ایم کیو ایم اور چند حقائق

منگل 17 فروری 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

ہو سکتا ہے کہ آپ کو ان کی شخصیت نا گوار گزرتی ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو ان کی آواز بھلی معلوم نہ ہوتی ہو۔ شاید ان کا طرزِ خطابت آپ کی قوتِ سماعت کا امتحان بھی لیتا ہو۔ ممکن ہے آپ کو ان کے نظریات سے بے بہا اختلاف ہو اور پھر شاید آپ کراچی سے دور بیٹھ کر ان کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز میں پھیلی تمام تر برائیوں کی جڑ بھی سمجھتے ہوں تو کوئی بڑی بات نہیں کہ جمہوری معاشرے میں کسی کے بھی بارے رائے رکھنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

پر مسئلہ یہ ہے کہ حقوق یکطرفہ نہیں ہوتے جبکہ ذاتی پسند و ناپسند کسی دوسرے کی حقیقت پر کسی طور اثر انداز بھی نہیں ہوتی۔ الطاف حسین پاکستانی سیاسی جنگل کے وہ چیتے ہیں جو جمہوری و غیر جمہوری قوتوں کی دھینگا مشتی میں ہمہ وقت طاق لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور صحیح وقت پر درست سمت سے حملہ آور ہو کر سامنے والے کی درگت بنا کر یہ جا وہ جا۔

(جاری ہے)

الطاف حسین پاکستان کی اہم حقیقت ہیں جن کے چاہنے والوں کی تعداد مخالفین کی تمام تر خواہشات کے بر عکس لاکھوں میں ہے اور یہی محبانِ الطاف انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کو بالخصوص سندھ میں خاص تناسب میں نشستیں جتواتے ہیں۔

الطاف حسین پاکستان کی اتنی ہی بڑی سچائی ہیں جتنی کہ دیگر سیاستدان ، اس ملک کے جرنیل اور بہت سے دوسرے!!!
الطاف حسین صاحب کی سیاسی جماعت کو ضیاء کی پیداوار قرار دینے والوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بھائی آمریت کے گملے میں پروان چڑھنے والے واحد سیاستدان نہیں۔ ایم کیو ایم کے پروان چڑھنے میں اس دور کے سیاسی حالات نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

1985 کے غیر جماعتی انتخابات نے سیاسی جماعتوں کی انتخابات میں عدم شرکت کے باعث عوام کو کسی سیاسی منشور کے بجائے مذہب، رنگ، نسل، برادری اور فرقہ واریت کی بنیاد پر اپنے نمائندگان منتخب کرنے کی داغ بیل ڈالی تھی اور اسی ماحول میں ان انتخابات میں حصہ لینے والے مہاجر قومیت کے علم برداروں کو الطاف حسین سمیت مہاجر برادری نے بڑے پیمانے پر ووٹ دے کر ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا اس امید کے ساتھ کہ الطاف حسین مہاجر برادری کے حقوق کا بھرپور دفاع کریں گے۔

1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے تشکیل پانے والی جماعت 1988 کے عام انتخابات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی۔ 80کی دہائی میں جہاں سیاسی سرگرمیاں ڈکٹیٹر کی منشاء کے بغیر جاری رکھنا آسان کام نہیں تھا وہاں ایم کیو ایم کی سیاسی تنظیم سازی اور بنا روک ٹوک پروان چڑھنے کی جو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں ان میں اولین وجہ سندھ خصوصاٌ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کو کھلی چھوٹ کا دیا جانا فوجی آمر کی سیاسی بلوغت کے حامل سندھی قوم پرستوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ایک موئثر سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ تھی۔

جبکہ ایک اور اہم محرک ضیاء آمریت کے خلاف 1983 میں سندھ سے ابھرنے والی ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کی تحریک تھی جسے غیر موئثر بنانے کے مقصد سے سندھ میں نسل کی بنیاد پر پیدا کی گئی بامقصد تفریق کو اب پر تشدد بنانے کی ضرورت محسوس کی گئی اور اسی مقصد سے مہاجر سندھی یا مہاجر پٹھان فسادات کو روکنے کی شش تو درکنار بلکہ انہیں ہوا دیے جانے کے مقصد سے افغان جہاد کا اسلحہ تک ان فسادات میں استعمال ہوتا نظر آیا۔

اُس دور کے اِس کھیل کا بنیادی مقصد صرف اور صرف آمریت کے دور کو دوام بخشنا تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں!!
آمریت کے پیدا کردہ ماحول میں جب ریاست اور مشینری اپنے شہریوں کے مابین قانون سازی اور حقوق کے حوالے سے رنگ، نسل، مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر تفریق کرنے لگے تو بنگلہ دیش کا وجود میںآ نا، نسلی امتیاز کا شکار افراد کا اپنے حقوق اور مفادات کے حصول و تحفظ کے مقصد سے مسلحہ و غیر مسلحہ سیاسی و غیر سیاسی جہد کرنا، معاشرتی سطح پر مذہب سے لے کر رنگ و نسل تک کی بنیاد پرمنافرت کا پھیلنا محض چند منفی و منطقی اثرات ہیں۔

ایم کیو ایم اور الطاف حسین میں بھی دیگر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی طرح بہت سی برائیاں گنوائی جا سکتی ہیں اور بہت سے الزامات بھی داغے جا سکتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم اپنا ایک مضبوط سیاسی ووٹ بینک رکھتی ہے،1992 سے 1994 تک آپریشن کلین اپ اور بلیو فاکس کا سامنا کرنے کے باوجود قائم و دائم ہے، انہی آپریشنز کے دوران جناح پور کے برآمد ہوئے نقشے وقت نے غلط ثابت کیے ، الطاف حسین نے اپنے بڑے بھائی اور بھتیجے کو اسی سیاسی کشمکش میں کھویا ہے، الطاف حسین نے 1971 میں یحی خان کی این ایس سی سکیم کے تحت مشرقی پاکستان میں 57 بلوچ رجمنٹ میں خدمات سرانجام دیں، 1971 کی جنگ کے بعد الطاف حسین کی خواہش کے برعکس پاکستان فوج میں باقاعدہ شمولیت اس بنا پر نہیں دی گئی کہ ان کے والدین مہاجر تھے، انہی الطاف حسین نے 1997 میں جماعت کے نام سے لفظ مہاجر کو ہٹا کر متحدہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو نسلی جماعت سے قومی جماعت کا تشخص فراہم کیا، مشرف صاحب نے این آر او کیا تو ایم کیو ایم وہ واحد سیاسی جماعت تھی جس کے رہنماؤں کے خلاف یکم جنوری 1986 سے 12 اکتوبر1999 کے دوران پرجو مقدمات ختم کیے گئے ان میں مالی کرپشن کی بنیاد پر کوئی ایک کیس بھی درج نہیں تھا دوسری طرف الطاف حسین اور فاروق ستار کے خلاف اس دوران درج قتل اور اقدامِ قتل کے تمام مقدمات سیاسی محرکات کے پیش نظر قائم کیے گیے تھے۔

لندن میں حالیہ منی لانڈرنگ کا کیس بھی فی الوقت ایم کیو ایم کے رہنما کے خلاف کچھ ثابت نہیں کر سکا اور عمران فارق قتل کیس بھی اس سے مختلف نہیں۔
بیان کردہ حقائق کے باوجود ایم کیو ایم پر ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، مجرمان کی سیاسی پشت پناہی یا مسلحہ سیاسی بازو رکھنے کے حوالے سے جو الزامات وقتاٌ فوقتاٌ سامنے آتے ہیں تو پاکستان کی چوتھی اور سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہونے کے ناطے ان پر فرض ہے کہ اپنے آپ کو ہر عدالتی سطح پر تحقیقات کے لئے پیش کریں۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرنا ان کا حق ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح طاہر القادری ماڈل ٹاؤن سانحے کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مندرجات کی روشنی میں فیصلہ عدالت کا کام ہے اور عدالت کو اس کا کام کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم پر مندرجہ بالا جرائم میں ملوث ہونے کا الزام ہے تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کے معاملات، دہشت گردوں کی پرورش و سرپرستی اور کالعدم تنظیموں سے قریبی روابط رکھنے کے حوالے سے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کی تاریخ گواہ ہے۔

پاکستان میں کسی سیاسی جماعت اور ادارے کا دامن اتنا صاف ستھرا نہیں کہ اس کے کردار پر انگلی اٹھائی نہ جا سکے لیکن ضروری بات یہ ہے کہ پاکستان کے تبدیلی کے مرحلے سے گزرتے قومی بیانیے اور سیاسی ماحول کے تناظر میں ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو حقیقتاٌ جرائم پیشہ و دہشت گرد عناصر سے اپنے آپ کو یکسر غیر منسلک کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔اسی بات کا تقاضا بھائی اپنے خطابات میں کئی مرتبہ ایم کیو ایم کی مقامی قیادت سے بھی کر چکے ہیں جس پر عمل کرنے کا نادر موقع کراچی آپریشن کی صورت میں ایم کیو ایم کے لئے اب عملاٌ موجود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :