درد کی دوا

منگل 17 فروری 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ 1960کے لگ بھگ کا واقعہ ہے ،وقت کا مشہور موٴرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا ، ٹائن بی دنیا کے ان گنے چنے موٴرخوں میں سے ہے جس نے قوموں،تہذیبوں او رملکوں کے عروج وزوال پر تفصیل سے بحث کی ہے ۔دنیا میں اب تک چوبیس کے قریب نامور تہذیبوں نے جنم لیا ہے اور ٹاین بی نے اپنی کتاب A Study of history میں ان چوبیس تہذیبوں کے عروج وزوال کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے۔

اگرچہ تاریخ ،فلسفہ ء تاریخ اور تہذیبوں کے عروج وزوال کے حوالے سے ابن خلدون کو اولیت حاصل ہے اور آج تک کوئی موٴرخ ایسا نہیں آیا جس نے ابن خلدوں کی ہمسری کا دعویٰ کیا ہو لیکن اس حوالے سے ٹائن بی کا کام بھی کافی خاصے کی چیز ہے۔ٹائن بی نے تاریخ کی تحقیق او ر تاریخ کا کھوج لگانے کے لیئے دنیا بھر کا سفر کیا اور اسی سلسلے میں وہ 1960کی دہائی میں پاکستان بھی آیا ۔

(جاری ہے)

حکومت پاکستان کی طرف سے اسے مکمل پروٹوکول دیا گیا ،نامور صحافی ،موٴرخ اور تاریخ دان اس کے قافلے میں شریک ہوئے اور ٹائن بی پاکستان گھومنے کے لیئے نکل کھڑا ہوا،اس وقت کے ایک نامور صحافی جو اس قافلے میں شریک تھے لکھتے ہیں کہ میں کافی دن تک ٹائن بی کے ساتھ شریک سفررہا لیکن مجھے یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوتی تھی کہ بیسویں صدی کا نامور موٴرخ اس قدر افسردہ، چڑچڑا،خشک مزاج اور پریشان کیوں ہے،میں ہر جگہ پر ٹائن بی کو نوٹ کرتا رہا لیکن مجھے کہیں اس کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر نہیں آئے، مختلف علاقوں سے ہوتے ہوے جب ہمارا قافلہ بلوچستان کے شہر فورٹ سنڈیمن پہنچا تو ٹائن بی نے مقامی لوگوں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ،ٹائن بی کی خواہش پر ایک پولیٹیکل ایجنٹ سے اس کی ملاقات کروائی گئی ،ٹائن بی نے چھوٹتے ہی پوچھا”کیا یہاں لڑکیوں کا کو ئی اسکول ہے“مقامی افراد نے تصدیق کی تو ٹائن بی نے کہا”کیا میں یہ اسکول وزٹ کرسکتا ہوں “جواب ملا ”کیوں نہیں “۔

ڈاکٹر ٹائن بی اگلے دن لڑکیوں کے اسکول پہنچ گئے ،ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ٹائن بی نے پوچھا ”کیا یہاں خالص پختون نسل کی بچیاں بھی زیر تعلیم ہیں “،جواب دیا گیا ”جی ہاں “وہ صحافی لکھتے ہیں کہ میں نے دیکھا ٹائن بی کا چہرہ ایک دم کھل اٹھا ،سارا اضطراب اور پریشانی جاتی رہی اور ٹائن بی نے واپسی کا سفر بڑی خوشی سے طے کیا ۔ شاید آپ ٹائن بی کی خوشی کی وجہ نہ سمجھ پائے ہوں ، ایک خالص پختون بچی کا بلوچستان کے دور دراز علاقے میں برطانوی نظا م تعلیم کے تحت علم حاصل کرنا ،انگریزی تہذیب و ثقافت کے سائے میں پروان چڑھنا اور انگریز کی ذہنی غلامی کے لیئے تیار ہو نا ایک عیسائی مفکر کے لیئے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی تھی ۔


کسی ملک ،قوم اور تہذیب کی ترقی میں علم بنیادی کردار اد اکرتا ہے اور آج تک جتنی بھی تہذیبیں اور سلطنتیں پروان چڑھی ہیں سب نے علم کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور سب نے علم کی گود میں پرورش پائی ۔ یونانی ،رومی اور فارسی تہذیبوں نے صرف علم کی بنیاد پر حکمرانی کی تھی وہ الگ بات ہے کہ یونانی تہذیب کے علاوہ کسی دوسری تہذیب کے علوم ہم تک نہیں پہنچ پائے ۔

آج مغربی تہذیب اگر اپنے عروج پر ہے تو اس میں بھی بنیادی کر دار علم کا ہے ، آج ہماری یونیورسٹیوں میں جتنے بھی جدید علوم پڑھائے جا رہے ہیں سب مغربی تہذیب کی دین ہے اور ہم نہ چاہتے ہو ئے بھی انہیں پڑھنے پر مجبور ہیں ۔صرف علم کی بات نہیں آپ دنیا کی گزشتہ دو سو سالہ تاریخ کا مطالعہ کر لیں ،آپ گزشتہ دو سو سالوں میں وضع کیئے جانے والے علوم ، ایجادات، سائنس ، تاریخ ، تہذیب ، ثقافت اور طرز زندگی کا موازنہ کر لیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔

مغربی تہذیب کی برائیاں اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے گزشتہ دو سو سالوں میں دنیا کو کیا دیا ؟میں روز مرہ استعمال میں آنے والی چند اشیا ء کی مثال دیتا ہو ں،آپ صرف موبائل فون کو لے لیں ، موبائل فون بذات خود اور اس کے تما م اجزاء مثلا مائیکرو فون ، اسپیکر ،کی بورڈ ،ڈسپلے، فلیش،سم ،میموری کارڈ ،بیٹری،چارجر،چپ اور ہینڈفری یہ سب نام انگریزی میں ہیں ،کیوں ؟کیوں کہ یہ ایجاد ان کی ہے تو نام بھی انہی کی زبان میں ہو ں گے۔

آپ مائیکرو فون کو لے لیں ، وہی مائیکرو فون جس کے بغیر ہماری مساجد میں اذان اور قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی ، مائیکرو فون بذات خود اور اس کے تما م اجزاء مثلا کنڈنسر،سائیڈ ویو،بیک پلیٹ،ساوٴنڈ ،ریبن،میگنٹ اور ڈایا گرام یہ سب نام بھی انگریزی میں ہیں ،کیوں ؟ جواب آپ کو معلوم ہو گا۔آپ آج کی سب سے ذیادہ اہم ایجاد کمپیوٹر کو لے لیں ، کمپیوٹر بذات خود اور اس کے تمام اجزاء مثلا سی پی یو،مانیٹر،ماوٴس،کی بورڈ، مدر بورڈ، پاور سپلائی،ونڈو،سوفٹ ویئر اورہارڈ ویئریہ سب نام بھی انگریزی میں ہیں کیوں ؟ جواب آپ کو معلوم ہو گا۔

آپ کیمرے کو لے لیں ، آج کا دور میڈیا کا دور ہے اور کیمرے کے بنا میڈیا اندھا اور بہراہے ، کیمرہ بذات خود اور اس کے تمام اجزاء مثلا لینز،باڈی، میموری کارڈ، ایل سی ڈی اسکرین، فلیش، ٹرائی پوڈ، زوم لینز، لینز کور ، کنٹرول بٹن ،ڈسپلے کنٹرول ،پکچر ویواور شٹر بٹن یہ سب نام بھی انگریزی میں ہیں ، کیوں ؟ جواب بتانے کی ضرورت نہیں ۔ موجودہ زمانے کی ساری ترقی ٹرانسپورٹ کے تیز ترین ذرائع پر منحصر ہے ، آپ سب سے چھوٹی گا ڑی کار کو دیکھ لیں ، کار بذات خود اور اس کے تمام اجزء مثلا ، ایکسیلریٹر،بریک پیڈل، کلچ پیڈل ، فیول گیج ، گیئر سٹک ،ہینڈ بریک ، سپیڈو میٹر، سٹیئرنگ ویل ، بیٹری، بریکس، کلچ، انجن، گیئر بوکس، ہیڈ لائٹ،انڈیکیٹر، بوٹ، بمپر، ونڈ اسکرین، ایئر کنڈیشن ،نمبر پلیٹ، سیٹ بیلٹ اور ویل یہ سب نام بھی انگریزی میں ہیں ، کیوں ؟ جواب شاید مشکل نہیں ۔

بات صرف اتنی ہوتی تو قابل برداشت تھی لیکن المیہ یہ ہے کہ یہ تمام الفاظ ہماری تہذیب وثقافت کا حصہ بن چکے ہیں اورہم چاہتے ہوئے بھی انہیں اپنی تہذیب وثقافت سے نہیں نکال سکتے ۔ اور الفظ محض الفاظ نہیں ہوتے یہ اپنے ساتھ پوری تہذیب اور ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم ممالک میں بولی جانے والی زبانیں خواہ وہ اردوہو ، یا عربی ،فارسی، ترکی،بنگالی،پشتو یا کو ئی اور یہ پچیس فیصد انگریزی میں بدل چکی ہیں ،کیوں ؟ جواب آپ کو معلوم ہے ۔

آ ج ساری دنیا کا نظام مغربی تہذیب کے تحت چل رہا ہے کیوں ؟ کیوں کہ انہوں نے علم کے میدان میں محنت کی ہے ،انہوں نے دنیا کو علم دیا ہے ، نئی نئی ایجادات دی ہیں ، دنیا کو زندگی کی جدید سہولتوں سے آراستہ کیا ، سر درد سے لے کر ہارٹ اٹیک تک کی دوا دی ہے ، گھنٹو کا سفر منٹو میں طے کرنے کے لیئے ٹرانسپورٹ کے جدید ذرائع دیئے ہیں ، ہزاروں میل دور بیٹھے افراد سے بات کرنے کے لیئے اسکائپ اور موبائل دیا ہے ، گھر بیٹھے دنیا جہاں کی خبریں سننے کے لیئے کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور ٹی وی دیا ہے ، دنیا کو نئے علوم سے روشناس کرایا ہے ، سائنسی علوم کی نئی شاخیں قائم کی ہیں اور ہمارے آباوٴاجداد کا وہ علمی ورثہ جسے ہم نے چھوڑ دیا تھا اس کو انہوں نے آگے بڑھایا ہے تو ان کو حق ہے کہ وہ دنیا کو اپنی مرضی سے چلائیں ، وہ جمعے کی بجائے اتوار کو چھٹی کریں اور وہ دنیا میں نیا نظام ، نئے قوانین اور نئے آرڈر نافذ کریں ۔


میں احساس کمتری کا شکار ہوں اور نہ کسی اور کو اس احساس میں مبتلا کرنا چاہتا ہوں بلکہ یہ درد کی وہ ٹیسیں ہیں جو میری روح اور بدن میں اٹھتی رہتی ہیں اور میں پہروں تلک ا س درد کی شدت سے کراہتا رہتا ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :