خود احتسابی

اتوار 15 فروری 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

معاشرے میں اگر خرابی نظرآتی ہے تو اس کے زمہ دار ہم بھی ہیں اگر ہر آدمی خود کو ٹھیک کرنے کا تہیہ کر لے تو معاشرے کی وہ تمام خرابیاں دور ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے ہم سب مسائل کا شکار ہیں، کسی ملکی کی ذہنی حالت کا اندازہ لگانا تو وہاں کے نظام معاشرت ، تعلیم اور ٹریفک کے نظام کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے ، ہمارے ہاں کا تعلیمی نظام درستگی چاہتا ہے ہمیں ایک ایسے جدید تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو ہمیں ترقی کرتی دنیا کے ساتھ چلنے کے قابل بنا سکے تعلیم ہی سے ہمارا طرز معاشرت تبدیل ہو گا اور ہم قانون کی پاسداری کرتے نظر آئیں گے۔

اس وقت ہمارا معاشرہ ایک جنگلی معاشرے کی نظیر پیش کر تا نظرآ رہا ہے جس میں کسی اصول ، ضابطے اور قانون کی پابندی کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی مصیبت کا شکار ہے۔

(جاری ہے)


ہم اگر چاہیں تو اپنے رہنے کے لئے بہتر معاشرہ بنا سکتے ہیں صرف زاویہ نگاہ اور سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے،دیکھا گیا ہے کہ ہمارے جیسے معاشروں میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک ،انہیں حراساں کرنا عام اور معمولی واقعات ہیں بس سٹاپوں پر اوباش قسم کے لڑکے بس کے انتطار میں بیٹھی خواتین کو نازیبا الفاظ کے ساتھ ان کی موبائل سے تصویریں بنانے سے بھی باز نہیں آتے جبکہ دفاتر اور مارکیٹوں میں بھی ایسے ہی منظر دکھائی دیتے ہیں جبکہ اپنے سے کمتر ،کمزور اور غریب افراد اور بچوں کے ساتھ ناروا سلوک ہو رہا ہوتا ہے یہ رویہ کسی بھی معاشرے کے بیمار ذہن کا عکاس ہے لیکن اسی بیمار زہن میں کچھ لوگ اچھے کام کرتے بھی نظر آئیں گے ان کا کردار روک ٹوک یا بیان بازی نہیں بلکہ عملاً کچھ نہ کچھ کرتے دکھائی دیں گے ، میں خود جب بھی کسی پارک میں بچوں کے ساتھ جاتا ہوں تو لوگوں کی اکثریت کو کھانے پینے کے بعد بچا ہوا گند وہیں پھینکتے دیکھتا ہوں جسے دیکھ کر بہت تکلیف ہوتی ہے میں اکثر ان کے سامنے شاپر پکڑ کر اس گند کو اس میں ڈال کر ڈسٹ بن میں ڈال آتا ہوں جس کا مقصد لوگوں کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کے ساتھ ان کی اصلاح کرنے کے ساتھ اپنے بچوں کی بھی تربیت کرنا ہوتا ہے ہمارے اس طرح کے عمل کے بعد کئی لوگ اپنی اس طرح کی حرکتوں سے باز آجاتے ہیں ۔

اسی طرح خواتین کو تنگ کرنے والوں کو اگر احسن طریقے سے سمجھایا جائے یا روکا جائے تو کچھ نہ کچھ بہتری ہو سکتی ہے۔
جن قوموں کے افراد اپنے بچوں کو ٹریفک سنگلز اور قوانین کی پابندی کرنا سکھاتے اور خود کرتے ہیں، وہاں حادثات نے ہونے کے برابر ہیں۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس جگہ ٹریفک سنگنلز نہیں ہوتے وہاں عوام خود کار نظام کے تحت ون بائے ون کے اصول کو اپنا کر ٹریفک کی روانی کو برقرا رکھتے ہیں،، جو قوم قطار میں لگنا اپنی توہین اور ٹریفک اشاروں کی پابندی کرنا خلاف عقل قرار دیتی ہو وہاں اگر ہر روز ٹریفک حادثات میں درجنوں کے حساب سے لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو جاتے ہوں اور کوئی بھی بندہ ”بہت تیزی “ کے باوجود اپنے کام کی جگہ گھر یا دفتر نہ پہنچ پاتا ہو وہاں کسی نظام کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

جو قومیں صرف اپنے آج کے لئے زندہ اور مفاد عاجلہ کی اسیر ہوں مستقبل میں ان کا کسی چیز پر حق فائق نہیں رہتا ۔
اب یہی دیکھ لیں یہ جو ہر محلے کی نکڑ ،چوک چوراہوں پر نوجوان لڑکوں کا ہجوم ہوتا ہے کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ہماری نوجوان نسل ،بیکار ہوتی جارہی ہے،، نہ ان کے پاس کام کاج ہے اور نہ ہی یہ خود کچھ کرنا چاہتے ہیں ،،،ورنہ ان میں سے کتنے نوجوان پڑھے لکھے ہوں گے ،،،کیا یہ نوجوان اپنے ارد گرد ،گلی محلوں ،بازاروں میں ان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کر سکتے جو وسائل کی کمی اور غربت کی بنا پر تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔

۔ اگر یہ ،،،نکڑ گروپ“ اپنے ”قیمتی“ وقت میں سے تھوڑا سا ”فضول“ وقت ان بچوں کو تعلیم دلانے جو کسی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے پر خرچ کر سکیں تو یقین کیجیے جہالت اس ملک سے دم دبا کر بھاگ سکتی ہے۔
انقلاب لانے کے لئے کسی ”خونخوار یا بڑھک باز مذہبی و سیاسی“ لیڈر یا مبلغ کی ضروت نہیں۔کیونکہ ایک پر امن اور بہتر معاشرے کے قیام کے لئے چند ایسے مخلص انساں ہی کافی ہیں جو انسان ،انسانیت اور بنیادی قدروں سے محبت کرتے ہوں، پاکستان میں ایسا انقلاب ایک سلجھی ہوئی سول سوسائٹی لا سکتی ہے۔

۔ ہمیں ایسے گروپوں اور گروہوں کی ضرورت ہے جو اپنے علاقے کے چھوٹے چھوٹے مسائل خود حل کرنے کے لیے اپنا تھوڑا سا وقت نکال سکیں۔۔کسی علاقے میں اگر کسی مین ہول پر ڈھکن نہیں ہے،،،بجلی کی تاریں ٹوٹی ہوئی ہیں،،کوئی سڑک خراب ہے، کہیں پانی کھڑے ہونے کی بناپر تعفن پھیل رہا ہے،،گلیاں گندی اور کوڑئے سے اٹی پڑیں ہیں۔ ان کاموں کو کرنے کے لئے کسی کی اجازت اور واعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں۔

بس انقلاب یا تبدیلی کے جذبے کی ضرورت ہے ،،اس طرح کے کام ہم خود کر کے انقلاب کی مظبوط بنیاد رکھ سکتے ہیں۔۔
پاکستان میں اتنے زیادہ منظم گروہ ہیں سب مل کر اس ملک میں سے پلاسٹک بیگ جو آلودگی کی بنیادی وجہ ہیں کے خاتمے کا تہیہ کر کے ملک بھر میں صفائی مہم پر لگ جائیں تو کیا شہروں میں سیلابی پانی سے نقصان ہو سکتا ہے اور بیماریاں پھیل سکتی ہیں؟ بات صرف انسانی بھلائی کے کاموں میں خود کو شامل کرنے کی ہے ،ہم ہر کام حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں جبکہ اپنے گھر کا کوڑا حکومت کی جانب سے جگہ جگہ رکھے گئے کوڑئے دانوں میں نہیں ڈالتے اور بات کرتے ہیں تبدیلی یا انقلاب کی، انقلاب سوچ میں تبدیلی سے آتا ہے جسے ہم تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں۔


پوری دنیا میں رائج اصولوں میں یہ بات سر فہرست ہے کہ ملکی قوانین کی پابندی ہر شہری پر نہ صرف لازم ہے بلکہ اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو پورا معاشرہ خلاف ورزی کرنے والے کے اس عمل کو برا سمجھتا ہے ریاست کے سربراہ سے لیکر عام آدمی تک کو ملکی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی جرات نہیں ہوتی،،قانون کی حکمرانی دیکھنی ہو تو ان ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے جبکہ ،مسلم ممالک میں قانون کی پاسداری کرنے کے لئے بھی فتووں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ تو خدا کا فرمان ہے کہ وہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جیسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو، اس لئے خود احتسابی کے عمل کے زریعے ہم مثبت اور پائیدار تبدیلی لاسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :