جھوٹا کہیں کا!

ہفتہ 21 فروری 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

”اپیکس کمیٹیوں کا کام حکومتیں چلانا نہیں،پولیس میں تقرریاں وتبادلے منظور نہیں، اس کے خطر ناک نتائج ہوں گے، وزیر اعظم دوستوں کو دشمن نہ بنائیں“ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ ۔ شاہ صاحب ! فوجی عدالتوں کا کڑواگھونٹ بھرنے میں آپ پیش پیش تھے،آئین میں ترمیم آپ کی وجہ سے ہوئی ، یہی آپ کا دعوی تھا ، کہ آپ نہ چاہتے تو میاں صاحب ترمیم نہ کر سکتے تو جناب! اگر اس سب کی گنجائش حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے ٹھیک تھی، تو مہربانی فرماکر ایک کڑوا گھونٹ اور بھر لیں ،کیوں کہ اب بھی ہم حالت جنگ میں ہی ہیں، صوبہ سندھ میں آپ کی پارٹی کی حکومت ہے ، وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے ، آج سے نہیں سالوں سے کہ آپ کی پارٹی سیاسی دباؤ برداشت نہیں کر سکتی خاص طور پر بھاری بھر کم مسٹر زرداری کی مفاہمت پالیسی کی آڑ میں جو دھماچوکڑی مچتی ہے اس سے خلق خدا پریشان ہوتی ہے لیکن آپ کے سیاسی بھائیوں کی پانچوں گھی میں رہتی ہیں، امن کے لیے کیا جانے وال اہر اقدام ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی “ کا پیغام بنتا ہے ایسے میں ضروری یہ ہے سیاسی دباؤ کو سمندر برد کر کے کچھ کام کر لیے جائیں ۔

(جاری ہے)


اگرآپ حضرات کا یہ دعوی صحیح ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلے دینے سے جج صاحبان گریز کرتے ہیں ،اس لیے فوجی عدالتیں صحیح ہیں تو جناب ایسے ہی پولیس سیاسی بازی گروں کی جب لونڈی بن جائے تو اس کو آزادی دلانے کے لیے یہی حربہ ہو سکتا ہے جو میاں صاحب اختیار کرنے جا رہے ہیں ،جب گھی سیدھی انگلی نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی تو کرنا ہی پڑتی ہے ، جب امن کی راہ میں رکاوٹ کو اڑانا ہے تو پھر برداشت کیجیے ، جس کے خلاف بھی ہوتا ہے ہونے دیجیے ،جو بھی زد میں آتا ہے آنے دیجیے۔

جیسے دہشت گردوں کو مذہب کانام استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح دہشت گردوں کو سیاست کی آڑ لینے کی بھی اجازت نہ دی جائے۔
####
دھماکے ہیں کہ تھمنے میں نہیں آرہے ، ہوئے چلے جا رہے ہیں، ہر دھماکا ہوتے ہی بن تحقیق خود کش قرار پاتا ہے ، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تفتیشی افسر کا بوجھ 75فی صد کم ہو جاتا ہے ۔

” خود کش تھا، پھٹ گیا ، سر مل گیا، انگلی مل گئی، اس کی باقیات کی فرانزک رپورٹ آئے گی تو پتا چلے گا۔“ ابھی رپورٹ نہیں آتی کہ ایک اور دھماکا ہو جاتا ہے ، سب ادھر متوجہ ہو جاتے ہیں، یہ خود کش چھاتہ برداروں کی طرح آسمان سے اترتے ہیں یا زمین سے نکلتے ہیں، کس مخلوق سے ان کا تعلق ہے ، کچھ پتا نہیں چلتا، یہ پتا چل جاتا ہے کہ انہوں نے تربیت کہاں حاصل کی ، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ ٹریننگ سنٹر کیسے بن گئے اور کیوں بن گئے۔

ملنے والا سر یہ تو بتا دیتا کہ میں دہشت گرد کا ہوں ، انگلی بول پڑتی ہے کہ دہشت گرد کے ہاتھ سے الگ ہوئی ہوں مگر سر یہ نہیں بتاتا کہ حادثے میں جاں سے گزرنے والے سب لوگ سر رکھتے تھے، انگلی یہ نہیں بتا پاتی کہ سب مرنے والوں کے پاس انگلیاں تھیں ، شناخت اور اس پہ یقین کی وجہ تو سامنے آنی چاہیے کہ ملنے والا سر یا دھڑ خود کش کا ہی تھا۔
پچھلے دنوں راول پنڈی میں ایک ”امام بارگاہ“کے دروازے پر دھماکا ہوا ، ٹی وی اینکروں نے سرکاری ذرائع کا حوالہ دے اور گلے پھاڑ پھاڑ کے اعلانات کیے کہ خود کش حملہ آور تھا، عینی شاہدین بھی مل گئے جنہوں نے اس کو آتا دیکھا، اس کو روکا بھی گیا ، مگر وہ نہ رکا اور پھٹ گیا ۔

جب سرکار کا بھی اصرار ہے اور ٹی وی کی بھی پکار ہے تو مان لیتے ہیں”پھٹنے کی چیز تھی پھٹ گئی ، جہاں پہلے اتنے پھٹے ایک اور سہی !“ مگر تین چار روز بعد ہی ایک ٹی وی چینل نے ایک وڈیو چلائی کہ دھماکے سے ایک روز پہلے گندی ہوا نکالنے والے پائپ میں ایک شخص دھماکا خیز مواد رکھ رہا تھا، تباہی مچانے والا بارود اس پائپ میں نصب تھا، تو ان دو کہانیوں میں کس کو درست مانا جائے ۔


####
کرکٹ ورلڈ کپ جاری و ساری ہے ، گزشتہ روزایک میچ میں افغانستان بنگلا دیش سے ہار ا، بے چارے افغان کھلاڑی بنگلا بھائیوں سے ہارنے پر افسردہ تھے کہ امریکا بہادر نے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے افغان حکومت اور تمام عوام ، کرکٹ بورڈ ، کھلاڑیوں کو جیت کی مبارک باد دے دی ، بعد میں سور ی کرنا پڑی، یہاں تو معاملہ کرکٹ کے ایک میچ کا تھا،جو ساری دنیا نے دیکھا، سب کو پتا تھا ،بنگلا بھائی جیتے ہیں، اگر میچ زیر زمین ہوا ہوتا، ٹی وی پر نہ دکھایا جاتا تو کون امریکی مبارک باد کو غلط کہہ سکتا تھا، اس سے پتا چلا کہ ہمارے ٹی وی اینکر اور کالم نگارامریکی خبر رساں اداروں اور امریکی دعووں کی بنیا د پر جو الٹی سیدھی باتوں کو سچ اور حق مان لیتے اور اس کو سبق کی طرح رٹتے رہتے ہیں، ان کی بھی تحقیق کی جائے تواکثر معاملات میں امریکی جھوٹ کھل جائے مگر امریکا سے عقیدت تحقیق کیوں کرنے دے بھلا ! ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :