مجھے ابھی جینا ہے

پیر 9 فروری 2015

Sabookh Syed

سبوخ سید

20کروڑ روپے کے بھتے کے لئے 260 افراد کو زندہ جلا دیا گیا اور اپنی سوچ مسلط کرنے کے لیے 140 بچوں کو یرغمال بنا کر نیزوں کی انیوں پر جھلا دیا گیا ۔140بچو?ں کے بے غیرت قاتلوں میں اتنی غیرت تو تھی کہ انہوں نے علی الاعلان اپنی حرامزدگی کا ارتکاب کرنے کے بعد جرم کا اقرار کیا ۔لیکن ان 260 بے گناہ شہریوں کا قاتل اتنا سفاک اور درندہ ہیں کہ زندہ جلانے کے بعد پوچھتے ہے کہ انہیں کس نے جلا ڈالا ہے ۔


140بچوں کے قتل کے بعد چینلز کے لوگو سیاہ ہو گئے تھے ۔ ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا تھا دھرنے ختم اور اس ظلم کے خلاف کئی دھرنے شروع ہو گئے تھے۔
لیکن 260افراد کے جلنے کے بعد نہ کراچی میں کوئی ہڑتال ہوئی اور نہ ہی ملک کے کسی مقام پر دھرنا دیا گیا ۔
140معصوم بچوں کے قتل عام کے بعد پوری قوم متحد ہو گئی تھی کہ دہشت گردی اور فرقہ وارانہ ماحول کی پرورش کرنے والے تمام مراکز بند کئے جائیں ۔

(جاری ہے)

لیکن 260بے گناہ مزدور شہریوں کو زندہ جلانے والوں کے خلاف ہر زبان خاموش ہے کیونکہ قاتلوں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے ۔
140 بچوں کے قتل پر ہم نے سوگ منایا ،
موم بتیاں جلائیں ،
ہمارے دل چھلنی ہو گئے ،
ہمارے جذبات مجروح ہو گئے ۔
ہمارا احساس قتل ہو گیا ۔
ہمارا تن بدن لہو لہو گیا ۔
ہم دہکتی آگ کے انگاروں پر لوٹنے لگے ۔
ہماری آنکھوں میں آنسوؤں کا سونامی آگیا ۔


ہم الم رسیدہ ،جگر دریدہ ، دل گرفتہ اور گریباں چاک ہو گئے ۔
ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئیں اور دن کا سکون چھن گیا ۔
ننھے منے بچوں کو دیکھتے کو دل خون کے آنسو روتا تھا ۔
کہیں قرار نہیں مل رہا تھا ۔
لیکن260معصوم شہریوں کو زندہ جلا دینے پر ہم کچھ نہ کہہ سکے ۔
140بچوں کے قاتلوں کے خلاف ہماری سول سو سائٹی بہت زیادہ متحرک ہو ئی تھی ۔

ہم میڈیا والوں نے بھی اس ظلم کے خلاف خوب احتجاج کیا تھا ۔ ہمارے اس احتجاج کی برکت تھی کہ ملک بھر میں مذہبی اجتماعات میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگ گئی ۔ دہشت گر دوں کو پھانسیاں لگنا شروع ہو گئیں تھیں ، ہمیں برسوں بعد اپنی ریاست کے ہونے کا یقین آ رہا تھا،
لیکن 260 شہریوں کو زندہ جلانے والوں نے اپنے دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کو پھانسیوں کے پھندوں سے بچا لیا ۔

انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر ہمارے دہشت گردوں کو پھانسی دی گئی تو پھر یہ ریاست نہیں بچے گی ۔ہماری سیاسی ،مذہبی اور عسکری قیادت نے ریاست کو بچانے کے لیے دہشت گردوں کی سوچ کے سامنے سرنڈر کر دیا اور الحمد اللہ ریاست کو بچا لیا گیا ۔
140بچوں کے قتل کی مذمت نہ کرنے پر مولانا عبد العزیز کے خلاف کراچی کی ایک نامعلوم سیاسی جماعت نے لال مسجد کے باہر احتجاجی دھرنے دیے اور ہم نے ان دھرنا دینے والوں کو سیلوٹ بھی کیا
لیکن260معصوم شہریوں کو زندہ جلانے والوں کے خلاف ہماری اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ نام لیکر خبر چلا سکیں ۔

نہ ہی ہماری غیرت مند ، دلیر ، بہادر اور نڈر سول سائٹی کراچی میں تھوڑی دیر کے لیے قاتلوں کے اڈے پر دھرنا دے سکی ،شاید فنڈ اور ایجنڈا اس کام کے لیے نہیں ہے ۔
جاگتے جاگتے رات گذر گئی اور صبح نکل آئی ،
دوپہر ہو گئی ،سوچتے سوچتے سر پھٹ رہا ہے ۔
میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ
140بھی میرے ہی بچے تھے اور کہنے کو یہ 260 بھی میرے ہی ہمزاد اور بھائی تھے ۔

لیکن اظہار جذبات میں اتنا فرق کیوں ہے ؟
میں شب بھر اپنے دماغ سے پوچھتا رہا اور میرا دماغ میرے ذات کے خوف کو بڑی خوبصورتی دلیلیں تراش کر دیتا رہا ۔
میں نے اس تضاد کو اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش کیا ۔
ضمیر نے مجھے جھنجوڑتے ہوئے کہا کہ
تم منافق ہو اور منافقوں کی پہچان یہی ہوتی ہے ۔
تم ان پر کیوں ماتم کر تے بھلا ؟
کیوں کرتے ؟
کیونکہ
وہ شیعہ تھے نہ سنی
وہ بریلوی تھے نہ دیوبندی
وہ مسلم لیگ ن ، ،اے این پی ،ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی ،جے یو آئی سپاہ صحابہ ،مجلس وحدت مسلمین یا شیعہ علماء کونسل کے تھوڑے ہی تھے ۔


وہ ایران اور سعودی عرب کے ٹکڑوں پر تھوڑا ہی پلتے تھے ۔
میرے ضمیر نے مجھے کہا کہ
140کے قاتل بھی تم ہو اور 260 افراد بھی تم نے ہی زندہ جلائے ہیں ۔
تمھاری خاموشی تمھاری مجرمانہ طبیعت اور تربیت کی عکاس ہے ۔
کسی اچھی آغوش میں تربیت پاتے تو چپ نہ رہتے ۔
تم صرف اس دن کا انتظار کرو
جب تمھاری ماں ، بہن ،بیوی ،بیٹی اور باپ ،بھائی ، بیٹا اس آگ میں جلے ۔


جن کے ضمیر مر جاتے ہیں ،
جو اپنے احساسات پر مفاد کا ناگ بٹھا کر شک کی بنیاد پر بھی ڈسنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ان پر خدا کی ،فرشتوں کی ،انسانوں کی اور جمیع مخلوقات کی لعنت ہو تی ہے ۔
اور تم ایک لعنتی ہو اور میں کسی لعنتی کو انسان نہیں کہہ سکتا ۔
تم سیاست کے روپ میں آؤ یا مذہب کی دکان سجاؤ ۔
تمھارا ہر روپ منحوس اور ہر چہرہ مردود ہے ۔
140معصوم بچوں کے قاتلوں کے خلاف آپریشن کی ہم مکمل حمایت کر تے ہیں،
مجھے بے غیرتی کا جام پینا ہے ۔
مجھے ابھی جینا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :