کیجریوال کا دلی

اتوار 15 فروری 2015

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

راقم کو گذشتہ چند سالوں میں کئی بار بھارتی دارالحکومت نئی دہلی جانے کا موقع مِلا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کے دعویدار ملک جہاں آ ٓزادی کے بعد سے جمہوریت قائم ہے کے دارلحکومت کی حالت دیکھ کر ہر بار افسوس ہُوا۔ راقم کو جنوبی ایشیاء، مشرقِ بعید ، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے دو درجن سے زائد ممالک کے دارالحکومتوں میں جانے کے مواقع ملے مگر نئی دہلی جیسا گندہ اور بے ہنگم دارلحکومت اور کوئی نہیں دیکھا۔

شاید نیپا ل کا دارالخلافہ کھٹمنڈو گندگی اور آلودگی میں دہلی کا صحیح مقابل ہو۔ ڈبلیو ایچ او کی گذشتہ سال جاری کی گئی دنیا بھر کے سولہ سو شہروں کی جائزہ رپورٹ میں نئی دہلی کو دنیا کا سب سے آلودہ شہر قرا ر دیا گیا ہے۔ دہلی کی چھہتر (۷۶) فیصد آبادی کچی آبادیوں یا غیر پلان شدہ بے ہنگم علاقوں میں رہائش پذیر ہے ۔

(جاری ہے)

اِس شہر میں تین لاکھ سے زیادہ لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے اور جاگتے ہیں اور یہاں کے سرکاری ہسپتالوں کے آس پاس کے علاقے اور گلیاں سیکڑوں مریضوں اور اُن کے تیمار داروں کا ٹھکانہ ہیں۔

اپنی ہیت کے اعتبار سے یہ شہر منفرد ہے کہ اس کی سر حدیں دو صوبوں اتر پردیش اور ہریانہ سے ملتی ہیں۔ اتر پر دیش اور ہریانہ کے شہر غازی آباد، صاحب آباد، فرید آباد، نوئیڈا اور گڑگاوٴ وغیرہ دہلی کے مضافات اور سٹلائٹ ٹاوٴن شمار ہوتے ہیں۔ روزآنہ ہزاروں لوگ ان شہروں سے ملازمتوں ، کاروبار اور تعلیم کے لئے دہلی کا رُخ کرتے ہیں اور اسی طرح دہلی کے ہزاروں باسی بھی روزآنہ ملازمتوں اور کاروبار کے لئے ان علاقوں میں واقع صنعتوں اور کارخانوں کا رُخ کرتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ دہلی شہر میں صاف ستھرے علاقے بھی ہیں اور کئی حوالوں سے کافی ترقی بھی ہوئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سی این جی کے استعمال اور دہلی میٹرو کے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دہلی کا نیا ہوائی اڈہ دنیا کے کسی بھی جدید ائرپورٹ کا مقابلہ کرتا ہے۔مگر عام آدمی کے بہت سے مسائل جوں کے توں ہیں۔ سرکاری دفتروں میں کرپشن، گلی محلوں میں گندگی کے علاوہ ، گھروں میں پانی کی ناکافی یا عدم فراہمی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے مسائل کے ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بِلوں سے لوگ پریشان ہیں۔

گیس کی لوڈ شیڈنگ دہلی کا بڑا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ بھارت کے دیگر شہروں کی طرح دہلی کے شہری بھی گھروں میں بذریعہ پائپ لائن براہِ راست گیس سپلائی کی عیاشی سے محروم ہیں ، ہر رجسٹرڈ گھر انہ سبسیڈائزڈ ریٹ پر ماہانہ ایک سلنڈر فی گھر کے حساب سے مارکیٹ سے گیس کا سلنڈر خریدسکتا ہے ، اگر کوئی گھرانہ زیادہ گیس استعمال کرنا چاہے تو ڈبل سے بھی زیادہ قیمت ادا کرکے مارکیٹ ریٹ پر سلنڈر حاصل کر سکتا ہے۔

ویسے بھارت میں حکومتوں نے عوام میں زیادہ ”عیاشی “ کی عادتیں بھی نہیں ڈالیں۔ آج سے بیس بائیس سال پہلے جب پاکستان، فاضل بجلی ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں تھا اس وقت بھی انورٹر ( یو پی ایس) متمول بھارتیوں کی زندگی کا لازمی حِصّہ تھا۔ بھارتی آئین کے تحت دہلی بھارت کے سات وفاقی علاقوں میں سے ایک ہے۔بھارت کی آزادی کے بعد سے دہلی میں مختلف طرح کے نظام آزمائے جاتے رہے، کبھی تو اس شہر کو میونسپل کارپوریشن کے ذریعے چلایا گیا اور کبھی یہاں محدود اختیارات کی صوبائی حکومتوں سے ملتی جلتی مقامی حکومت قائم کی گئی۔

بھارتی آئین کے انسٹھویں ترمیمی ایکٹ مجریہ اینس سو اکیانوے کے تحت دہلی کے لئے موجودہ نظامِ حکومت وضع کیا گیا۔ اس نظام کے تحت ستر ارکان پر مشتمل یک ایوانی اسمبلی قائم کی گئی جو دہلی کی ریاستی حکومت (وزیر اعلیٰ ) کو منتخب کرتی ہے۔ بھارت کے دیگر صوبوں (ریاستوں) کے بر عکس دہلی کی حکومت کے اختیارات محدود ہیں۔ اس ریاست میں گورنر کے بر عکس لیفٹیننٹ گورنر وفاقی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔

پولیس جیسا اہم ادارہ بھی دہلی کی ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ دہلی کو مکمل صوبے (ریاست) کا درجہ دینے کا مطالبہ عام آدمی پارٹی کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھی الیکشن مہم کا حِصّہ تھا۔
میکینیکل انجینئر اروند کیجریوال نے ۲۰۰۶ء میں انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے جوائنٹ کمشنر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر کرپشن کے خلاف عوامی شعور کو بیدار کرنے کا کام شروع کیا۔

انّا ہزارے کی مہم کے دوران ایک اہم مذاکرات کار کی شہرت حاصل کی اور ۲۰۱۲ء میں عام آدمی پارٹی بناکر میدان سیاست میں قدم رکھ دیا۔ ۲۰۱۳ ء کے دہلی اسمبلی کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی نے اگرچہ اٹھائیس نشستیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی اکتیس نشستوں کے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی مگر اسمبلی بچانے کے لئے کانگریس کی بیرونی حمایت سے دہلی میں حکومت قائم کی۔

صرف انچاس دنوں بعد ہی اروند کیجریوال حکومت مستعفی ہوگئی کیونکہ اسمبلی میں واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے منشور کے مطابق مطلوبہ قانون سازی کرنے سے قاصر تھی۔ مبصرین کے خیال میں دہلی کے عوام نے اروند کیجریوال کے استعفی کو پسند نہ کیا اور نتیجتاً چند ماہ بعد ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی دہلی کی تمام نشستوں پر الیکشن ہار گئی۔

اروند کیجریوال نے عوام کے فیصلے کو کھلے دل سے قبول کیا۔ انہوں نے عوام سے معافی مانگی اور اپنے انچاس دنوں کے اقتدار کے دوران کی گئی غلطیاں نہ دُہرانے کا وعدہ کیا۔ عام آدمی پارٹی نے اپنے نظریات پر کِسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا۔ ا لیکشن جیتنے کے لئے نام نہاد الیکٹیبلز پر اپنی پارٹی کے دروازے چوپٹ نہیں کھولے۔ پارٹی کو وصول شدہ چندے کی ایک ایک پائی کا حساب رکھا۔

قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں رکھا اور وی آئی پی کلچر کو اپنے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیا۔پچھلی بار وزیر ِ اعلیٰ بننے کے بعد بھی اروند کیجریوال کی ترجیح فلیٹ میں رہنا تھا۔ نریندر مودی کے لاکھوں روپے والے ڈیزائنر سوٹوں کے برعکس جاہ و جلال سے بے نیاز اروند کیجریوال سر پر مفلر لپیٹے ، عام سے پینٹ شرٹ میں ملبوس اپنی مخصوص مسکراہٹ اور عاجزی کیساتھ الیکشن مہم چلاتے رہے۔

بڑی بڑی گاڑیوں کے لاوٴ لشکر کے بجائے اروند کیجریوال اپنی چھوٹی سے گاڑی میں گھومتے رہے۔عوام سے قریبی رابطہ رکھا اور شہربھر کے عوام سے انکی گلیوں ، محلوں میں پیدل چل کر ملتے رہے۔ بی جے پی نے دہلی کے الیکشن میں انتخابی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خوب پیسہ جھونکا اور ہر ہر فورم پر اروند کیجریوال کی تضحیک کرتی رہی۔ مگر جواب میں عام آدمی پارٹی نے کسی بھی قسم کے غیر اخلاقی ہتھکنڈوں اور بازاری زبان سے گریز کیا۔

نتیجہ سامنے تھا ، شہر کے تقریباً تمام علاقوں اور ہر مذہب، ذات اور طبقے نے عام آدمی پارٹی کو بھاری تعداد میں ووٹ دیئے اور اس نے ستر میں سے سڑسٹھ نشستیں جیت کر ریکارڈ فتح حاصل کی۔ عام آدمی پارٹی نے کل ڈالے گئے تقریباً نواسی لاکھ ووٹوں میں سے تقریباً انچاس لاکھ ووٹ (چوّن فیصد) حاصل کئے۔ عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر چار مسلمان بھی منتخب ہوئے۔

عمران حسین اور عاصم احمد خان نے یوسف ہارون اور شعیب اقبال جیسے دیرینہ کانگریسی ارکان کو شکست دی، جبکہ حاجی اشراق عرف بھورے بھائی نے کانگریسی رہنما چوہدری متین احمد کو شکست دی اور امانت اللہ خان نے کانگریس کے آصف محمد خان کو شکست دی۔ تاہم عام آدمی پارٹی کے حاجی یونس بی جے پی کے جگدیش پر دھان سے شکست کھا گئے۔ بی جے پی نے تقریباً انتیس لاکھ ووٹ (بتیس فیصد) حاصل کئے اور صرف تین سیٹیں جیتیں۔

کانگریس نے تقریباً نو لاکھ ووٹ (دس فیصد) حاصل کئے اور کوئی سیٹ نہ جیت سکی۔ بہوجن سماج پارٹی نے تقریباً سوا لاکھ ووٹ (ڈیڑھ فیصد) حاصل کئے اور کوئی سیٹ نہ جیت سکی۔ دیگر پارٹیوں اور آزاد امیدواروں نے ملا کر تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹ حاصل کئے جو کسی نشست میں بدلنے میں ناکام رہے۔ دہلی کے پینتیس ہزار نو سو چوبیس ووٹر اپنے گھروں سے تو نکلے مگر ان کو کوئی بھی امیدوار پسند نہ آیا اور انہوں نے نوٹا (Non of the above (Nota))) کا بٹن دبا کر اپنی ناپسنددیدگی کا اظہار کیا۔
اس سوال کا جواب اب شاید ملنے والا ہے کہ کیا بھارت کا عام آدمی اقتدار میں آکر اپنی حکومتوں کو عام آدمیوں کی حکومتیں اور شہروں کو عام آدمیوں کا دوست بنانے کا اہل ہے یا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :