ہم،”آپ“اور پی ڈی پی…!

جمعرات 19 فروری 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

حالانکہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے بیچ بندی کچے دھاگوں کی ڈور اروند کیجریوال کے دئے ہوئے جھٹکے سے کٹتے دکھائی نہیں دے رہی ہے لیکن ”آپ کی دلی“غیر محسوس طور جموں و کشمیر میں اثر دکھانے جا رہی ہے۔دلی والوں کا جھومنا تو فطری ہے کہ اُنہوں نے کھیل کھیل میں مودی کے منتر اور نہ جانے کیا کیا کو فیل کر دیا ہے لیکن جموں و کشمیر میں لوگ دلی والوں کے اِس کھیل سے حض اُٹھانے کی اپنی وجوہات تلاش کر رہے ہیں۔

البتہ یہ بات الگ ہے کہ اروند کیجریوال کی” جھاڑ پھونک“کا جموں و کشمیر کے لوگوں کو کوئی” فائدہ“ ملنے کی تو اُمید نہیں ہے لیکن یہاں کی سیاسی طاقتیں اِس سے فائدہ بٹورنے کی پوری کوشش میں ہیں۔ مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی اِس صف میں سب سے آگے کھڑا ہے لیکن کیا وہ عام آدمی پارٹی سے کوئی سبق لیکر اپنی سیاسی کتاب پر نظرِ ثانی کرکے اِسے تادیرReleventبنائے رکھے گی یا پھر وقتی فائدہ بٹور کر موقعہ پرست بلکہکم ظرف ہونے کا ثبوت دے گی ،یہ ایک دلچسپ مشاہدہ ہوگا۔

(جاری ہے)


کانگریس اور بی جے بی جیسی طویل ”اِتہاس“رکھنے کے متکبرانہ دعویٰ رکھنے والی پارٹیوں کے مقابلے میں نوزائد ”آپ“کی 2013میں پہلی دھماکہ دار جیت نے اُسوقت دونوں پارٹیوں پر سکتہ توطاری کر ہی دیا تھا لیکن آپ کی تازہ جیت سکتی طاری کرنے کی بجائے سونامی بن کر بہت کچھ بہا کے لے گئی ہے۔آپ کی اِتنی بڑی جیت اِس وجہ سے بھی اہم ہے کہ اِسکا کسی کو اندازہ تو دور بلکہ ایسا کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا۔

جیسا کہ بیشتر ٹیلی ویژن چینلوں کے ظاہر کردہ اندازوں سے ظاہر تھا کہ روایتی سیاستدانوں کے استحصال سے عاجز آچکے لوگوں کی اُمید بھری نظریں کیجریوال کی جانب دیکھ سکتی ہیں لیکن 10/فروری کو جو کچھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں نے اُگلا ،اندازوں بلکہخود آپ کی تمناوٴں سے بھی بہت زیادہ تھا۔دلی کا یہ انتخاب بہرحال ایک تاریخ بن گیا ہے اور پھر دلی ہی نہیں بلکہ دوردُنیا تک چرچے ہیں کہ آپ نے سونامی بن کر بی جے پی کے نام نہاد طلسم کو توڑا ہے اور پھر اِسکے غرور کو خس و خاشاک کی طرح بہا لیا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”سونامی“آئے تو اثرات دور درس اور دیر پا ہوتے ہیں۔آپ کی جیت میں بین السطور بی جے پی کے لئے کیا پیغام ہے یہ سمجھنے کے لئے کسی خاص حِس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ معاملہ اِتنا واضح ہے کہ عام ووٹر بھی نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ 10/فروری سے مکرر اِسکی تشریح و تشہیر میں لگا ہوا ہے۔موجودہ سماج کا آئینہ بنی ہوئی سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر اِس حوالے سے ابھی ایک طرف محفلانِ مزاحبنی ہوئی ہیں تو دوسری جانب بی جے پی اینڈ کو کو سنجیدگی کے ساتھ آئینہ دکھایا جا رہا ہے۔


حالانکہ انا ہزارے سے الگ ہو کر سیاسی پارٹی بنانے کے وقت اروند کیجریوال پر کئی طرفہ تنقید ہوئی تھی اور وہ اثر جو انا کی مختصر تحریک نے پیدا کیا تھا ایک دم زائل ہوتا دکھائی دینے لگاتھا۔خود انا ہزارے نے بھی کیجریوال کی کامیابی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیاتھا لیکن محض سال بھر کی مختصر جدوجہد کے دوران کیجریوال نے جو انداز اپنائے رکھا وہ منفرِد بھی تھا اور شائد عام آدمی کے دل کی آواز بھی۔

چناچہ کیجریوال نے کانگریس اور بی جے پی سے یکساں دوری رکھتے ہوئے ان دونوں پارٹیوں کو ایک ہی ترازو میں تولا اور ان پر رشوت ستانی اور فرقہ پرستی کے جیسے عیبوں کا الزام لگایا اور کہا کہ دونوں ہی پارٹیوں نے ہندوستان کو تباہ اور ہندوستانیوں کو مایوس کر دیا ہے لہٰذا انکا متبادل پیش کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔البتہ پہلی باری میں کیجریوال کے سرکار چلانے میں ناکام رہنے کے بعد اُنسے توقع کر بیٹھے لوگوں کی اُمیدوں پر اوس پڑی اور اِسکے ساتھ ہی کیجریوال کا جودو جیسے کافور ہونے لگا لیکن ہمت ہارے بِنا جس طرح ڈگمگائے بغیر شاہراوٴں کے مقابلے میں اپنی بنائی ہوئی پگڈنڈی پر چلتے رہے اُس سے ثابت ہو گیا کہ وہ فقط جذبات کے اِرتعاش کے ساتھ میدان میں نہیں ہیں بلکہ ایک مکمل سوچ کے حامل ہیں کہ جسے حقیقت میں ڈھالنے کا وہ منصوبہ بھی رکھتے ہیں۔

مودی لہر کا شکار ہو کر ایک خاص سمت میں لڑھکے میڈیا کی مخالف کوششوں اور بی جے پی کے ذاتی حملوں کے با وجود تاہمکیجریوال کی سوچ،جیسا کہ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوا ہے،کامیابی کے ساتھ عام آدمی کے دل و دماغ میں منتقل ہوتی گئی اور اجتماعی طور عام آدمی نے وہ کیا کہ جسے ہندوستانی جمہوریت کے لئے طرحدار اور سچا سلام کہا جا رہا ہے۔
ظاہر ہے کہ ایک مثال بن چکے دلی کے انتخابات کے فوری اور دور رس اثرات کا دلی سے بہت دور تک اثر جائے گا سو جموں و کشمیر میں بھی ہونا طے ہے۔

جموں و کشمیر میں ،جہاں حکومت سازی کو لیکر زائد از ڈیڑھ ماہ سے غیر یقینیت کی ایک صورتحال قائم ہے،آپ کی جیت سے سیاست کا اُلٹ پھیر ہونے کے اِمکانات پیدا ہو گئے ہیں۔اِس بات کو دہرانے کی شائد ضرورت بھی نہیں ہے کہ جموں و کشمیر میں گذشتہ سال کے اواکر میں ہوئے انتخابات میں لوگوں کی بھاری شرکت کے باوجود بھی کسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہو ہپائی تھی اور 87/رُکنی اسمبلی میں حکومت سازی کے لئے درکار44/نمبرات کا حصول کسی بھی پارٹی کے لئے ممکن نہیں ہوا تھا۔

پھر نمبرات کا حصول ایسا ہے کہ کسی بھی پارٹی کو کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اِتحاد کرنے کے لئے اصولوں سے ا،نحراف کی مجبوری ہے۔در اصل انتخابی نتائج نے کئی طرح کی حیرانگیاں اُگل دی تھیں کہ پی ڈی پی ،جو اسمبلی میں اپنے بل پر حکومت بنانے کے خواب دیکھتے ہوئے اُچھل رہی تھی،محض 28/سیٹوں پر سمٹ گئی حالانکہ دس نشستوں پر اِسے 1500/سے بھی کم ووٹوں سے شکست ہوئی۔

یہ بات بھی کم حیرانگی والی نہیں تھی کہ مشن44+کا غبار کھڑا کر چکی بی جے پی کے لئے وادی میں کھاتہ کھولنا تک ممکن نہیں ہوا اگرچہ ا،س نے جموں صوبہ میں کانگریس کا صفایا کرتے ہوئے25/سیتوں پر قبضہ جمانے میں کامیابی پائی۔حیرانگی کی بات یہ بھی تھی کہ جموں میں اپنا سب کچھ ہار جانے والی کانگریس کو وادی میں 12/سیٹوں پر کامیابی ملی جن میں ایسی کئی سیٹیں بھی شامل ہیں کہ جنہیں اب کئی برسوں سے پی ڈی پی کی میراث سمجھا جانے لگا تھا۔

سب سے دلچسپ حیرانگی یہ تھی کہ جموں و کشمیر پر دہائیوں حکومت کرتی رہی نیشنل کانفرنس اِس بات پر پھولے نہیں سما پارہی ہے کہ اِسے 15/سیٹیں تو مل گئی ہیں۔در اصل پارٹی اتنی سیٹوں کی توقع بھی چھوڑ چکی تھی اور جب اِسے پندرہ سیٹیں ملیں تو اِسے ایسا لگا کہ جیسے اِس نے کوئی خواب دیکھا ہو۔کم عبداللہ کی اُچھل کود سے تو کم از کم ایسا ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

حیرانگی کا مکمل Packageکہلائے جا سکتے اِن انتخابات کا 23/دسمبر کونتیجہ سامنے آنے کے بعد سے ہی اِبہام کی سی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ تاہم کشمیری عوام کی سیول سوسائٹی سے لیکر دانشوروں تک اور علیٰحدگی پسند سیاستدانوں سے لیکر مسلح جنگجووٴں تک کی اشارتہََ یا وضاحتاََ نصیحتوں کے بر عکس پی ڈی پی بی جے پی کے ساتھ اِتحاد کرنے راضی ہوگئی ہے۔

قریب ڈیڑھ ماہ سے دونوں پارٹیوں کے بیچ بات چیت جاری ہے اور ایک مشترکہ لائحہ عمل کی ترتیب پر کوششیں جاری ہیں کہ جسے سامنے رکھتے ہوئے پی ڈی پی بی جے پی کے سہارے حکومت بھی کرے اور بی جے پی کو شجرِ ممنوعہ سمجھتے آرہے کشمیریوں کے سامنے اپنی Face Savingکا انتظام بھی رکھے۔
گو پی ڈی پی-بی جے پی اتحاد کے مخالفین کا ماننا ہے کہ ا،س ممکنہ اِتحاد کے کئی نقائص میں یہ بھی ہے کہدونوں کے مابین نظریاتی اختلافات، بالخصوص بی جے پی کے جموں و کشمیر کو ایک خاص پوزیشن دلانے والے دفعہ370/اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے منافہ ہونے اور پی ڈی پی کے اِن دونوں معاملات پر بر عکس سوچ رکھنے،ہیں جو اِنہیں بہت دور تک ساتھ نہیں چلنے دے سکتے ہیں۔

البتہ پی ڈی پی کو ایک لمبے انتظار کے بعد ،جوڑ توڑ کر کے ہی سہی،جموں و کشمیر میں سرکار بنانے کا موقعہ ملا ہے جسے وہ چھوڑنا نہیں چاہتی ہے۔ پھر پارٹی کے سرپرست مفتی محمد سعید کی عمر کا تقاضا ہے کہ وہ شائد چھ سال بعد اِس حالت میں نہ ہوں کہ انتکابات کی قیادت کرے اور حکومت چلانے کا اپنا خواب پورا کرسکیں۔ظاہر ہے کہ ایسے میں پی ڈی پی کچھ بھی کر کے مسٹر سعید کو ابھی وزیرِ اعلیٰ بنتے دیکھنا چاہتی ہے اور ایک ”الگ طرح“کی حکومت چلانا چاہتی ہے۔

لیکن بی جے پی کے ساتھ پارٹی کا اِتحاد آسان نہیں ہے کہ پارٹی نے اپنی انتکابی مہم کے دوران جن بنیادی باتوں پر ووٹ مانگا تھا اُن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ بی جے پی کو ریاست میں انٹری لینے سے روکنا ضروری ہے۔حالانکہ سابق ھکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے پی ڈی پی کو حکومت سازی میں حمایت دینے کی پیشکش بھی کر دی تھی اور کانگریس نے حمایت کی پیشکش سے آگے بڑھتے ہوئے بلکہ پی ڈی پی کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش بھی کی تھی لیکن پی ڈی پی یہ کہتے ہوئے آمادہ نہ ہوئی کہ جموں و کشمیر جیسی ریاست کا نظم چلانے کے لئے مرکزی سرکار کی زبردست حمایت ضروری ہے لہٰذا بی جے پی کو یکطرفہ کرکے سرکار نہیں بنائی جا سکتی ہے۔

اِس ھوالے سے پی ڈی پی ریاست میں بڑے طعنے سہتی آرہی ہے کہ وہ اقتدار کے لئے پریشان ہے اور اِسی لئے کشمیری عوام کی مرضی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بی جے پی کو اُنکے سروں پر سوار کرنے جا رہی ہے۔
چناچہ آپ کی زبردست کامیابی کے بعد ایک نئی صورتحال یہ پیدا ہوئی ہے کہ پی ڈی پی پر عوامی سطح پر بڑا دباوٴ بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے اور لوگوں کا سوال ہے کہ اگر اروند کیجریوال اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے کوئی اتحاد کرنے پر آمادہ نہ ہوکر سر نو ووٹروں کے پاس جا سکتے ہیں تو پھر پی ڈی پی کو مسنندِ اقتدار پر بیٹھنے کی جلدی کیا ہے اور وہ دوبارہ انتکابی میدان کا رُخ کیوں نہیں کر سکتی ہے؟۔

البتہ جہاں پی ڈی پی پر اِس طرح کا دباوٴ ہے وہیں پارٹی کے پاس بی جے پی کے مقابلے میں مزیدBargaining Powerآگیا ہے اور اب پی ڈی پی ،جو چند دنوں پہلے تک بی جے پی کے یہاں سرخم کئے ہوئے دکھائی دے رہی تھی،ا،سی بی جے پی کے سامنے کسی حد تک سر اُٹھانے کی جُرأت کر سکتی ہے۔با الآخربی جے پی اروند کیجریوال کی ”جھاڑ پھونک“نے بی جے پی کا وہ دم باقی چھوڑا ہے اور نہ ہی یہ پارٹی اُس قدر نا قابلِ تسخیررہی ہے کہ جسے ڈرایا نہ جا سکتا ہو ۔

اندازہ ہے کہ پی ڈی پی بی جے پی کے ساتھ نہ جانے سے متعلق بڑھتے جارہے دباوٴ کی بجائے آپ کی جیت کی کوکھ سے جنمے ”موقعہ“کو غنیمت جانتے ہوئے مذکورہ بالاBargaining Powerکو استعمال میں لائے گی اور بی جے پی سے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
آپ کی کامیابی نے بی جے پی کے لئے یقیناََ ایک مجبوری پیدا کرے کہ وہ جموں و کشمیر کی سرکار میں آئے اور اپنے حلقوں کے دھڑام سے گرے مورال کو کچھ اوپر اپٹھانے کی کوشش کرے۔

یعنی صاف ہے کہ آپ نے بی جے پی کو دلی میں مارا ہے لیکن جموں و کشمیر جیسی ریاست میں بھی بی جے پی کو اکڑ چھوڑ دینے کی ضرورت پیش آنے لگی ہے۔
پی ڈی پی کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے بیانوں سے بھی ایسا ہی سمجھا جا سکتا ہے۔چناچہ آپ کی کامیابی کے فوری بعد ریاست میں بی جے پی کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا کہ جس میں جموں و کشمیر اور دلی کی سیاست میں لکیر کھینچنے کی کوشش کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ دلی کی سیاست کا جموں و کشمیر میں کوئی اثر نہیں ہونے جا رہا ہے۔

اِتنا ہی نہیں بلکہ گذشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران یہ پہلی بار تھا کہ بی جے پی نے حتمی طور کہا کہ جموں و کشمیر میں اگلے دو یا تین دن کے دوران سرکار بنانے کا با ضابطہ اعلان متوقع ہے۔ایسا کہتے ہوئے بی جے پی نے ایک طرح سے اِس ڈر کا اظہار کیا ہے کہ کہیں پی ڈی پی پیچھے ہٹ کر بی جے پی کو ایک اور جھٹکہ نہ دے۔یہ بات الگ کہ پی ڈی پی کا عشقِ اقتدار اِسے تمام تر اطراف سے ملنے والی صلاحوں کے باوجود پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہونے دے گی لیکن بی جے پی کے بیان سے ایک طرح سے صاف لگ رہا تھا کہ پارٹی خدشات کا شکار ہو گئی ہے۔


پی ڈی پی نے بھی اپنی طرفسے واضح کر دیا ہے کہ بی جے پی کے ساتھ اِسکا اتحاد سمجھو ہو ہی گیا ہے اور ا،س پر آپ کے اثرات نہیں ہونگے۔یعنی پارٹی نے ریاست میں نئے انتظابات کے اِمکان کو مسترد تو کر دیا ہے لیکن پارٹی کی زبان میں آیا فرق بتانے لگا ہے کہ کیجریوال کے جھاڑ پھونک نے اِسکا ”ڈر“بڑی حد تک کافور کر دیا ہے۔ پی ڈی پی کے سرپرست اور ممکنہ وزیرِ اعلیٰ مفتی محمد سعید نے آپ کے کارنامے کے ردِ عمل میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی زبردست جیت میں بی جے پی کے لئے ایک واضح پیغام ہے۔

اُنہوں نے کہا ہے کہ بی جے پی کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے اور سمجھنا چاہیئے کہ ہندوستان مختلف مذہبوں،تہذیبوں اور سماجوں کا ملک ہے جس میں ہر شہری کو کسی بھید بھاوٴ کے بغیر حقوق ملنے چاہیئے۔مفتی محمد سعید نے اروند کیجریوال کو دِلی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ” عام آدمی پارٹی ہندوستان کے ہر شہری کی مبارک اور نیک خواہشات کی مستحق ہے“۔

بیان میں مفتی محمد سعید نے مزید کہا ہے کہ دلی میں کیجریوال نے جس طرح بے جے پی کو ش شکست دی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھاجپا کے کئی لیڈران کی غلط پالیسی اور اور انتہا پرست سوچ کی وجہ سے دلی میں بی جے پی کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ مفتی محمد سعید نے دلی میں عام آدمی پارٹی کی جیت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس سے سبق لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دلی کے باشندوں نے یہ پورے ملک کے عوام کو ایک پیغام دیا ہے کہ جمہوریت میں انتہا پسندوں اور سخت گیر موقف رکھنے والوں کی جگہ نہیں ہے ۔

مفتی محمد سعید نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو دلی میں اپنی ہار پر سوچنا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ملک میں پارلیمانی انتخابات میں جیت کے بعد بھاجپا کے لیڈران نے جو بیانات دینے شروع کئے اور اپنی پالیسی جس طرح کئی لیڈروں نے تبدیل کی دلی کی ہار اسی کا نتیجہ ہے انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے کہا ہے کہ وہ پارٹی لیڈران کو تلخ بیان بازی کرنے سے باز رکھیں اور عوام کی راحت رسانی کیلئے کام کرنے کا مشورہ دیں انہوں نے کہا کہ ملک کے ہر شہری کو ہر سہولیت بلا کسی خلل کے ملنی چاہئے چاہے وہ راشن کارڈ حاصل کرنا ہو، پاسپورٹ، یا دیگر سہولیات ہوں ان کو حاصل کرنے میں کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو ۔

اُنہوں نے کہا کہ ملک میں اقلیتی فرقوں کا خیال رکھنا اور انکی حفاظت کرنا مرکزی سرکار کی اولین ذمہ داری بنتی ہے ۔
دلچسپ ہے کہ مفتی محمد سعید نے جموں و کشمیر میں انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد پہلی بار بی جے پی کے لئے اِس طرح کا مفصل”نصیحت نامہ“جاری کرنے کی جُرأت کی ہے حالانکہ مفتی کے گِنے ہوئے نقائص تب بھی بی جے بی میں عیاں تھے کہ جب 10/فروری کی سونامی نہیں آئی تھی۔

مفتی کے اِس بیان کے بین السطور آسانی سے پڑھا جا سکتا ہے کہ اگرچہ پی ڈی پی نے آپ کو دیکھتے ہوئے کیجریوال کے راستے جانے کا ابھی فیصلہ نہیں لیا ہے لیکن وہ ایک ہفتے پہلے کے مقابلے میں اب بی جے پی کے ساتھ ”اپنی شرائط“پر جُڑے گی اور پارٹی کے تیور بتانے لگے ہیں کہ بی جے پی نے کبھی بڑا بھائی بننے کی کوشش کرتے ہوئے مطالبات ماننے سے اِنکار کیا تو مفتی سعید کیجریوال کی پگڈنڈی پکڑ سکتے ہیں،یہ سب 10/فروری کی سونامی کا کیا دھرا ہے اور پھر مطلب نکال کر ساتھیوں کو بیچ منجدھار میں چھوڑنے کی بات ہو تو مفتی صاحب اِسکا تجربہ رکھنے کا ،2008میں غلام نبی آزاد کی ٹانگ کھینچ کر، خوب مظاہرہ کر چکے ہیں۔(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :