یہ ہیں وہ لوگ!

پیر 9 فروری 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

پچھلے دو سو سالوں سے جتنے غدار ہمارے حصے میں آئے ہیں شاید ہی کسی قوم کے حصے میں آئے ہوں ۔
سوشیالوجی کا معروف قا نون ہے کہ انسانی رویے وقت ،موسم اور حالات کے تحت بدلتے رہتے ہیں لیکن وفا داری ایک ایسی قدر ہے جس میں ثبات،دوام اور استقلال پایا جاتا ہے ۔ہو سکتا ہے یہ قانون ٹھیک ہو لیکن کم از کم ہماری دو سوسالہ تاریخ نے اسے غلط ثابت کیا ہے۔

بھولے بادشاہو اقتدار، دولت ،ہوس اور لالچ کے اپنے قانون ہوا کرتے ہیں اور اگر یقین نہیں آتا تو اپنے ماضی میں جھانک لو ، تاریخ بھری پڑی ہے ،میں صرف ایک مثال دوں گا۔جنگ پلاسی کو 257سال گزر چکے ہیں لیکن ہم نے اس سے کچھ سیکھا اور نہ ہمارے غداروں کے رویے میں کو ئی فرق آیا ۔ میں تاریخ پڑھتا ہوں تو سر جھک جاتا ہے ۔ہندوستانیوں کے لیئے غیر ملکیوں کی آمد اور ان پر حکمرانی کوئی نئی بات نہیں تھی کیوں کہ وہ صدیوں سے ایسے حکمرانوں کے زیر نگین چلے آ رہے تھے، محمود غزنوی ،ظہیر الدین بابر اور احمد شاہ ابدالی تک پو ری ایک تاریخ ہے لیکن ایسٹ انڈیا کے عزائم خطرناک تھے، ایسٹ انڈیا نے بنگا ل سے باہر قدم نکالے تو سراج الدولہ صورتحال کو جان چکا تھا ،آج مغربی موٴرخین کی لکھی تاریخ کو پڑھ کر کچھ لوگ کہتے ہیں سراج الدولہ ایک نا تجربہ کار اور نا پختہ نوجوان تھا جس میں سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی تھی ، وہ حکو مت کے طریقہء کا ر اور امور سیاست سے نا بلد تھا لیکن حقیقت سراسر مختلف ہے ، سرا ج الدولہ وہ پہلا نواب تھا جس نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کے خطر ناک عزائم کو سب سے پہلے محسوس کیا تھا ،وہ انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے مکمل باخبر تھا ، اس کو پوری طرح اندازہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کیا کھیل کھیلنے جا رہی ہے ۔

(جاری ہے)

اس نے کمپنی کو ٹیکس سے معافی کے لیئے ایک سرٹیفکیٹ جا ر ی کیا تھا لیکن کمپنی نے نہ صرف اسے کمپنی کے مال کے لیئے استعمال کیا بلکہ اسے نجی تجارت میں بھی استعمال کر نا شروع کر دیا تھا ، بات یہاں تک رہتی تو قابل برداشت تھی کمپنی کے ملازمین نے اس سرٹیفیکیٹ کو مقامی تاجروں کو بیچ کر ان سے رشوت لینا شروع کر دی تھی اور اس کا نقصان براہ راست حکومت بنگال کو پہنچ رہا تھا ، سراج الدولہ ابھی بھی صبر سے بیٹھا تھا لیکن کمپنی نے بنگال کے بدعنوانوں ، غداروں ، ٹیکس چوروں اور حکومت کے مخالفین کو پناہ دینا شروع کر دی اور کلکتہ میں موجود اپنے قلعے کو فصیل بند کرنا شروع کر دیا ۔

اب ضروری تھا کہ اپنا اقتدار اور اپنے اختیارات استعمال کر کے کمپنی کو اس کو اوقات یاد دلائی جائے ، اپنی نوابی تسلیم کرا ئی جا ئے اور اپنی خود مختاری اور اپنے اقتدار اعلیٰ کو قائم رکھا جائے۔ سراج الدولہ نے بھر پور حملہ کیا اور انگریزوں کو بآسانی شکست دے دی ، انگریز فوجیوں نے بھاگ کر ساحل سمندر پر کھڑے جہاز میں پنا ہ لی ۔
یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد ایک نئی تاریخ جنم لیتی ہے، بنگال میں جاگیر داروں ، تاجروں ،سیٹھوں ، دلالوں اور زمینداروں کاایک گروپ تھا جو نواب کی پالیسیوں سے اختلا ف کر تا تھا ، سراج الدولہ انگریزی اور فرانسیسی کمپنیوں کو اپنے دائرہ اختیار میں لا نا چاہتا تھا لیکن اس گروپ کے مفادات ان کمپنیوں سے وابستہ تھے، یہ اپنا سارا تجارتی سامان ان کمپنیوں کو بیچتے اور انتہائی منافع کماتے تھے، جب نواب اور کمپنی آمنے سامنے ہوئے تو اس گروہ نے کمپنی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور یوں ہندوستان کی تاریخ کچھ سے کچھ ہو گئی۔

سازش تیار ہوئی ، سازشی گروہ کے علاوہ دربار کے کچھ امرا ء بھی سازش میں شریک تھے ، رابرٹ کلائیو مدراس سے ایک تجربہ کار فوج لے کر بنگال کی طرف روانہ ہوا ، ایک خفیہ معاہدے کے تحت فیصلہ ہوا سراج الدولہ کی جگہ میر جعفر کو نیا نواب بنایاجائے گا ، لہٰذا جون 1757میں جب میدان سجا ،میر جعفر اور اس کے ساتھیوں نے جنگ میں حصہ نہ لیا، سراج الدولہ کو شکست ہو ئی ، اسے گرفتار کیا گیا اور فورا شہید کردیا گیا ،ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ ہو چکا تھا۔

جنگ کے بعد جی بھر کے خزانہ لوٹا گیا ،فوری طور پر دو لاکھ پچھتہر ہزار پاوٴنڈ انگریزی فوج میں تقسیم کیئے گئے، کلائیو کے حصے میں 35000ہزار پاوٴنڈ آئے ۔ میر جعفر کو نیا نواب بنا دیا گیا ، کمپنی نے نوابی کے عوض اس سے 22.6ملین پاوٴنڈ کا مطالبہ کر دیا ، میر جعفر نے رو دھو کر یہ رقم ادا کی لیکن کچھ ہی عرصے بعد مزید کا مطالبہ کر دیا گیا ، خزانہ خالی ہو چکا تھا ،میر جعفر نے مزید رقم دینے سے انکار کر دیاتو کمپنی نے اسے ہٹا کر 1760اس کی جگہ پر میر قاسم کو نیا نواب مقرر کر دیا، اس سے بھی مزید رقم کے مطالبے کیے گئے ۔

کچھ ہی عرصے بعد میر قاسم نے محسوس کر لیا کہ اس طرح کام نہیں چلے گا،دوسری طرف کمپنی اور اس کے ملازمین ٹیکس اور تجارت میں بد عنوانی کر کے حکومت کے خزانے کو نقصان پہنچانے لگے ، میر قاسم یہ سب دیکھتا رہا لیکن اس کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ کمپنی کو روک سکے ، وہ بنگال سے فرار ہو کر بادشاہ شاہ عالم ثانی کے پاس پہنچا اور اس کے ساتھ اتحاد کر کے کمپنی کو بے دخل کر نے کے منصوبے بنانے لگا جس کے نتیجے میں1764میں بکسر کے مقام پر زبردست لڑائی ہوئی ،اتحادیوں کو شکست ہو ئی ، کمپنی فتح یا ب ہو ئی اور اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہو گیا۔

اب کمپنی نے ہندو ستان میں بڑے پیمانے پر فوج رکھنی شروع کر دی ، نئی فتوحات ہوئیں اور کمپنی کا اقتدار مضبوط اور مستحکم ہو تا چلا گیا۔
سراج الدولہ کے ساتھ غداری کرنے والے جاگیر داروں ،تاجروں،سرمایہ داروں اور درباری امراء کے وارث آج بھی موجود ہیں ، ان کے نزدیک وفا داری آج بھی ایک ایسی قدر ہے جسے اقتدار ،ہوس ،دولت اور لالچ کے تحت کسی بھی وقت بدلا جا سکتا ہے ،وقت اور حالات نے ان جاگیر داروں ، سرمایہ داروں اور درباری امراء کو سیاست دان بنا دیا ہے ،آپ اپنے سیاستدانوں کی اصل تصویر دیکھنا چاہیں تو آپ ان کو 1757کے آئینے سے دیکھیں یہ آج بھی آپ کو راجہ مانک رائے، جگت سنگھ ، راجہ جانکی رام، راجہ رام نرائن، سروپاور میر جعفر چند نظر آئیں گے۔

یہ وقت اور حالات کے تحت اپنی وفاداریاں یوں بدلتے ہیں کہ جمہوریت کی اعلیٰ قدریں نیچے کہیں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں ۔ ان کی اکثریت دہری شہریت کی حامل ہے اور ان میں سے اکثریت کے بیوی بچے باہر سیٹل ہیں،اور جب بھی اس ملک پر کو ئی آزمائش آئے گی یہ جھٹ سے پہلے باہر چلے جائیں گے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں اوریہ ہیں وہ لوگ جس اس ملک اور قوم کے حصے میں آئے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :