نیلم اداس ہے اور وہ شرمندہ ہیں

منگل 3 فروری 2015

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

دونوں طرف فائر بندی ہے، سڑکیں پکی ہورہی ہیں ، بجلی بنانے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ، چوکیاں ویران اور شہر آباد ہو رہے ہیں ، فوجیں آمنے سامنے ہونے کے باوجود اپنے اپنے مورچوں میں ہیں یہاں تک کہ اب "ٹیٹوال کا کتا "بھی خود کو محفوظ تصور کرتا ہے اور اب کوئی کسی کتے کے گلے میں پاکستانی ہندوستانی ہونے کا کتبہ نہیں ٹانگتا اور اب کوئی سنگ دل محض اپنے جنون کو اپنی بہادری کا نام دینے کے لیے کسی زخمی کتے پر فائر نہیں کرتا ، اب نہ تو فضا میں بارود کی مہک ہے اور نہ ہی توپوں کے دہا نے آگ اگلتے ہیں ، بس نیلم کے نیلگو پانیوں میں انسانی تاریخ کی ایک بہت ہی دلخراش داستان ہے جسے نیلم سناتا ہے اور جھوم جھوم کر سناتا ہے ، نیلم کے نغموں کی شرینی ہواوٴں کو مہکاتی ضرور ہے مگر اس خوشنما مہک کا مز ا پھیکا پھیکا سا لگتا ہے ، نیلم کی مستی اور نیلم کا حسن صرف نیلم محسوس کر سکتا ہے کیونکہ میں نیلم نہیں ، اس لیے میرے احساسا ت نیلم جسے کیسے ہو سکتے ہیں ؟ ۔

(جاری ہے)


میں نیلم کے کناروں سے نیلم کو محسوس کرنا چاہتا تھا ، میں نیلم کے ساتھ چلا مگر مجھے نیلم خود سے بہت دور محسوس ہوا مجھے لگا کہ میں نیلم سے شرمندہ ہوں، میں نیلم کا مقروض ہوں ، میں نیلم کے احسانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں اور میرا وجود نیلم کی شفافیت کے سامنے بہت غلیظ ہے ۔ مجھے نیلم نے کہا کہ میں اس کا وہ چور ہوں جس نے اسے لوٹا اور اس کے وجود کو زخمی کر کے اپنا وجود روشن کرنے کی کوشش کی ۔

شائد میں ہی وہ بندوق بردار ہوں جس نے "ٹیٹوال کے کتے " کو مارتے ہوئے اپنی مردانگی پر ناز کیا تھا اور شائد میں ہی وہ مرد با کردار ہوں جس نے نیلم کے کنارے بسے گھروں کو اجاڑا اور یہاں کی عورتوں کی عصمت دری کی کیونکہ میں یہ کر سکتا تھا کیونکہ یہ میری ہوس کی تسکین کا آسان طریقہ تھا ۔میں ہر گز نیلم نہیں ہو سکتا ۔میں نیلم کے پتھروں ، یہاں کی جڑی بوٹیوں ، یہاں کی تہذیب اور اس تہذیب سے جڑی ہزاروں سال پرانی تاریخ کا قاتل ہوں کیونکہ میں نیلم نہیں ہوں ۔

….۔میں کبھی بھی نیلم سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتا ۔میں کاغذ تو کالے کر سکتا ہوں ، تقریریں تو کر سکتاہوں اور مشورے تو دے سکتا ہوں ، سیاست کے کھیل تو کھیل سکتا ہوں ، اخباروں کے رنگین صفحا ت میں اپنی تصویر تو لگوا سکتا ہوں ، کسی مسجد ،درگاہ ،مزار کو بمب باندھ کر اڑا تو سکتا ہوں ، اپنے مسلک کے نام پر کسی کا گلا تو کاٹ سکتا ہوں ، ا وروں کو اکسا اور لڑا تو سکتا ہوں ، گھر برباد اور قبرستان تو آباد کرسکتا ہوں ، دنیا کے نقشے پر اپنی مرضی کی لکیر تو کھینچ سکتا ہوں ، نوادرات تو چوری کر سکتا ہوں ، ملکی خزانہ تو لوٹ سکتا ہوں، اپنے گھر کو روشن کرنے کے لیے لاکھوں گھروں میں تاریکی کے سائے تو قائم کرسکتا ہوں ، اپنی مرضی کی تشریحات سے الہامی کلام کو نفرت پھیلانے کے لیے استعمال تو کر سکتا ہوں ، پاکیزہ اور ماں جیسی دھرتی کا سودا تو کر سکتا ہوں ، اپنے دستر خوان پر ہزاروں فاقہ کش مظلوموں کو تو بھول سکتا ہوں ، بندوق کی نوک پر کسی کی عزت کی دھجیاں تو تار تار کر سکتا ہوں مگر میں نیلم نہیں ہو سکتا !۔


میرا قلب نیلم جیسا وسیع نہیں کہ جس میں صدیوں کا غم ہے مگر پھر بھی اس کے نیلے پانیوں سے محبت کے نغمے سنائی دیتے ہیں ۔میں کیا ہوں اور نیلم کیا ہے ؟ نیلم کہانی کوئی نہیں جانتا ، بس سب نیلم کے بارے میں اندازے لگاتے ہیں ، اس کے کناروں پہ کھڑے ہو کر زور زور سے اپنی بدنصیبی پر چیختے ہیں اور جب جواب نہیں ملتا تو شرمندہ واپس لوٹ جاتے ہیں ۔


نیلم سے سوال کریں تو وہ جواب نہیں دیتا ، نیلم کے پانی سے شور اٹھتا ہے مگر اس شور میں ایک ویران سی اداسی ہے ۔تاریخ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہاں 1947 میں ظلم ہوا ، یہاں 1965میں بربریت کے انمٹ نقوش چھوڑے گئے مگر نیلم اس پر شائد افسردہ نہیں ہے ! نیلم کیوں اداس ہے ؟ نیلم کیا کہتا ہے ؟ نیلم کا گلہ کیا ہے ؟ نیلم کس سے ناراض ہے ؟ نیلم کا اصل شکوہ کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا ۔

اگر کوئی جانتا ہوتا تو آج نیلم اسقدر اداس نہ ہوتا ۔
میں ابھی ابھی نیلم سے واپس آ رہا ہوں اور امریکہ کا صدر ہندوستان سے ۔میں جب نیلم کے نوحے سن رہا تھا اس وقت اسلام آباد میں بیٹھے بہت سے قابل ذہن یہ بحث کر رہے تھے کہ امریکہ کے صدر نے ہندوستان جا کر پاکستان کی بے عزتی کر دی ۔میں نے ہمت کی اور یہ سوال نیلم سے پوچھا کہ کیا امریکہ کے صدر کے پاکستان نہ آنے سے پاکستان کی بے عزتی ہوئی ہے ؟
میرے اس سوال پر مجھے نیلم کے پانیوں میں ایک عجیب سا غصہ محسوس ہوا ، نیلم نے اپنی خاموشی کے بند توڑے اور مجھ سے ہمکلام ہوا ۔

نیلم بولا " بے عزتی عزت والے کی ہوتی ہے ، ایک جابر اور ظالم کی نہیں " میں نے نیلم سے پوچھا کہ ہندوستان بھی ظلم کرتا آیا ہے اس نے بھی تمھارے پانیوں کو خون سے رنگین کیا ہے اور وہ بھی جابر ہے ؟ نیلم بولا " مجھے ہندوستان سے کبھی وفا کی امید نہیں تھی مگر میرے سینے پہ جو زخم کلمہ پڑھنے والوں نے لگائے ہیں وہ کبھی بھر نہیں سکتے "۔نیلم بولا " میری دھرتی کے ہر حصے کو ان ضمیر فروشوں نے اتنا لوٹا ہے کہ مجھے اس جانب کی غلامی اس جانب کی آزادی سے اچھی لگتی ہے "۔

میں نیلم سے کچھ اور پوچھنا چاہتا تھا مگر نیلم نے مجھے خاموشی سے اس کی بات سننے کا کہا ۔نیلم بولا کہ پاکستان کی بے عزتی اس روز ہو گی جس روز پاکستان میں انصاف ہو گا ، پاکستان میں اس روز بے عزتی کے مباحثے اچھے لگیں گے جب پاکستان کے ہر مجرم کو بر وقت سزائیں ملیں گی اور پاکستان اس روز عزت کی چادر کا دعویدار ہو گا جس روز پاکستان کے ڈاکو پاکستان کی جیلوں میں ہونگے نہ کہ حکمرانی کے ایوانوں میں ۔

نیلم غصے میں تھا اور کہہ رہا تھا کہ کوئی حساب لے گا ان درندوں اور کرگسوں کا جو دین کے نام پر دین کو شرمندہ کر رہے ہیں ؟ کون اس قلم کو توڑے گا جو نفرت پھیلاتی ہے ؟ کون روکے گا اس ظالم کو جو اس وادی اور پورے وطن کے حسن کی ٹھیکیداری میں لگا ہوا ہے ؟ کون ان سروں پر چادر ڈالے گا جنھیں منصفوں کے منظور نظر بھیڑیوں نے لوٹا ؟ کون اس آنکھ کو پھوڑے گا جس میں ہوس اور غلاظت کی تاریکی ہے ؟ کون اسلام آباد اور مظفر آباد کے ایوانوں میں بیٹھے جنموں اور ازلوں کے بھوکے حکمرانوں سے حساب لے گا کہ جنہوں نے زمین کے ہر ٹکڑے کو ریل اسٹیٹ کے کاروبار میں بدل دیا ہے اور کون اس دھاندلی ، جھوٹ اور جعل سازی کو بے نقاب کرے گا کہ جس نے ان حکمرانوں کے خون میں حرام کی ملاوٹ اسقدر کر دی ہے کہ ان کے منہ سے اگر کوئی اچھی بات بھی نکلے تو اس سے بھی مکاری کی بو آتی ہے ۔


نیلم بولا کہ اس روز میرے سامنے شرمندگی اور بے عزتی کی بات کرنا جس روز میرے جنگلوں سے سمگل کی گئی لکڑی اور میرے دھرتی سے چوری شدہ میرے نایاب پتھروں کا حساب تمہارے پاس ہو ۔نیلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ابھی ان وزرا کو کوئی سزا ملی ہے کہ جنہوں نے اس کے قدرتی خزانوں کو لوٹا یا کیا ان سیاستدانوں کو کسی عدالت نے پکڑا ہے جو اربوں کے غبن کرتے ہیں اور شرماتے نہیں ؟
میرے پاس نیلم کے کسی سوال کا جواب نہیں ۔

میں جواب کیسے دوں جب نیلم کے اپنے حکمران ہی اتنے کرپٹ اور جعل ساز ہیں ۔یہ میرا تجزیہ نہیں اور نہ ہی کوئی نئی خبر ہے بلکہ روز روشن کی طرح ایک حقیقت ہے کہ آزاد کشمیر ، جہاں نیلم بہتا ہے وہاں کے حکمران میگا کرپشن کے بے تاج بادشاہ ہیں ، یہاں کے وزراء کک بیک کے ماہر ہیں۔یہ آزاد کشمیر ایک ایسی زیارت ہے کہ جہاں چڑھاوے تو چڑھائے جاتے ہیں مگر یہاں سے بوریاں لاڑکانے والے بابے کے دربار پر جاتی ہیں ۔

ان بوریوں کا کچھ حصہ بابے کی بہن کو بھی ملتا ہے اور جو آج کی صورتحال ہے اس سے لگتا ہے کہ کچھ نیاز رائیونڈ شریف بھی جاتی ہو گی ۔نیلم نے مجھے یاد کروایا کہ جس ہندو جابر کے ظلم کی داستانیں میں سالوں سے لکھتا تھکتا نہیں اسی کا ایک احسان وہ سٹیٹ سبجیکٹ ہے جو کسی غیر کشمیری کو کشمیر میں زمین خریدنے کا حق نہیں دیتا ورنہ آج ایک فریال ہاوٴس ، ایک بلاول ہاوٴس یا ایک شریف ہاوٴس یہاں بھی آباد ہو جاتا اور سب خاموش رہتے ،عزت اور بے عزتی کی بحث جاری رکھتے مگر کسی کو نیلم کا غم محسوس نہ ہوتا کیونکہ ایک محکوم قوم رو تو سکتی ہے، کہانیاں تو لکھ سکتی ہے ، کسی گولی کا نشانہ تو بن سکتی ہے ، جہاد کے نام پر ظلم تو کر سکتی ہے مگر نیلم نہیں ہو سکتی ، ہاں یہ سچ ہے وہ کبھی بھی نیلم نہیں ہو سکتی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :