اک آگ بھڑکنے والی ہے ۔ قسط نمبر1

پیر 9 فروری 2015

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالکِ کائنات، خدائے برحق و لائق ِعبادت اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے جو ازل سے ابد تک میرے جدِّ امجد اور میرا کھلادشمن ٹھہرا۔
دورہ کسی بھی ملک کا کوئی بھی نمائندہ کسی بھی غرض سے کرے اس کے پیچھے مفاد پرستی کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے اور انہی معاملات کی غرض سے امریکی صدر بھی آج کل مختلف ممالک کے دوروں پر نکلے ہوئے ہیں جہاں وہ ایک جانب تو دہشت گردی کے جڑ سے خاتمہ کی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری جانب اسلحہ برائے فروخت کا بورڈ بھی لگائے بیٹھے ہیں جیسا کہ شاعرِ مشرق فرماتے ہیں۔
عشق قاتل سے مقتول سے ہمدردی بھی
باراک حسین اوبامہ نے اپنا دورئہ بھارت مختصر کرتے ہوئے تعزیتی غرض سے سعودی عرب کو رخ کیا، امریکی صدر کا سعودی عرب جانا میرے نزدیک حیران کن نہیں البتہ حیرت تو اس وقت ہوئی جب ( جون کیری وزیرِ خارجہ، کونڈو لیزا رائس سابق وزیرِ خارجہ، جون برینن ڈائریکٹر سی آئی ائے، جون میکلین سینیٹر، نینسی پیلوسی سابق اقلیتی رہنماء ایوان نمائندگان، سمیت ) 27 رکنی وفد کو سر زمین سعودیہ پر دیکھا گیا اور اسی وجہ سے میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ صاحبان تعزیت کی غرض سے سعودی عرب تشریف لائے ہیں یا نئے بادشاہ کو مبارکباد دینے کی غرض سے یا پھر وجوہات کچھ اور ہی ہیں؟؟؟
غورو فکر اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد مجھ ناقص العقل کو سمجھ آیا کہ ائے بندئہ خدا وجوہات تو کچھ اور ہی ہیں!!!
اک جانب مشرقِ وسطیٰ میں عراق، لیبیا اور شام دولخت ہونے کے بعد یمن بھی فسادات کی زد میں آ چکا ہے جو عنقریب شمالی یمن اور جنوبی یمن میں بٹ جائے گاتو دوسری جانب سعودی عرب کو اندرونی بغاوتوں کے اٹھنے کے ساتھ ساتھ بیرونی خطرات کا خدشہ بھی لاحق ہے۔

(جاری ہے)

لہذا اسی سلسلے میں سعودی فرمانروا شاہ سلیمان نے بادشاہت کا منصب سنبھالتے ہی حکومتی معاملات میں اگاڑ پچھاڑ شروع کر دی اور سعودی عرب کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیئے نئی حکمتِ عملی پر نہ صرف عمل درآمد کرنے کے احکامات جاری کر دیے بلکہ اسی سلسلے میں شاہ سلیمان نے سعودی مخالف ممالک ( جن میں ایران پیش پیش ہے ) سے بھی تعلقات بہتر بنانے کو اولین ترجیح دے رہے ہیں اور یقینا ایران سعودی دوستی کے فوراً بعد مسلم ممالک میں جاری فسادات فی الفور ختم ہو جائیں گے جو اسرائیل کے لیئے ناگوار ہی نہیں بلکہ دیرینہ خوابوں کی تعبیر چکنا چور ہو جانے کے مترادف بھی ہو گی کیونکہ دنیا بھر سے یہودی اسرائیل میں محض تفریح کی غرض سے جمع نہیں ہو رہے ہیں بلکہ اس آخری معرکہ کی غرض سے اکٹھے ہو رہے ہیں جس کی جیت اور سپر پاور ( Super Power ) کی حیثیت سے پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں اور اسی وجہ سے یہود اپنی کتاب ایزا خیل کی اس پیشنگوئی پر بیحد یقین رکھتے ہیں
” ائے صہیون کی بیٹی خوشی سے چلاؤ، ائے یروشلم کی بیٹی مسرت سے چیخو، دیکھو تمہارا بادشاہ آ رہا ہے۔ وہ عادل ہے اور گدھے پر سوار ہے۔ خچر یا گدھی کے بچے پر۔ میں یوفریم سے گاڑی کو اور یروشلم سے گھوڑے کو علیحدہ کر دوں گا۔ جنگ کے پر توڑ دیے جائیں گے اور اس کی حکمرانی سمندر اور دریا سے زمین تک ہو گی “ ( 10-9:9 )
اسی کتاب میں مزید پڑھنے کو ملتا ہے۔
” اس طرح اسرائیل کی ساری قوموں کو ساری دنیا سے جمع کرونگا، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں جا بسے ہوں، میں انہیں سر زمین میں ایک ہی شکل دے دوں گا ، اسرائیل کی پہاڑیوں پر جہاں ایک ہی بادشاہ ان پر حکمرانی کرے گا “ (22-37-21)
چونکہ یہودی اپنے ایجنڈے پر جوں کے توں عمل پیرا ہیں اور اسی غرض سے انہوں نے نہ صرف حکومتِ برطانیہ و امریکہ کو اپنے تابع کر رکھا ہے بلکہ مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ فسادات کو بھی ہوا دے رکھی ہے جس کے بارے میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا تھا کہ
” ایک ایسا فتنہ ظاہر ہو گا جو عربوں کو لپیٹ میں لے لے گا “ ( مسند احمد، ابی داؤد ، ترمذی، ابن ماجہ )
اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو عرب ممالک یقینا بہت بری طرح فرقہ وارانہ فسادات میں گھر چکے ہیں۔ جیسا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں ساڑھے آٹھ سو سال تک اسلامی حکمرانی کرنے والا ملک ترکی جو حالِ موجودہ میں اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور مڈل ایسٹ ممالک کے بہترین دوستوں میں شمار ہوتا ہے اور بلخصوص ایران پر بین الاقوامی پابندیاں لگنے کے باوجود بڑی جرت کے ساتھ ایران کی مدد کرنے اور مشرقِ وسطیٰ میں بغاوتوں کے جنم لینے کے باوجود خود کو خالصتاً جمہوری ملک پیش کرنے والا یہی ملک ترکی بھی فتنہ کی زد سے نہ بچ سکااور چند دن پہلے کردوں کی جانب سے اپنا علیحدہ ملک ” کردستان “ بنانے کی دھمکی موصول ہونے کے بعد ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ
” ہم کسی صورت ترکی کو دو لخت نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی کردستان بنانے کی اجازت دی جائے گی البتہ وقت آنے پر باغیوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا “
تو دوسری جانب صلاح الدین ایوبی کو اپنا ہیرو ماننے والے کردوں نے شام کے علاقے ” کوبانے “ پر موجود دولتِ اسلامیہ عراق و شام ( ISIS ) کو بدترین شکست دے کر نہ صرف کردستان کا جھنڈا گاڑ دیا بلکہ علاقہ پر قبضہ کر کے مکمل کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے۔ جہاں کردوں کی کامیابی سے دولتِ اسلامیہ کے حوصلے پست دکھائی دیتے ہیں وہیں حکومتِ ترکی کے لیئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔ موجودہ حالات بظاہر تو ترکی کے لیئے نازک ترین صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں اگر ترکی (ISIS) کی کردوں کے خلاف مدد کرتا ہے تو انہیں بین الاقوامی سطح پر تعلقات میں خرابی کا اندیشہ ہے اور اگر اختلافات بھلا کر کردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا فیصلہ کیا جائے تو ملک ٹوٹتا نظر آتا ہے۔
جبکہ دولتِ اسلامیہ عراق و شام ایک جانب تو کردوں کے ہاتھوں شکستِ عظیم کے بعد بہت بری گھائل ہو چکے ہیں تو دوسری جانب متنازع جماعت ہونے کے باعث عربوں سے حمائت بھی کھو بیٹھے ہیں۔ اگر امریکہ دولتِ اسلامیہ کو تباہ کرنے کی غرض سے مکمل طور پر کوشاں ہے تو وہیں اسرائیل شام، لیبیااور یمن کے محاظ پر ( ISIS ) ہی کے ہاتھوں حزب اللہ کی بربادی کے خواب بھی آنکھوں میں سجائے بیٹھا ہے۔
چونکہ فلسطینی اسرائیل کے غاصبانہ طور پر معرضِ وجود میں آنے کی وجہ سے شدید نفرت سے بھرے پڑے ہیں اور انہی وجوہات کے پیشِ نظر وہ شروع دن ہی سے اسرائیل کی ہٹ دھرمیوں کے خلاف دفاعی محاظ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 1971ء میں حکومتِ اردن نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن ( PLO ) کو جلا وطن کر دیا تو ( PLO ) ارکان جنوبی لبنان میں جا بسے لیکن فلطینی گوریلا فائٹرز نے اسرائیل کے خلاف ہمت نہ ہارنے کا پختہ عظم کیے رکھا۔ چونکہ لبنان کی جنوبی سرحد اسرائیل کے ساتھ ملنے کی وجہ سے لبنانی پہلے ہی یہودیوں کے غیض و غضب کا شکار تھے لہذا اسی وجہ سے پی ۔ایل۔او لبنان کے بسنے والوں کی بے تحاشہ حمائت حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہو گئے بلکہ اہلِ تشیع ہونے کی وجہ سے ایک منظم جماعت کی شکل بھی اختیار کر لی۔ 1982ء میں اسرائیل نے لبنان پر چڑھائی کر دی تو ان کو نہ صرف منہ کی کھانی پڑی بلکہ پسپائی کا منہ بھی دیکھنا پڑاجبکہ فلسطینی نمائندہ جماعت کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے لبنان کے تمام اسرائیل مخالف یوتھ گروپ یکجا ہو کر امام موسیٰ فضل ( سربراہ عمل تنظیم و حرکت المحرومین ) کی رہنمائی میں حزب اللہ کی شکل اختیار کر گئے۔ حزب اللہ کی طاقت میں اس وقت بھر پور اضافہ دیکھنے کو ملا جب آئت اللہ باقر ( نجف ) آئت اللہ فضل اللہ ( لبنان ) اور آئت اللہ خمینی نے انقلابِ ایران کے بعد حزب اللہ میں شرکت کا اعلان کر دیا۔
حزب اللہ کے جنگجو فلسطین اور لبنان کے محاظ پر اسرائیل کے خلاف ایک مدت سے اپنی جنگی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن انہیں 2013ء سے سر زمینِ شام پر داعش کا بھی سامنہ کرنا پڑ رہا ہے جبکہ چند دنوں سے اسرائیل لبنان میں حزب اللہ کے ہاتھوں 15 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا الزام لگا کر اک نئی جنگ کا آغاز کرنے والا ہے کیونکہ گزشتہ 15 سال سے یہودی مفکرین، مذہبی رہنماء اور یہودی اہلِ تصوف بھی بار بار یہی تحریر کر رہے ہیں کہ 2014ء اور 2015ء میں لگنے والے 4 مکمل سرخ چاند گرہن بنی اسرائیل کے لیئے کامیابی و کامرانی کا باعث ہونگے۔ جیسا کہ یہودیوں کی مقدس کتاب ” تالمور “ میں لکھا ہے کہ جب خونی چاند گرہن لگتا ہے تو وہ بنی اسرائیل کے لیئے برا شگون ہوتا ہے، دنیا پر تلوار کا سایہ پڑ جاتا ہے مگر یہ بنی اسرائیل کی فتح کی نشاندہی بھی ہے۔
یہودی بظاہر علمِ نجوم پر یقین نہیں رکھتے لیکن گرشتہ 2 ہزار سال سے وہ سرخ چاند گرہن کا مطالعہ ضرور کر رہے ہیں اور اسی غرض سے انہوں نے سورج اور چاند گرہن کے دوران کرئہ ارض پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ و مشاہدہ کی غرض سے ایک ریسرچ سیل بھی قائم کیا ہوا ہے جس کے مطابق گزشتہ 5 صدیوں میں لگاتار 2 سالوں میں 4 متواتر چاند گرہن 3 بار دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ پہلی مرتبہ 1492-93ء میں جب سپین کو ملکہ ازابیلہ اور فرڈیننڈ نے فتح کیا تو مسلمانوں اور یہودیوں کو بے تحاشہ مصائب اٹھانے پڑے انہیں جبراً عیسائی بھی بنایا گیا اور حکم عدولی کی صورت میں ہلاکتوں کا منہ بھی دیکھنا پڑا جبکہ یہودیوں کو خصوصاً ہفتہ کے روز کاروبار کرنے اور سور (Pig) کھانے پر بھی مجبور کیا گیا جس کے بعد کچھ ہی عرصہ میں یہودیوں نے اپنی مکاریوں کے ساتھ حکومتِ سپین میں خاص عہدے حاصل کر کے حکومتی امور میں دخل اندازی بھی شروع کر دی۔
دوسری چاند گرہن کی سیریز 1949-50ء میں دیکھنے کو ملتی ہے جب سر زمینِ فلسطین میں اسرائیل کی ریاست قائم ہو گئی اور تیسری مرتبہ 1967-68ء میں 4 خونی چاند گرہن چڑھے تو اسرائیل نے عرب ممالک پر ہلہ بول دیا اور اس جنگ میں امریکہ و برطانیہ کی مدد کے ساتھ اسرائیل نے 2 ہزار سال بعد یروشلم پر ایک بار پھر اپنا قبضہ جما لیا ۔
گزشتہ کئی سالوں سے 4 خونی چاند گرہن کا انتظار کرنے والی یہودی ایک بار پھر پر امید ہیں اور پوری دنیا پر اپنی بادشاہت قائم ہونے کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔
چونکہ اس بار پہلا خونی چاند گرہن اپریل 2014ء اور دوسرا اکتوبر 2014ء میں نمودار ہو چکا ہے جبکہ ناسا ( NASA ) کے مطابق تیسرا خونی چاند گرہن 4 اپریل 2015ء اور چوتھا 28 ستمبر 2015ء میں طلوع ہو گا لہذا بنی اسرائیل ماضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسی دوران جلد از جلد لبنان میں موجود حزب اللہ کے خلاف بھر پور طاقت کے ساتھ اک نئی جنگ چھیڑنے کے خواہاں ہیں جو خوفناک ترین محاظ ہو سکتا ہے جس میں بے تحاشہ ہلاکتوں کا خدشہ ہے کیونکہ حزب اللہ کو 2 مختلف محاظوں ( فلسطین، شام اور لیبیا ) پر مصروف ہونے کی وجہ سے بہت بری طرح شکست کا سامنہ بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس کے بعد اسرائیل کا اگلا ہدف پاکستان ہو گاکیونکہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اہلِ یہود کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اسی لیئے یہاں معروف کتاب ” اوبامہ وار “ کا ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا جس میں پاکستان کو 2015ء میں ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنے کی حکمتِ عملی کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور موجودہ حالات بھی اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :