بے چین سیاسی روحیں

جمعہ 13 فروری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اپنے بھائی کی بھی سمجھ نہیں آتی ،لگتا ہی نہیں کہ وہ غصے میں ہیں یا پھرمذاق کررہے ہیں ، بعض لوگوں کاخیال ہے کہ بھائی کو غصہ نہیں آتا البتہ وہ لوگوں کامذاق اڑاتے ہیں ،یوں بھی مذاق کرنا اورمذاق اڑانے میں بڑا ہی فرق ہے ، یہ فرق شاید بھائی کو پتہ نہیں ہے ورنہ وہ مذاق اڑاتے اڑاتے خود مذاق نہ بن جاتے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی بے چین سیاست میں بھائی منفرد اہمیت اور سیاسی انفرادیت کے حامل ہیں کہ باہر بیٹھ کر بھی وہ جب چاہیں سڑک ،کاروبار ،ٹریفک یعنی ہرچلتی چیزکوبند کرادیں۔

یعنی باہربیٹھے ہوئے ہونے کے باوجود ان کا ”سکہ “ چلتا ہے۔ بس بھائی کے ایک ٹیلیفون کال پر پورا کراچی بند، یار لوگوں نے کوشش کی تو کہ ”کراچی “ کے بعد لاہوراوردوسرے بڑے شہروں میں ایسا ہی ”سیاسی کلچر“ لایاجائے مگرکہاں حضور بات ”تانگے کی سواریوں“ سے آگے نہیں بڑھ پائی ۔

(جاری ہے)

اللہ بھلا کرے بھائی کا، وہ کرخت،سخت مزاج ،لفٹنرو قسم کے سیاسی ماحول میں تازہ ہواتو نہیں خیر مچلتی ہوئی ہوا کے جھونکے ثابت ہوتے ہیں، بھائی واحد سیاسی شخصیت ہیں جنہیں گاناآتا ہے یہ الگ بات کہ گانا اور اچھا گانا ہرکسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔

سو بھائی اچھے برے کی تمیز کئے بنا بس آنکھیں بند کئے ”گاتے“ ہی چلے جاتے ہیں اور سننے والے بھی سنے بغیر بس آنکھیں اورکان بندکرکے ”سردھنتے“ نظرآتے ہیں۔ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ بھائی سیاست کے ولی ہیں، کسی نے اس عجیب منطق کی وجہ پوچھ لی تو جواب ملا کہ ”جب سیاسی شہدا ہوسکتے ہیں تو سیاسی ولی کیوں نہیں ہوسکتا“ اب ولی کے معنی تو ”دوست “ کے بنتے ہیں اس اعتبار سے بھائی بھی ”سیاست کے دوست ہوگئے “ یاپھر بعض دوست نمادشمنوں کاخیال ہے کہ بھائی سیاسی دوست ہیں، یعنی جب ضرور ت پڑی دوستی کرلی اورجب جی بھرگیاتو پھر ”کٹی“۔

یقین کریں جب وہ صاحب لفظ ”کٹی“ اداکررہے تھے تو ہمیں یوں لگا کہ بھائی اورچھوٹے سے بچے میں کوئی فرق ہی نہیں ہے جو بڑی بڑی باتوں کی پرواہ نہیں کرتاالبتہ چھوٹی چھوٹی باتوں پرروٹھ جاتا ہے۔ اب بھلا بتائیے کہ اگرکوئی 12مئی کے سانحہ کی بات کرے یا پھر کس کی مجال کہ وہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کاذکر چھیڑدے، بھائی کاموڈ فوراً سے پہلے ہی خراب ہوجاتا ہے اوروہ حسب عادت ”ٹیلی فونک خطاب“ کرکے مخالفین کی خوب ”چھترول “ کرتے ہیں ۔

مگر یہ بھی ان کی عادت بن چکی ہے کہ ” بنا سوچے کی گئی چھترول“ کے اگلے ہی روز وہ یا ان کے یاران وضاحتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ”بھائی کا مطلب یہ نہیں تھا، بھائی یہ نہیں ، وہ کہنا چاہتے تھے ، بھائی کی بات کا غلط مطلب نکال لیاگیاوہ دراصل ایسے کہناچاہتے تھے بس زبان پھسل گئی“ اب بھلا کون بھائی کے ان دوستوں سے الجھے کہ ہرکسی کی بات اورمزاج الگ ہے، ایک طرف تو ٹھہرے بھائی جو بے چین پاکستانی سیاست میں اپنی ”پھلجڑیوں“ کی وجہ سے مشہورہیں مگر ان کی پارٹی کے دوسرے ”دوست “ یا ”چھوٹے بھائی“ سیدھا ہی دھمکی آمیز انداز اختیارکرتے ہیں۔

مثلاً ایک صاحب نے کل ہی ارشاد فرمایا کہ ”عمران خان نے اپنی زبان بند نہ کی توآئندہ انہیں جلسہ تو کیا جلسی بھی نہیں کرنے دینگے“ اب بھلا بتائیے کہ عمران خان اگر زبان بند کرلے تو پھر وہ خطاب کیسے کریگا؟؟ جب خطا ب نہیں کرنا تو پھر جلسہ کی کیاضرورت ہے؟؟ایسے ہی بھائی قسم کے کچھ لوگوں نے ایک معصوم بچے کو اغواکرنے کے بعد تاوان کیلئے اس کے گھررابطہ کیا اسی دوران بچہ چیخ وپکارکررہاتھا ایک اغوا کرنیوالے نے غصیلے لہجے میں کہا ”چپ!اب اگربولے تو گولی ماردوں گا“ بچہ سہم گیا، اسی دوران اس کے گھر والوں سے رابطہ بھی ہوگیااغواکرنیوالوں نے لاکھ چاہا کہ گھروالوں کو بچے کی آواز سنواکر بلیک میل کرکے رقم اینٹھی جائے مگر بچہ تھا کہ ٹس سے مس نہیں ہورہاتھا ، بالآخر چیخ چیخ کر گولی مارنے کی دھمکی دینے والے نے ہاتھ جوڑکر کہا ”میرے باپ صرف ایک ہی لفظ بول دے“ بچے نے بڑی ہی معصومیت سے جواب دیا ” انکل !آپ ہی نے تو منع کیا اب ایک بھی لفظ منہ سے نکلا تو گولی ماردوں گا“ اب اغواکنندگان سوائے سرپیٹنے کے کیا کرسکتے تھے۔


سو ایسا ہی حال بھائی کے ”چھوٹے بھائیوں “ کا ہے شاید اسی لئے تو کہاگیا ہے کہ ”بڑے میاں تو بڑے میاں،چھوٹے میاں سبحان اللہ “ یعنی یہ چھوٹے بھائی تو بھائی سے بھی دوہاتھ آگے ،مگر تخصیص نہیں کی جاسکتی کہ چھوٹے اپنی زبان بول رہے ہیں یاپھربھائی نے جو ”‘سکرپٹ “ رٹایا ہے وہ بولاجارہاہے
صاحبو! ہوسکتا ہے کہ ہمارے ”گستاخانہ “جملوں پر بھائی یاان کے ”چھوٹے بھائی “ اچھل کو دکرتے ہوئے چیخ وپکارکرنا شروع کردیں ” ہم نہیں کھیلتے ،ہم نہیں کھیلتے “ جیسا کہ سندھ حکومت سے ” ہم نہیں کھیلتے ، یہ بے ایمانی ہے“ قسم کی بچگانہ نعرے بلندکرتے ہوئے علیحدگی اختیارکی گئی ، ڈر ہے کہ کہیں ماضی کی طرح ”کراچی کو الگ صوبہ بناؤ“ قسم کامطالبہ ہی سامنے نہ آجائے ۔

یوں بھی کراچی المعروف ”مہاجر صوبہ“ بھائی لوگوں کا پرانا مطالبہ چلاآرہا ہے مگربھائی کی جماعت کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے اس مطالبہ کو ”گھاس“ تک نہیں ڈالی اس لئے یہ مطالبہ اب کونوں کھدروں میں پڑا دکھائی دیتا ہے۔
سنا ہے کہ بھائی مذاق کرنے کے عادی ہیں اورمزاح کے شائق بھی ،یہ بھی سنا ہے کہ جب نجی ٹی وی چینلز پر ان کی نقل اتاری جاتی تو پھر مزاح کا جواب اس طرح سے اور”مذاق“ سے دیتے ہیں کہ بیچاروں کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔

یہ الگ بات کہ پھر”چھوٹکڑے“ میدان میں آکر چینل بندکرنے کی بھی دھمکی دیتے ہیں لیکن قسم لے لیں جو کبھی بھائی کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی ہو، بس ہرکام ہی مسکراتے مسکراتے کرڈالتے ہیں۔ حکومت کو اس طرح انداز میں دھمکاتے ہیں جیسا کہ لوری سنارہے ہوں۔ یہ تو عقدہ اس وقت کھلتاہے جب وہ پیار بھری لوری ”خون آلود “ ہوجاتی ہے۔
صاحبو! ہم تو سوچاتھا کہ کالم کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ملکی سیاست کے مزید بے چین کرداروں کے حوالے سے کچھ لکھیں گے مگر بھائی کے ”اوصاف حمیدہ“ ہی ایسے ہیں پورا کالم اس کی نذرہوگیا۔

سو باقی بے چین سیاسی روحوں کے حوالے سے آئندہ پھر کبھی سہی ،ہوسکتا ہے کہ بھائی لوگوں کے بارے میں لکھنے کے بعد اتنی ”جسارت “ کی اجازت ہی نہ مل سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :