بیچ دو

منگل 17 فروری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا پر(الیکٹرانک میڈیاپراس کا رنگ ہی جداہے) ایک اشتہاربڑے ہی تواتر سے چلایاجارہاہے جس میں پرانے چیزوں کو بیچنے یا خریدنے کی ترغیب دی جاتی ہے ،یہ اشتہاری کچھ مزاحیہ اورایسے انداز میں پیش کیاجاتاہے کہ دیکھنے والا خود بخود ہی دلچسپی لینے پرمجبورہوجاتاہے، اسی طرح کے اشتہار میں ایک بزرگ کو کہتے سناگیا ہے کہ فلاں جگہ ٹرپ کیلئے جانا ہے اوراس میں سے اتنے لاکھ کی کمی ہے کیاکریں،بیچنے خریدنے والے فوراًنازل ہوجاتے ہیں کہ یہ پرانا صوفہ اتنے کا ، یہ چیز اتنے کی․․․․․․․․پھر بھی کمی ہورہی ہے تو پھر آنٹی کس لئے ہیں۔

بزرگ حیران پریشان کیونکہ ان کی بیوی کے بیچنے کی بات ہورہی تھی۔ عقدہ کھلا کہ آنٹی کے گلے میں پرانا مگر کچھ قیمتی ہار بھی ہے۔

(جاری ہے)

دلچسپ بات یہ ہے یہ خریدنے ،بیچنے والے ہراشتہار میں نئے ہوتے ہیں اور پھران کے کسٹمر بھی الگ لگ۔
یہ اشتہار دیکھنے بعد ابتداً تو ہنسی آتی رہی لیکن جب پاکستان کے حالات دیکھے تو واقعی لگا کہ یہاں بھی بیچنے خریدنے کا سلسلہ جاری ہے ،ظاہر ہے کہ ایک بیچے گا دوسرا خریدے گا ۔

اب دیکھئے گذشتہ دور حکومت میں سٹیل ملز بیچنے کاارادہ کرنے والے اور تھے اورآج پی آئی اے کو بیچنے کی خواہش دوسروں کے ذہن میں ہے۔ یعنی عجیب سی ترکیب ہے کہ جو نقصان میں جائے اسے بیچ دو۔ماضی کی بات ہو یاحال کی ، کم ازکم کسی ترقی پذیر ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی،ہاں پاکستان میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ اپنوں کو نوازنے کیلئے جہاں کئی چھوٹے موٹے ”تحائف“ دئیے جاتے رہے وہاں ملکی سالمیت کیلئے اہم ترین مقام رکھنے والے اداروں کو بھی ”تحفہ“ کی شکل میں دینے کا”اعزاز“ بھی حاکمین وطن کو حاصل رہا۔


صاحبو! محکمہ ریلوے کسی زمانے میں منافع بخش نہ سہی لیکن اپنے وسائل اور اثاثوں کی وجہ سے اہمیت کاحامل رہا ہے لیکن صاحبان اقتدار کی غفلت ، سیاسی ،آمرانہ مداخلت ، من پسند تقرریوں، غلط فیصلوں کی وجہ سے آج اسے اس نہج پر پہنچادیاگیا ہے کہ اب انجن تک نہیں ملتے۔ ہمارے ایک دیرینہ تعلق دار جو محکمہ ریلوے کے اہم ترین شعبہ سے وابستہ رہے ۔

بتاتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ قبل ریلوے انجنوں کے ریڈی ایٹر چوری کا معاملہ درپیش رہا۔ یہ ریڈی ایٹر لاکھو ں مالیتی تھے ان صاحب کو اس معاملے کا انکوائری آفیسر مقرر کیاگیا تھا وہ جب ڈیزل ورکشاپ راولپنڈی پہنچے (اس مقام پر ریلوے انجنوں کی مرمت کی جاتی ہے ) انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک ریڈی ایٹر کتنے وزن کاہوتاہے ۔خیر انہو ں نے وہاں کام کرنے والے ملازمین سے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایک آدمی یا آٹھ دس آدمی ایک ریڈی ایٹر کو اٹھاسکتے ہیں ۔

جواب ملا کہ ریڈ ی ایٹرکو اٹھانے یاشفٹ کرنے کیلئے کرین استعمال کی جاتی ہے او راسے بڑے ٹرالروں میں لے جایاجاتاہے۔ انکوائری افسر نے سوال کیا کہ کرین کے ذریعے ایک ریڈی ایٹر اٹھاکر ٹرالر میں رکھنے کے مراحل کا کیا آس پاس کام کرنے والوں کو پتہ نہیں چلتا کیا؟؟ جواب ملا کیوں نہیں ،کیونکہ یہ مرحلہ کافی وقت لیتاہے “ چونکہ اس ورکشاپ سے ایک دو نہیں کئی ایک ریڈی ایٹر چوری ہوئے تھے اس لئے وہ صاحب انکوائری کرتے کرتے اصل جڑ تک پہنچنے ہی والے تھے کہ اسی دوران محکمہ کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ بھی شروع ہونے والی تھی۔

اس وقت کی ریلوے یونین کے عہدیداران نے انکوائری افسر کے خلاف ہڑتال ، احتجاج شروع کردی۔ معاملہ جب اس اعلیٰ سطحی میٹنگ میں لایاگیا تو اُس وقت کے ریلوے چیئرمین نے انکوائری افسر کو تضحیک آمیز انداز میں معاملے سے پیچھے ہٹنے اور انکوائری نہ کرنے کاحکم دیا۔ یہاں یہ بتاناضروری خیال کرتے ہیں کہ ایک ریڈی ایٹر کم ازکم چالیس سے پچاس لاکھ روپے یاشاید اس سے بھی زیادہ مالیت کا ہے۔

بہرحال یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ اس شتر بے مہار محکمہ کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اس کی کچھ شہادتیں آج کے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی دیتے نظرآتے ہیں۔ حالانکہ انہیں فل اینڈ فری ہینڈدیاجائے تو ماضی کے کئی ”کھابے“ کھل جائیں گے۔
اب آتے ہیں پی آئی اے کی طرف ، اس بدنام ترین محکمے کو بیچنے یانجکاری کی تیاریاں جاری ہیں۔ لیکن اگر ماضی کے حالات دیکھے جائیں تو طیاروں کی خریداری سے لیکر من پسند لوگوں کی بھرتی تک ،قاعدے قوانین کی دھجیاں اڑانے سے لیکر پائلٹوں ،ائر ہوسٹسز کی کارستانیوں تک ،سبھی کچھ پاکستان کی بدنامی کیلئے ناکافی ہے۔

پھر یہ کہ ائرہوسٹسوں یا پائلٹوں کی بیرون ممالک میں ہونیوالی غیر قانونی سرگرمیوں کی بابت کیا چھپا رہ گیا ہے۔ با ت یہاں تک محدود نہیں ، آج پی آئی اے اس نہج پر پہنچاہوا ہے کہ اس کے پاس اب بین الاقوامی معیار کے طیارے موجود نہیں، مسافروں کو سہولت تو درکنار ،ذلیل کرنے کیلئے کئی طرح بہانے تراشے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں بہت عرصہ سے جاری ہے۔


صاحبو! یہ سارے قصے فسانے اپنی جگہ ، لیکن ایک سوال بہرحال جواب طلب ہے کہ آخر مسلم لیگ ن کے دور میں ہی کیوں نجکاری کی بات کی جاتی ہے ۔زیادہ دور نہیں لے جاتے ،1988کے دور آمریت ختم ہونے کے بعد سے 2015تک مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق کو حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن موخرالذکر دونوں پارٹیوں کے ادوار میں کسی بھی محکمے کی نجکاری کی بات نہیں ہوئی لیکن مسلم لیگ ن کو انفرادیت حاصل ہے کہ خسارے کو پورا کرنے کیلئے ”بیچ دو “ کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔

حیران کن امر یہ بھی ہے کہ اس پالیسی میں یہ تک نہیں دیکھاجاتا کہ جتنی مالیت میں وہ پورے کاپورا محکمہ ،شعبہ بیچاجاتا ہے اس سے کئی سو گناززیادہ مالیت اس کے اثاثو ں کی ہوتی ہے۔ اب کہاجارہا ہے کہ پی آئی اے کوکوڑیوں کے بھاؤ نجکاری کی بھٹی میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے بیرون ملک ایک وی آئی پی ہوٹل (جس کی ملکیت پی آئی اے کے پاس ہے) کو بھی اسی بھاؤ میں بلکہ محکمہ سمیت بیچنے کی تیاری جاری ہے۔ دیکھنایہ ہے کہ کیا واقعی ”بیچ دو“ کی پالیسی سے ملک کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالادیاجاسکتاہے؟ اگر تو واقعی ایسی ہی بات ہے تو یہ نادر نسخہ امریکہ یا یورپ نہیں بلکہ بھارت ، سری لنکا یا کسی دوسرے ترقی پذیر ملک میں کیوں نہیں آزمایاجاتا؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :