کن ٹٹے

جمعرات 5 فروری 2015

Hussain Jan

حُسین جان

کن ٹُٹے سے کہیں آپ یہ نا سمجھ لیں کہ میں کسی ایسے انسان کی کہانی سنانے جا رہا ہوں جس کا ن نہیں ہے بلکہ یہ اُن بدمعاشوں کی کارستانیاں ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں سے اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے اور مسلسل اس کے چاٹ رہے ہیں اور اُن کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں بلکہ پنجابی کی ایک کہاوٹ کی مانند (کتی چوراں نال رل گئی اے ) ۔ کئی سالوں پہلے کی بات ہے کسی شہر میں ایک کن ٹُٹا(بدمعاش) رہتا تھا ،ویسے تو اپنے علاقے کا بے تاج بادشاہ تھا لڑائی جھگڑئے سے وہ نہیں ڈرتا تھا اپنے علاقے سے جگا ٹیکس وصول کرنے کا وہ خود کو اکلوتا حق دار سمجھتا تھا کسی میں جرت نہیں تھی کے اُس کے سامنے چوں چراں بھی کر سکے اُس نے ایک دن مخصوص رکھا ہوا تھا جس دن وہ اور اُس کے چیلے علاقے کے مکانوں،دُکانوں وغیرہ میں جاتے اور کسی بھی دن کی مناسبت سے چندہ مانگ لاتے جو کہ دراصل غنڈہ ٹیکس ہوا کرتا تھا۔

(جاری ہے)

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بدماشوں میں بھی کچھ اصول ہوا کرتے تھے لہذا ایک دن کسی نے کن ٹٹے کو لڑائی کا چیلنج کر دیا اور اُسے کہا کے کھلے میدان میں اُس کے ساتھ مقابلہ کرئے جو جیتا علاقہ اُس کا،جس دن مقابلہ تھا میدان میں کافی تعداد میں لوگ کھڑئے تھے لہذا کن ٹٹے صاحب نے سوچا پہلے اپنا گراری والا چاقو نکال کر لوگوں پر رعب ڈالا جائے پھر لڑائی کے لیے نکلا جائے لہذا جناب نے جیسے ہی اپنیشلوار کے نیفے سے گراری والا چاقو نکالا ،شومئی قسمت جناب کا ناڑا ہی کٹ گیا اور شلوار لگی زمین کے بوسے لینے یہ دیکھ کر وہاں موجود سب لوگوں نے ہنسنا شروع کر دیا بدمعاش صاحب نے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی اور آئیندہ بدمعاشی سے توبہ کر لی۔

یہ بدمعاش تو بھلے وقتوں کا تھا جس نے تھوڑی سی تذلیل ہونے پر اپنا منافع سے بھرپور کاروبار یعنی جگہ ٹیکس لینا چھوڑ دیا ۔ دوری طرف ہمارے سیاسی عمائدین ہیں جن کی پینٹ کئی دفعہ اُتر چکی ہے مگر مجال ہے جو کسی نے بھی ٹھیک ہونے یا توبہ کرنیکی قسم لی ہو۔ ملک میں بحران پیدا ہو جائے یا قتل عام سیاستدان اپنی اپنی بانسری ہی بجاتے ہیں ہاں عوام سے جگا ٹیکس لینا نہیں بھولتے ،گراری والا چاقو نکالتے ہوئے بھلے پینٹ یا شلوار کیوں نہ گر جائے ٹیکس لینا ہی لینا ہی کبھی مہنگائی کی مد میں کبھی بلوں کی شکل میں وغیرہ وغیرہ۔


خیر ہمارا مقصد یہاں سیاسی ڈھول پیٹنا نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی سیاسی کالم ہے۔ ،ویسے سیاسی کالم لکھنے والوں کی اس ملک میں کون سی کمی ہے،ہمارے ایک بہت بڑئے کالم نگار جو غالبا کسی ثقافتی ادارئے کے سربراہ بھیہیں سیاسی کالم اتنا خوبصورت لکھتے ہیں کہ کہ حکمران جماعت معصوم اور عوام نا اہل دیکھائی دینے لگتے ہیں جناب میاں صاحبان کی شان میں اکثراوقات بڑئے بڑئے قصیدے بھی لکھ مارتے ہیں ،اب تو سنا ہے اُن کی سربراہی کی معیاد کو مزید بڑھانے کے لیے کچھ قانون سازی بھی کی گئی ہے۔

ہاں عوام کے لیے تو قانون سازی صرف بندوقوں سے مقابلے کرنے کے لیے ہی کی جاتی ہے جبکہ پیاروں کے لیے پورے پورے اصول ہی بدل دیے جاتے ہیں۔
تو ہم بات کر رہے تھے کن ٹٹوں کی ان کی بہت سی اقسام ہیں ایک تو اوپر ہم نے بیان کر دی ہے کہ پرانے زمانے کے کن ٹٹے معصومیت میں اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے تھیلیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے بھی کافی ترقی کر لی ہے۔

پہلے وقتوں میں کن ٹٹا صرف ان پڑھ شخص ہی ہوتا تھا مگر اب تو بہت سے پڑھلے لکھے بھی اس فیلڈ میں آگئے ہیں۔ ویسے اس فیلڈ میں پیسہ بھی بہت ہے،سب سے زیادہ فائدہ سیاسی کن ٹٹوں کو ہوتا ہے۔ ان کا کام سارا سارا دن گلیوں میں گھومنا پھرنا اور اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کی تعریفوں کے پل باندھنا ہوتا ہے۔ یہ کن ٹٹے اپنے اپ کواتنا معتبر گردانتے ہیں کہ کسی کے بھی معاملے میں ٹانگ اڑانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

ان کے ذمے نئے نئے نعرے ایجاد کرنا بھی ہوتا ہے۔ ان کو لوٹا کریسی کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے۔ وقت آنے پر یہ اپنے مخالف کو کاٹ بھی لیتے ہیں جس سے دوائی کہ ٹیکے تو نہیں لیکن پیسوں کے ٹیکے ضرور لگ جاتے ہیں۔ اکثر سیاسی کن ٹُٹے برئے وقت میں اپنے آقا کو ہی کاٹ لیتے ہیں اور اُس کے مخالفوں کے ساتھ جا بیٹھتے ہیں۔ ان لوگوں کا اپنا کوئی قبلہ نہیں ہوتا ان کا کام صرف ہاں میں ہاں ملانا اور لیڈر کی ہر اچھی بری بات کی تائید کرنا اور لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنا ہوتا ہے۔

ان تمام وفاداریوں کے بدلے میں یہ پاتے ہیں کسی یوسی کی صدارت،بچہ چپڑاسی لگ جاتا ہے۔ ویسٹ کوٹ پہننے کا حق مل جاتا ہے۔ علاقے کے ایم این اے یا ایم پی اے کے دفتر بلا روک ٹوک چلا جاتا ہے۔ کچھ بڑئے سیاسی کن ٹُٹے بھی ہوتے ہیں لیکن یہ صرف بڑئے بڑئے ہاتھ ہی مارتے ہیں لاکھوں کروڑوں کا غبن ان کے لیے معمولی بات ہوتی ہے۔
آج کل صحافت میں بھی کافی کن ٹُٹے پائے جاتے ہیں ،کسی زمانے میں پڑھا تھا کہ صحافی وہی اچھا ہوتا ہے جو غیر جانبدار ہو۔

اللہ بخشے جناب عباس اطہر مرحوم صاحب کو ایک دفعہ ان کا انٹرویوکرنے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے برملا کہا تھا کہ موجودہ دور کے صحافیوں کے لیے غیر جانبدار رہنا بہت مشکل ہے۔ تو صحافتی کن ٹُٹے سب سے خطرناک ہوتے ہیں ،اپنے سیاسی آقا کی جتنی تشہیر یہ کرسکتے ہیں اُتنی کسی سیاسی چمچے کے بس کی بات نہیں۔ ان کا کام ہر اُس خبر کی تردید یہ روک تھام ہوتا ہے جو ان کے سیاسی مقاصد کے آڑئے آئے،اور تو اور دوسرئے صحافیوں کو بھی اپنی اپنی جماعت میں لانے کے لیے بہت جتن کرتے پائے جاتے ہیں ۔

وہی صحافتی کن ٹُٹا فائدے میں رہتا ہے جس کا تعلق حکمران سیاسی جماعت سے ہو،اپوزیشن کے بندے کو اقتدار میں آنے تک انتظار کرنا پڑتا ہے تو تب تک صرف ایک پلیٹ بریانی پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ صحافتی کن ٹُٹوں کو بہت سے فوائد ملتے ہیں ،مثلا مشیر،وزیر،چیرمین،بھائی وائس چانسلر،کلچرل اداروں کی بھاگ دوڑ بچوں کو اچھی نوکریاں، سفارت کاری ،غیر ملکی دورئے،تقرر تبادلے،پلاٹ وغیرہ وغیرہ یعنی پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں۔


ہمارا معاشرہ اس قدر برائی کی دلدل میں گھس چکا ہے یہاں ضمیر کی کوئی قیمت نہیں ایمانداری ناپید ہے،مخلص انسان کا ملنا محال ہے،جھاڑو لگانے والے سے لیکر اوپر تک سب کے سب کرپشن میں دھنسے ہوئے ہیں۔ کن ٹُٹے ہر میدان میں موجود ہیں، ڈاکٹر ی ہو یا اداکاری،سیاست ہو یا صحافت،عرض ہر طرف یہی کن ٹُٹے نظر آئیں گے جو اپنے مفاد کی خاطر کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔

ان کے نزدیک صرف اپنا مفاد عزیز ہے ملک و قوم کی ان کی نظرمیں کوئی اوقات نہیں۔ ہم ملکی و عالمی سطح پر بدحالی کا شکار ہیں،دہشت گردی سے لے کر کرپشن تک نے ہمارے گردحصار قائم کیا ہوا ہے جس سے نکلنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ جب تک ہم عملی طور کچھ نہیں کریں گے تب تک کچھ نہیں ہوگا اخباری بیانات اور بڑئے بڑئے اشتہارات سے کبھی حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔

ملی نغمے تو ء71میں بھی بجائے جاتے تھے پھر بھی ملک کا آدھا حصہ نہیں رہا۔ لہذا ملی نغموں سے نکل کر عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو خوشحال رکھنے اور کرپشن سے پاک معاشرئے کے تشکیل کی ضرورت ہے جب تک یہ نہیں ہو گا ہم کبھی اپنے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے معاشرئے سے نام نہاد کن ٹُٹوں کا بھی صفایہ کرنا ہوگا جب تک ایسے لوگ معاشرئے میں موجودہیں معاشرئے پستی کی طرف ہی گامزن رہتے ہیں ترقی کی منازل طے کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :