خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کی ضرورت

منگل 17 فروری 2015

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے رحیم یار خان میں پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کی دوبارہ تشکیل ضروری ہے۔ حکومت نے امور خارجہ کے لیے 2 مشیر رکھے ہیں مگر خارجہ پالیسی ناکام دکھائی دیتی ہے۔ خارجہ پالیسی از سر نو تشکیل دینے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے۔ نواز شریف کل وقتی وزیر خارجہ مقرر کریں اور اے پی سی بلائیں۔


کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی قوموں کی برادری میں اس ملک کے تشخص کا تعین کرتی ہے۔ جس قوم کی قیادت بصیرت، بالغ نظری، پختہ کاری اور ہوش مندی کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو، اسے دنیا میں اپنی عزت ووقار، آزادی، خود مختاری کے تحفظ کا اول تو کوئی مسئلہ ہی نہیں رہتا اور اگر کہیں کوئی خطرہ، دشواری یا چیلنج درپیش ہو بھی جائے تو اس کی اولوالعزم قیادت اس سے نہ صرف بہتر طریقے سے نمٹ کر دکھاتی ہے، بلکہ مستقبل کے خطرات کے دیرپا سدباب کے لیے بھی ٹھوس اور موثر تدابیر کرتی ہے۔

(جاری ہے)

قیادت کا شعور، وژن اورادراک بسا اوقات چھوٹی اور کمزور اقوام کو بھی سربلندی وافتخار کے اعلیٰ مراتب پر فائز کرتا ہے اور قیادت وسیادت کے منصب پر اتفاقیہ، حادثاتی یا موروثی طورپر براجمان ہونے والے افراد کی کوتاہ بینی، ناعاقبت اندیشی اور بے بصیرتی بہت دفعہ ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ممالک واقوام کو بھی بے حال کرکے رکھ دیتی ہے۔ وطن عزیز پاکستان اس کی بہترین مثال ہے۔

پاکستان رقبے کے اعتبار سے دنیا کا 34 واں اورآبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے، ہر طرح کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور افرادی قوت میں بھی کسی سے کم نہیں ہے مگر دوسری جانب تعلیم، صحت، رفاہ عام، مسلمہ انسانی حقوق، شہری سہولیات اور امن وامان کے لحاظ سے اس کا شمار ہمیشہ آخری درجے کے بدحال ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ اس ملک کو شروع دن سے قیادت کے بحران کا سامنا ہے۔

ایک آدھ استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر یہاں کوئی ایسی قیادت ہی نہیں پنپ سکی جو پاکستان کے بہترین جغرافیائی محل وقوع، قدرتی وسائل، افرادی قوت اور مالا مال تہذیب وثقافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی قوم کو دنیا میں اعلیٰ مقام دلانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرپاتی۔ چنانچہ آج ہمارا حال یہ ہے کہ” نزلہ برعضو ضعیف “کے مصداق دنیا کی ہر خرابی کا ذمہ دار ہمیں ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور ہر تعزیر، ہر الزام اور ہر دشنام کو ہمارے نام لکھ دیا جاتا ہے جبکہ ہر انعام واکرام کے لیے ہمارے ازلی دشمنوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔


قیادت کے بحران کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کسی دور میں بھی متوازن، ملک وقوم کے حقیقی مفادات سے ہم آہنگ اور اعتدال ومعقولیت پر مبنی نہیں رہی ہے۔ سرد جنگ کے دوران ہمارے لیے مکمل طور پر غیر متعلق رہنا تو شاید ممکن نہیں تھا تاہم خود کسی ایک بلاک میں فٹ کرکے عالمی طاقتوں کی جنگ کا ایندھن بنانے کا ہمارا فیصلہ کہاں تک دانش مندانہ تھا؟ اس کا اندازہ ملک اور خطے کے تازہ منظر نامے سے بالکل واضح ہے۔

اس حقیقت سے دنیا کا ہر باشعور شخص واقف ہے کہ کسی بھی ملک کے داخلی حالات، امن وامان اور معیشت کا براہ راست تعلق اس کی خارجہ پالیسیوں سے ہوتا ہے۔ آج وطن عزیز پاکستان کو جن داخلی چیلنجوں بالخصوص دہشت گردی کے خونخوار عفریت کا سامنا ہے، اس کی سب سے اہم وجہ ملک کی خارجہ پالیسیاں ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قومی پارلیمان ایک سے زاید بار یہ قرار داد منظور کرچکی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خارجہ پالیسی بالخصوص دہشت گردی کی امریکی جنگ میں تعاون کی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔

پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران جتنے بڑے سانحات رونما ہوئے، ان میں سے بیشتر کا تعلق خطے میں انسداد دہشت گردی کے نام پر برپا اس جنگ سے بنتا ہے جس کو پاکستانی عوام کی غالب اکثریت اپنی جنگ نہیں سمجھتی۔
سانحہٴ پشاور کے بعد قومی ایکشن پلان کے تحت کیے جانے والے اقدامات کی افادیت یا نقصانات سے قطع نظر اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے کہ جب تک پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کو ملک کے حقیقی مفادات اور قوم کی امنگوں کے مطابق نہیں بنایا جاتا اور جب تک حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر خارجی دباؤ، مداخلت کا تاثر ختم نہیں ہوتا اور پاکستان پر غیروں کی غلامی کی چھاپ نہیں اتاری نہیں جاتی ، ملک کے اندر امن واستحکام کے امکانات زیادہ قوی نہیں رہیں گے۔

جہاں تک پاکستان کے معاشی واقتصادی لحاظ سے عالمی طاقتوں کے محتاج ہونے کا تعلق ہے تو اس کا سبب بھی بہت سے اہل نظر کے نزدیک غیروں کی دریوزہ گری کی ہمارے حکمرانوں کی مخصوص ذہنیت ہی ہے۔ اگر ہمیں اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے بھی جرأت مندانہ خارجہ پالیسیوں کی تشکیل ضروری ہے۔ اسی دنیا میں ایسے کئی ممالک موجود ہیں جو رقبے، آبادی، معیشت ، غرض ہر لحاظ سے ہم سے چھوٹے اور کمزور ہیں مگر وہ استعماری قوتوں کی دھونس دھمکی کو قبول نہیں کرتے اور اپنے محدود وسائل کے اندر رہ کر بھی عزت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں بھی قوموں کی برادری میں عزت وافتخار سے جینے کا قرینہ سیکھنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :