میراوطن میرالہو

جمعرات 5 فروری 2015

Amna Saeed

آمنہ سعید

آج جب بھی کہیں کوئی محفل لگتی ہے یاچندلوگ ایک ساتھ بیٹھ کرکوئی مجلس لگاتے ہیں توآپس کی باتوں اورذاتی مسائل کاتذکرہ کرنے سے زیادہ ملک کی سیاسی ،سماجی اورمعاشی صورتحال پربحث شروع کرتے ہیں ۔وقت کے حکمرانوں اورسیاستدانوں کے ذکربدکے بغیر توکوئی محفل اورکوئی مجلس تمام نہیں ہوتی۔ہرمحفل اورمجلس میں لوگ حکمرانوں اورسیاستدانوں کوتنقیدکانشانہ بناتے نظرآتے ہیں ۔

یہاں تک کہ علمائے کرام کوبھی نہیں بخشاجارہا۔آج ہم حکمرانوں ،سیاستدانوں ،علماء ،وکلاء ،ڈاکٹر،ٹیچر،انجنےئرزاورپولیس سمیت ہرکسی کوتنقیدکانشانہ بناکربرابھلاتوکہتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں ایک سیکنڈکے لئے بھی نہیں جھانکتے۔اعمال وافعال ہمارے ٹھیک نہیں اوربرابھلاہم دوسروں کوکہہ کرتنقیدکانشانہ بناتے ہیں ۔

(جاری ہے)

جب بھی کہیں کوئی خودکش حملہ ،بم دھماکہ یاکوئی اورناخوشگوارواقعہ رونماہوتاہے یاہم پرکوئی اورمصیبت آن پڑتی ہے توہم فوراًچیخنا،چلانااورکہناشروع کردیتے ہیں کہ یہ امریکہ کی سازش ہے۔

۔بھارت کی سازش ہے۔۔برطانیہ کی سازش ہے وغیرہ وغیرہ۔۔ماناکہ امریکہ سمیت دیگرغیرمسلم ممالک اورکفارشروع دن سے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اورآج بھی وہ پاکستان سمیت دیگراسلامی ممالک میں امن کوتباہ اورمسلمانوں کوکمزورکرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں ۔اغیارتوایک طرف ہمیں اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کرسوچناچاہئے کہ ہم خودکیاکررہے ہیں ۔

۔؟اورکس طرف جارہے ہیں ۔۔؟ہمیں سوچناچاہے کہ آج اس ملک میں کتنے مسلمان ایسے ہیں کہ جونمازکے وقت دکانیں بندکرکے اپنے رحیم وکریم رب کویادکرتے ہیں ۔۔؟کتنے مردایسے ہیں جوغیرمحرم خواتین کودیکھتے ہوئے اپنی نگاہیں نیچے کرتے ہیں ۔۔؟کتنے لوگ ایسے ہیں جواپنے ماں باپ کے سامنے سرجھکالیتے ہیں ۔۔؟جب نمازوں کے وقت بازاروں سے میوزک کی آوازبلندہورہی ہواورلوگ اپنے شفیق رب کوبھول کرکاروبارمیں مصروف ہوں ۔

جب مردحضرات غیرمحرم خواتین کوآنکھوں کی ٹھنڈک اورتفریح کاذریعہ بنالیں ۔جب ماں باپ کی کوئی قدرنہ رہے بجائے ان کے سامنے اف تک نہ کہنے کے ان کوذلیل ورسواکیا جائے توپھروہ رحیم وکریم رب ناراض ہوتاہے اورجب رحیم وکریم رب ناراض ہوں توپھر وہاں رحمتیں نہیں برستیں بلکہ بدامنی ،زلزلوں،خودکش حملوں وبم دھماکوں سمیت کئی طرح کے عذاب آتے ہیں ۔

آج اس ملک میں جوکچھ ہورہاہے اس کے ذمہ دارنہ حکمران ہیں نہ سیاستدان اورنہ ہی کوئی اور۔یہ ہمارے اپنے ہی ہاتھوں کی وہ کمائی ہے جوہرروزہم اپنے ہاتھوں سے ہی کمارہے ہیں ۔جیسے عوام ہوتے ہیں ویسے ہی ان پرحکمران مسلط کئے جاتے ہیں ۔آج یہ ظالم حکمران ہمارے ظلم کاہی ثمرہے۔جس طرح ہمارے اعمال وافعال ہے اسی طرح کے آج ہمارے حکمران ہیں ۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کے غیب نظرآرہے ہیں مگرخودپرہماری نظرنہیں ۔

دوسروں کی طرف انگلی اٹھاناتوہمیں اچھی طرح آتاہے مگران چارانگلیوں کے بارے میں ہم نے کبھی ایک منٹ کے لئے سوچنابھی گوارہ نہیں کیاجن کارخ ہماری اپنی طرف ہوتاہے ۔ہم دوسروں کے ہاتھ سے لیناتوجانتے ہیں پرلوٹاناہمیں یادنہیں رہتا۔آج ہمیں سگریٹ کے دھوئیں اڑاناتویادرہتے ہیں مگرکشمیر،فلسطین ،عراق اورافعانستان میں اڑتے موت کے بادل دکھائی نہیں دیتے۔

آج ہمیں خوشی کے موقع پرپٹاخے پھوڑنے کی آوازتوسنائی دیتی ہے مگراپنے ملک میں جگہ جگہ پھٹنے والے بم دھماکوں کی آوازسنائی نہیں دیتی۔آج ہمارے حکمران ایک بارپھرآئی ایم ایف اورورلڈبنک کے سامنے کشکول لئے کھڑے ہیں۔دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاناتوہم اچھی طرح جانتے ہیں لیکن اپنے پاؤں پرکھڑے ہونے کاہمیں کوئی پتہ نہیں ۔اس ملک میںآ ج ایک طرف اقلیت کی عیاشیاں ہیں تودوسری طرف اکثریت کی خودکشیاں۔

غریب والدین بھوک وافلاس اورغربت کے ہاتھوں آج اپنے جگرگوشوں کوزندہ درگورکرنے پرمجبورہیں ۔طبقاتی نظام نے اس ملک کابیڑہ غرق کردیاہے،ایک غریب روڈکے کنارے صبح سے شام تک ٹھیلالگاکرپچاس سوروپے کماتاہے جبکہ دوسری طرف ایک افسر،جاگیردار،سرمایہ دارگھربیٹھے لاکھوں اورکروڑوں ہڑپ کرتاہے۔غریب بچہ بوسیدہ یونیفارم اورپھٹے پرانے جوتے پہن کرسکول جاتاہے جبکہ دوسری طرف امیرکے بچے کووی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ سکول پہنچایاجاتاہے ۔

یہ کہاں کاانصاف ہے۔۔؟ ملک میں لوٹ مار،کرپشن اورقتل وغارت کابازارگرم ہے ۔مہنگائی ،غربت وبیروزگاری کی بھی کوئی انتہاء نہیں ۔اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لئے حصول روزگارکے لئے دردرکی ٹھوکریں کھاکرمارے مارے پھررہے ہیں ۔جہاں بھائی بھائی اوربیٹاجائیدادکی خاطرباپ کوقتل کرنے سے گریزنہ کریں ۔۔جہاں انصاف بھی پیسوں سے خریدناپڑے ،وہاں امن کیسے قائم ہوسکتاہے ۔

۔؟آج امریکہ بھارت سمیت مسائل ومصائب نے بھی ہمیں چاروں طرف سے گھیررکھاہے۔ایسے میں ایک سوال پیداہوتاہے کہ کیاہم آزادہیں۔۔؟ملک کی حالت کودیکھ کردل سے ایک آہ نکلتی ہے اوراس سوال کاجواب نفی میں ملتاہے۔ہم واقعی آزادنہیں کیونکہ امریکہ،برطانیہ،آئی ایم ایف ،ورلڈبنک کے غلام اورغربت،بیروزگاری اوربھوک وافلاس سے بھلکنے والے لوگ کبھی آزاد نہیں ہوتے ۔

جس ملک میں ہروقت ڈرون طیاروں کی تھرتھراہٹ سنائی دے وہ ملک کبھی آزادنہیں ہوتا۔ملک کی کمزورمعیشت کی وجہ سے صلاحیت ہونے کے باوجودہم میں ڈرون گرانے کی ہمت نہیں ۔آج ہم عملی طورپر غلام ہیں ۔کیااس ملک کی گلیوں اورمحلوں میں ماؤں ،بہنوں اوربیٹیوں کی عزت اورعصمتیں روزتارتارنہیں ہوتیں۔کیااس دھرتی پرروزانہ بے گناہ اورمعصوم بچوں کاخون نہیں بہایاجارہا۔

کیاہرروزپھول جیسے بچوں کے سرسے ان کے والدین اوربیوی کے سرسے اس کے شوہرکاسایہ نہیں چھیناجارہا۔جولوگ ہروقت دہشت ،خوف وہراس کے سائے تلے زندگی کے شب وروزگزارے وہ کبھی آزادنہیں ہوسکتے۔ملک کی ترقی اورحقیقی آزادی کے لئے پہلے ہمیں خودکومفادات سے آزادکرناہوگاجب تک میں کی بجائے ہم کافروغ نہیں پاتااورتبدیلی کاآغازہم خودسے نہیں کرتے اس وقت تک نہ توہمارے حالات بدل سکتے ہیں اورنہی یہ ملک ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکتاہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :