دو معافی نامے

اتوار 15 فروری 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

بظاہر الطاف حسین کے معافی مانگ لینے سے سیاسی درجہ حرارت میں کسی نہ کسی حد تک کمی ضرور ہوئی ہے لیکن ابھی یہ کہنا محال ہے کہ حالات مکمل طور پر نارمل ہو گئے ہیں۔ کیوں کہ جس طرح کے الفاظ دونوں طرف سے استعمال کیے گئے ہیں۔ ان کا اثر ختم ہونے میں کچھ وقت تو ضرور لگے گا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں سیاستدان الزام تراشی یا لعن طعن کرتے وقت یہ بات بالکل ذہن سے نکال دیتے ہیں کہ انہیں سیاسی میز پر شاید کسی دن دوبارہ بھی اکٹھے ہو کر بیٹھنا ہے۔

اور یہ بات ذہن سے نکالنے کی وجہ سے ہی معاملات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ صرف ایک چنگاری شعلہ بھڑکا سکتی ہے۔
الطاف حسین صاحب نے دو دنوں میں دو معافی نامے جمع کروائے۔ ایسا نہیں کہ یہ معافی نامے تحریری شکل میں جمع کروائے گئے بلکہ یہ دونوں معافی نامے عوام کی عدالت میں جمع کروائے گئے۔

(جاری ہے)

یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ الطاف حسین کراچی اور حیدر آباد میں ایک ایسا اثرو رسوخ رکھتے ہیں جو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔

پچھلے کچھ عرصے سے ایم کیو ایم پاکستان کے باقی حصوں میں بھی اپنا وجود قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی پارٹی نے کچھ نہ کچھ اثر قائم کیا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایم کیو ایم اپنے اوپر لگی علاقائی یا صوبائی جماعت کی چھاپ اتارنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے لیکن ان کے راہنما جس طرح کی تقاریر کرتے ہیں اور جس طرح کے الفاظ اپنی تقاریر میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ارشاد فرما دیتے ہیں وہ لب و لہجہ ان کے قومی جماعت بننے میں حائل ہو جاتا ہے۔


ایم کیو ایم نے پہلی معافی سیکیورٹی اداروں سے مانگی ہے اور کہا ہے کہ اگر ان کی کسی بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو وہ معافی مانگتے ہیں۔ یہ معافی مانگنے کی نوبت بھی اسی لیے آئی کہ الطاف بھائی کو خود محسوس ہو گیا تھا کہ دل آزاری کافی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اور اس کا ردعمل یقینا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔اکثر الطاف بھائی آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی رینجرز سندھ پر تنقید سے نہیں چونکتے۔

اسی لیے انہوں نے بہتر سمجھا کہ معافی مانگ کر یا معذرت کر کے معاملات کو مزید الجھانے کے بجائے سلجھایا جائے۔ اور دانشمندانہ فیصلہ بھی یہی تھا۔ صحافت کا ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کے ناطے جہاں تک سمجھ پایا ہوں وہ یہی ہے کہ درجہ حرارت چیک کیا گیا اور جب محسوس کیا گیا کہ درجہ حرارت واقعی زیادہ ہو گیا ہے تو معذرت کر لی گئی۔
پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پچھلے کچھ عرصے سے آمنے سامنے ہیں۔

اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی JITرپورٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے اس رپورٹ کی بنیاد پر ایم کیو ایم پر شدید تنقید کی ۔ اس تنقید کے جواب میں ایم کیو ایم نے بھی تحریک انصاف کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ حیران کن طور پر ایم کیو ایم نے جماعت اسلامی کے خلاف اس طرح سے بات نہیں کی جس طرح جماعت اسلامی نے ان پر تنقید کی ۔

بعض معاملات میں تو جماعت اسلامی نے تحریک انصاف سے دو قدم آگے بڑھ کر تنقید کی۔ لیکن یہ گتھی سلجھ نہیں پا رہی کہ ان پر جوابی وار اتنا تگڑا کیوں نہیں کیا گیا جتنا تحریک انصاف پر کیا گیا؟
تنقیدی نشتر چلانے میں ایم کیو ایم کے قائد پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کر گئے جن پہ پاکستان تحریک انصاف نے بطور پارٹی احتجاج کیا۔

لیکن سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر سوچا جائے تو وہ الفاظ کسی بھی طرح سے ایک سیاسی پارٹی کے قائد کو زیب نہیں دیتے تھے۔ اور پارٹی بھی وہ جس کی تنظیم کے بارے میں مثالیں دی جاتی ہیں۔ ایم کیوایم پاکستان میں اپنے نظم و ضبط کے حوالے سے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ یہ جماعت اسلامی کے بعد واحد پارٹی ہے جو نظم و ضبط کی مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی راہنما اور دیگر خواتین کارکنان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر الطاف حسین نے کاشف عباسی کے پروگرام میں براہ راست نام لے کر معافی مانگ لی۔ اختلافات اپنی جگہ لیکن ایم کیو ایم کے قائدنے معافی مانگ کراپنا سیاسی قد یقینا بڑھا لیا ہے۔ معافی مانگنا ہرگز کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ غلطی کا احساس ہو جانا انسانیت کی دلیل ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ الطاف حسین صاحب نے معافی مانگ کر باقی سیاستدانون کے لیے ایک مثال ضرور قائم کر دی ہے۔ اس معافی پر تحریک انصاف کا جوابی ردعمل بھی مجموعی طور پر مثبت ہی رہا۔ پہلا معافی نامہ عجلت میں دیے گئے ریمارکس کا شاخسانہ تھا جب کہ دوسرا معافی نامہ تلخیاں کم کرنے کے لیے تھا۔ اور دونوں معافی ناموں سے الطاف بھائی کا سیاسی قد کم ہونے کے بجائے بڑھا ہے۔


سیاست کرنا ہرگز بھی ایسا فعل نہیں جس پر شرمندگی ہو لیکن سیاست میں کیچڑ اچھالنا کسی بھی سطح پر توصیف کے قابل نہیں ٹھہر سکتا۔سیاست صرف ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کا ہی نام نہیں ہے ۔ بلکہ سیاست تعمیری عملی اقدامات سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا نام ہے۔ اب جیسے 12 مئی سانحے کا ملزم رینجرز کی تحویل میں ہے تو ایم کیو ایم کو چاہیے کہ جرائم پیشہ عناصر سے مکمل قطع تعلق کرے تا کہ کسی کو بات کا موقع ہی نہ مل سکے۔

اسی طرح تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیاں اگر بنیادی اخلاقی تقاضوں پر عمل پیرا ہوں تو کسی کی ذات پر تنقید کے بجائے سیاسی کمزوریوں و ناکامیوں کوتعمیری سیاست کی بنیاد بنائیں۔ جو سیاسی پارٹی بھی اخلاقی بنیادوں پر قائم رہے گی وہ عوامی طاقت بھی حاصل کرے گی ۔ سیاست سے ذاتیات کو نکال دیں تو شاید اس ملک کی قسمت سنور سکے۔ خاندانوں پر کیچڑ اچھالنے سے بہتر ہے کہ عملی اقدامات سے اپنا آپ ثابت کریں۔ چاہے الطاف حسین ہوں یا عمران خان دونوں پاکستانی ہیں اور دونوں سے لوگ محبت کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے راہنما ہی بازاری زبان استعمال کرنے لگیں گے تو وہ دن ہرگز دور نہیں ہوں گے جب محبت کی جگہ نفرت دلوں میں گھر کر لے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :