب، طب ومیڈیکل اور سوشل سائنسز میں جو نئے رجحانات متعارف کروائے تھے ان سے پہلو تہی اور منہ موڑنے کا لازمی نتیجہ یہی تھا جو آج ہم بھگت رہے ہیں ۔

کو ئی ایک شعبہ دکھا دیں جسے ہم نے آگے بڑھایا ہو ،کسی ایک علم کا نام لے دیں جس میں ہم نے اضافہ کیا ہو ، نئے تصورات متعارف کروائے ہوں ،کو ئی ایک فن بتا دیں جسے ہم نے وقت کے سانچے میں ڈھا لا ہو ،طب، جغرافیہ، فلکیات، ایڈمنسٹریشن، قانون ، تاریخ ، سوشل سائنسز حتیٰ کہ مذہبی علوم میں ہی دکھا دیں جس میں ہم نے پچھلوں سے بڑھ کر کو ئی نئی تحقیق ،نئی تفسیر ، نئی تشریح، نئے نظریات اور نئی تطبیقات پیش کی ہوں ۔

(جاری ہے)

چلو مانا دنیاوی علوم و فنون سب گورکھ دھندہ ہے ہم ایک منٹ انہیں سائیڈ پے رکھ دیتے ہیں آپ صرف مذہبی علوم و فنون میں کو ئی ایسا کارنامہ دکھا دیں جو ہم نے اپنے پہلوں سے بڑھ کر سر انجام دیا ہو ، کو ئی جامع نصاب ، کو ئی جامع نظام ،جدید اسلامک سوفٹ ویئر ،قرآن کی مجتہد فیہ آیات کی کو ئی ایسی تشریح جو مو جودہ زمانے سے مطابقت رکھتی ہو اور ہمارے مختلف فیہ مسائل حل کر دے۔

قرآن و احادیث کا بین الاقوامی زبانوں میں کوئی ایسا ترجمہ اور تشریح جسے ہم بلا جھجک غیر مسلموں کے لیئے تجویز کر سکیں ۔ میں مستثنیات کی بات نہیں کر رہا ۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور آئندہ کے لیئے بہتر منصوبہ بندی کرنا بھی بڑا پن ہے لیکن شاید ہم اس کے لیئے بھی تیا رنہیں ، ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہی نہیں ، ہم آج بھی ”پدرم سلطان بود“کے خمار سے باہر نہیں آئے ۔

جسے اپنی غلطی کا احساس ہی نہ ہو وہ کیا سیکھے گا، کیسے آگے بڑھے گا کس طرح مستقبل کو اپنے ماضی سے روشن تر بنائے گا۔ میں تین علوم کی مثالیں دو ں گا جن کے بارے میں دنیا آج بھی انگشت بدنداں ہے، زمانہ حیرت میں ڈوبا ہو ا ، یہ گورے چٹے ، کالے پیلے آج بھی حیران ہیں کہ یہ سب کیسے ہو گیا ، کیونکر ہو ااور کس نے کیا۔ بھلا ایک انسان کی باتوں کو محفوظ کر نے کے لیئے پانچ لا کھ لوگوں کی زندگیاں کیسے محفوظ کر لی گئیں ، پانچ لاکھ لوگوں کی تاریخ پیدائش، تاریخ وفات ، تحصیل علم، اساتذہ، ان کابچپن، ان کی عدالت ، ان کا حافظہ، ان کی نمازیں اور ان کی زندگی کا ایک ایک پل کیسے محفوظ کر لیا گیا ۔

میں فن اسماء الرجال کی بات کر رہا ہوں ۔ میرے نبی کی باتوں کو محفوظ کر نے کے لیئے محدثین نے پانچ لاکھ لوگوں کی زندگیاں محفوظ کر ڈالیں ۔یہ ایک نیا علم اور نیا فن تھا جسے ہم نے دنیا کے سامنے متعارک کروایا ۔ خوابوں کی تعبیر دوسرا علم اور فن ہے جو خاص مسلمانوں کی دین ہے ، یہ وہ فن ہے جو علامہ ابن سیریں پر الہام ہوا ،آج علم کے ٹھیکیداروں اور ان کے آبا ء اجداد کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ خواب کی حقیقت کیا ہے ، اور انہیں علم ہوتا بھی کیسے ،مادیت میں گندھے ان لوتھڑوں کو کیا معلوم کہ روحانی علوم کی حقیقت کیا ہے ۔

آپ ذرا تعبیر الروٴیا اٹھا کر دیکھیں کیا کیا حقائق اور کیا کیا اسرار و رموز چھپے ہیں اس میں ۔ ابن سیرین نے جو حقائق اور رموز اس وقت بتائے تھے آج کی جدید سائنس اور آج کا جدید علم ا نہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہے ۔ تیسرا علم عمرانیات تھا جسے آج کل سوشیالوجی کہا جاتا ہے ، اس کا سہرا علامہ ابن خلدون کے سر جاتا ہے ۔ کہتے ہیں فن تاریخ میں تخلیق کاری ناممکن ہے کیونکہ تاریخ ایک ایسا علم ہے جس میں گزشتہ اقوام کے حالات و واقعات ، بادشاہوں اور حکومتوں کے احوال بیان کیئے جاتے ہیں اور ان میں رد وبدل اور تخلیق کار ی ناممکن ہے لیکن ابن خلدون وہ پہلا مفکر، فلسفی اور موٴرخ تھا جس نے مقدمہ لکھ کر اس روایت اور کہاوت کو غلط ثابت کیا ۔

اس نے تاریخ نویسی میں تخلیق کاری ، جدت ، نئے اسلوب اور نئے پہلووٴں کو متعارف کروایا، ۔ تاریخ ، فلسفہ ء تاریخ ،تاریخ کی نوعیت، تاریخ کی اہمیت، قوموں اور تہذیبوں کا عروج وزوال ، آبادی ، حکومتیں ، حکمرانوں کا زوال، براعظموں کی تقسیم ،ان کا موسم ، آبادی کا مزاج ، ماحول ، آب وہوا،غذا کے اثرات، شہری اور دیہی آبادی ، تاجروں ،مزدوروں ،بادشاہوں کے او صاف اور ان کا مزاج ، قیمتوں کا اتار چڑھاوٴ، ارتکاز دولت، متنوع پیشے اور صنعتیں ، ٹیکس کا نظام ، دولت کی پیدائش اور اس کا مصرف ، حفظان صحت کے اصول ، آبادی کی کثرت، عصبیت، قبائل کا استحکام، بادشاہت کی نو عیتیں ، بیورو کریسی کی ضرورت، کاتبوں کا کر دار، قاضی کا کردار، روحانی اور مادی قوتیں ، سیاست کی اصلاح ، مذہبی حکمران،عیش پرست حکمران اور علوم و فنون کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے ۔

زرا ابن خلدون کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں : جب انسان نوالہ منہ میں ڈال کر اسے چباتا ہے تو منہ کا لعاب اور منہ کی حرارت اسے قدرے پکا دیتی ہے جس سے نوالہ کے مزاج میں زرا تغیر آ جاتا ہے ، پھر یہ نوالہ معدہ میں پہنچ کر کیموس بنتا ہے ، معدہ کیموس کو جگر میں بھیج دیتا ہے اور اس کا فضلہ آنتوں کی طرف دھکیل دیتا ہے پھر جگر اور آنتیں دونوں اپنا اپنا عمل شروع کر دیتے ہیں ، پھر جگر کی حرارت اسے پکا کر خون بنا دیتی ہے اور جگر اس خون کو شریانوں اور رگوں میں بھیج دیتا ہے، جو ذیادہ گاڑھا خون ہو تا ہے اس سے ہڈیاں بن جاتی ہیں اور بدن کی ضرورتوں سے جو مختلف قسم کا فضلہ بچ جاتا ہے وہ لعاب دہن ، بلغم اور آنسو وٴں کی شکل اختیار کر لیتا ہے “وہ معدہ کو تمام اجزاء کی جڑ قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے ”جب معدے میں ضرور ت سے زائد غذا جمع ہو جاتی ہے تو حرارت اسے پکانے سے عاجز آ جاتی ہے ،جب غذا ٹھیک سے پک نہیں پاتی تو معدہ اسی کچی غذا کو جگر کے حوالے کر دیتا ہے ،جگر کی حرارت بھی اسے پکانے سے قاصر رہتی ہے اور جگر بھی انہی کچے اخلاط کو آگے رگوں میں بھیج دیتا ہے ، پھر اگر بدن اس پوزیشن میں ہو کہ ان کچے اخلاط کو نکال باہر کرے تو اسے فضلات کے ساتھ باہر نکال دیتا ہے اور اگربدن کمزور ہو تو یہ اخلاط معدہ ،جگر اور رگوں میں جم کے پڑے رہتے ہیں اور دن بدن بڑھتے چلے جاتے ہیں ، اور ہر مرطوب اور مرکب شے اگر صحیح طور پر پکی نہ ہو تو وہ گل سڑ جاتی ہے چناچہ یہ اخلاط معدہ ،جگر اور رگوں میں سڑ جاتے ہیں اور ہر سڑی ہو ئی شے میں غیر فطری حرارت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی حرارت بخار کا باعث بنتی ہے “
میں نے پوری دیگ سے چاول کے صرف تین دانے نکالے ہیں اور صرف تین علوم کی مثالیں دی ہیں اور اگر آپ پوری دیگ دیکھ لیں تو شاید آپ یقین ہی نہ کریں ۔

آپ اپنے ماضی اور اپنے آباء کے جس علم ، جس فن، جس شعبے اور جس پہلو کو بھی دیکھیں گے وہ اسی طرح روشن ، چمکدار، پائندہ اور تابندہ نظر آ ئے گا۔
ایک وہ ماضی تھا ، ایک یہ حال ہے ۔ ان دونوں میں کیا نسبت ہے یہی آج کا سوال ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :