نفسیاتی کالم نویس کا ڈرامہ اور چند بنیادی حقائق

جمعرات 19 فروری 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

نفسیاتی کالم نویس کے کالموں سے چند نفسیاتی اقتباسات ملاحظہ فر مائیں ۔
ہمیشہ کی طرح میں اپنے پسندیدہ مقامات یوگنڈا اور صومالیہ کے سحر آمیز خیالوں میں کھویا ہُواتھا جہاں کے پاسپورٹوں کے لئے میں نے اپنے وعدے کے مطابق مئی ۲۰۱۳ میں ہی درخواستیں جمع کروادی تھیں، وہاں کم از کم جاتی عمرا والے یہ دونوں بھائی تو نہیں ہونگے۔ مجھے یہ اڑتی اڑتی سی خبر ملی ہے کہ صومالیہ والے بد بخت اعتراض لگا رہے ہیں کہ صومالی قوم کے لئے بحری قزاق ہی کافی ہیں، دماغی قزاقوں کی بھرتی فی الحال بند ہے۔

خیر یوگنڈا تو ہے ہی۔ ہاں تو میں آپ کو بتانے لگا تھا کہ میرے پیٹ میں تازہ مروڑ کیوں اٹھ رہا ہے۔ یہاں رچائے جانے والے ڈراموں سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے ” جاتی عمرا جوڑی“ کے ” نیت ڈراموں“ سے اِس ملک میں (جس میں رہنا مجھے سخت نا پسند ہے) کوئی کام وغیرہ ہو رہا ہے یا منصوبے وغیرہ پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ لاہور میٹرو کا منصوبہ در اصل قطب الدین ایبک نے بنایا تھا۔

یقین نہ ہو تو بابائے لاہور سردار کھڑک سنگھ کی آپ بیتی پڑھ لیں اور ثبوت چاہئے تو ایبک روڈ بطور ثبوت حاضر ہے۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ رنجیت سنگھ نے بھی اپنی اکلوتی آنکھ سے میٹرو ٹریک کا معائنہ فر مایا تھا۔ ایک اور تاریخی حقیقت سُنیں۔ ذہین طالب علموں کو مفت لیپ ٹاپ بانٹنے کا آئیڈیا تو اصل میں سر چارلس نیپئر کے ذہن میں سندھ فتح کرنے کے فوراً بعد آیا تھا، تاکہ محکوم رعایا کو مکمل غلام بنایا جاسکے۔

بعد میں اس آئیڈیے پر سر فرانسس موڈی نے کافی کام کروایا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماہرین نے بھی اس سلسلے میں دامے درمے سخنے اپنا کردار ادا کیا۔ ایک اور تاریخی حقیقت سُن لیں تاکہ آپ کہیں انجانے میں ان دو بھائیوں کی جوڑی کو کریڈٹ نہ دے دیں۔ یہ سولر پارک اور سولر لیمپ کا خیال تو ڈیڑھ صدی پہلے ہزارہ کی بالا کوٹ کی پہاڑیوں پر پیدا ہُوا تھا۔

آپ کو تو پتہ ہوگا کہ ہمارے ان کوہستانی بھائیوں نے اس وقت سولر بندوقیں ایجاد کر لیں تھیں۔ یہ انگریز فوج کا نشانہ باندھ کر بندوق کو دھوپ میں رکھ دیتے تھے اور اگر کوئی بے وقوف ان سے کہتا تھا کہ بھائی یہ بندوقیں چلاتے کیوں نہیں تو یہ جواب دیتے تھے
” تپ سی تے آپے ئی ٹُھس کر سی “۔ اور یہ موٹر وے کیا گھٹیا سڑک بنائی ہے، سڑک تو شیر شاہ سوری نے بنائی تھی ، آدمی اونٹ پر بیٹھ کر ایک سو چالیس کی سپیڈ سے جاتا تھا اور سوئی کے ناکے میں سے دھاگے پہ دھاگہ گذارے چلا جاتا تھا۔

ان شریفوں نے تو ملک کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ جینئن لیڈر تو ایک ہی تھا بھٹو، ملک کے ٹکڑے کر واکے اعلان کیا کہ نیا پاکستان بناوٴں گا، کون ہے ایسا لیڈر جو ملک کو تڑواکے دوبارہ بنانے کا اعلان کرے؟ کون ہے ایسا لیڈر جو کارخانوں، صنعتوں، اسکولوں، کالجوں، بینکوں پر قبضہ کر کے ان کا ستیا ناس کردے اور اعلان کرے کہ ”میں بناوٴں گا نئے اسکول، کالج، کارخانے اور بینک“۔

وہ تو زندگی نے وفا نہ کی ورنہ اگر بھٹو کو پچاس ساٹھ سال کی حکومت مل جاتی تو بائیسویں صدی میں پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ خیر مکمل مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، ایک سے ایک نایاب دانہ خان کے ساتھ شامل ہو رہا ہے۔ خان کے لئے اچھے سے اچھا شگون ظاہر ہو رہا ہے۔ میرا سلطان کے بعد ظہیرالدین بابر بھی خان کی ہائی ٹیک پارٹی کو انجوائے کرنے جارہا ہے۔ بیرسٹر تو میرا بوتل بدل بھائی ہے ، خان کی پارٹی میں اگر وٹو بھی شامل ہوجائے تو دروغ بر گردن راوی میں اپنے پرانے کالم واپس چاٹ لوں گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :