ہر چیز کو پالینے والادرویش کا فارمولہ

منگل 3 فروری 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

صاحب جی! اُس بندے کو دیکھیں ۔شاہد ٹوکے نے مجھے کہا، اس بندے کے دونوں گردے ناکارہ ہیں لیکن اس کے باوجود یہ صحت مند زندگی گذار رہاہے۔ میں نے تجسس بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور پو چھالیکن کیسے ؟اِس کا جواب لینے کے لئے آپ کو اُن سے ملناپڑے گا اور اُن سے آپ کی ملاقات میں طے کرا دیتا ہوں۔ میں نے فوراََ ہاں میں سر ہلاتے ہوئے شاہد کو جلد ہی اُن سے ملاقات طے کر نے کو کہا اور اپنے گوشت کا تھیلا اٹھائے گھر کی جانب چل پڑا۔

شاہد کا خاندان پچھلی کئی نسلوں سے گوشت کے کاروبار سے منسلک ہے جو اپنی ایما نداری اور حسن اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہے ۔میں ابھی گھر پہنچا ہی تھا کہ ٹوکے کا فون آگیا ۔ صاحب! کہاں ہیں؟ آپ ایک گھنٹے تک میری دوکان پر پہنچ جائیں ، حاجی صاحب سے ملاقات طے ہو گئی ہے۔

(جاری ہے)

دیر نہیں کر نی وہ وقت کے بہت پابند ہیں۔لہذامیں بھی دئیے گئے وقت سے 10منٹ قبل ہی شاہد کی دوکان پر پہنچ گیا جہاں سے یہ مجھے دوکان سے 5منٹ کے فاصلے پر واقع حاجی نیاز کے گھر لے گیا۔

حاجی صاحب سا بق بیو رو کریٹ ہیں اور ریٹا ئرڈ زندگی گذار رہے ہیں ۔دو سال قبل رات کو جلدی سونے ، صبح کی سیرکر نے سمیت زندگی کو انتہائی متوازن طریقے سے گذا ر تے ہوئے ایک روز ان کے جسم میں شدید قسم کا درد اٹھتا ہے، درد کی شدت کے باعث انہیں فوری ہسپتال لے جا یا جا تا ہے جہاں میڈیکل چیک اپ اور کچھ ٹیسٹ کرائے جانے کے بعدڈاکٹروں کی ایک ٹیم ان کے گردوں کے ناکارہ ہو نے کی تشخیص کرتی ہے۔

عارضی طور پر ادویات کے ذریعے درد کی شدت کو کم کرتے ہوئے اور اس درد سے مکمل نجات اور دوبارہ صحت مند زندگی گذار نے کے لئے ڈاکٹروں کی یہ ٹیم حاجی صاحب کے بیٹوں کو 30، لاکھ روپے کا پروانہ بھی ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔ حاجی صاحب ادویات کا استعمال کر نے کے نتیجے میں کچھ بہتر ہوتے ہیں تو اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے کمرے میں بلاتے اور ان سے علاج کی رقم کا باآسانی بندوبست کر نے کے بارے در یافت کرتے ہیں۔

دونوں بیٹوں جو صاحب استطاعت ہو نے کے ساتھ کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں نے فوری طور پر اپنے والد کو پیسوں کی فکر نہ کر نے ،علاج کرانے کی یقین دہانی کراتے، اگلے روز ہی رقم کا بندو بست بھی کر دیتے ہیں۔
حاجی صاحب اپنی64سال کی عمر میں رقم کو سامنے رکھ کے اپنی بقیہ عمر کے بارے سوچنا شروع ہو جاتے ہیں، سوچیں اپنے مدار سے باہر نکلتے ہوئے سر کاری ہسپتالوں میں علاج کی خاطر در در بھٹکنے والے غریبوں کی حالت زار پر مر کوز ہو تی ہیں جس کے نتیجے میں یہ اپنے علاج پر خرچ ہو نے والی رقم کو ان غریبوں کے علاج و معالجہ پر خرچ کر نے کا عہد کرتے ہوئے رقم کے تھیلے کو تھامے اپنے ڈرائیور کے ساتھ یہ رقم مئیو،گلاب دیوی اور جنرل ہسپتال کے بحالی مریضاں ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں کے سپر د کر آتے ہیں۔

حاجی صاحب کے بقول اُس دن سے وہ بالکل پہلے جیسی صحت مند بلکہ اس سے بھی متوازن زندگی گذار رہے ہیں ور ان دوسالوں میں انہیں زندگی میں جو راحت و سکون میسر آیا وہ پچھلے 64سالوں میں نصیب نہیں ہوا۔
قارئین!میں ابھی اس نفسا نفسی کے دور میں حاجی صاحب جیسے فرشتہ صفت لوگوں کے بارے سوچ رہا تھا کہ اخبار میں چیف ٹریفک آفیسر لاہور کی کچھ اس جیسی سخاوت کے متعلق شائع خبر پر نظر پڑی۔

طیب حفیظ چیمہ نے شہر کی بے ہنگم ٹریفک کے بہاؤ کا برقرار رکھنے کی کاوشوں کے ساتھ اپنے محکمے کے ملازمین کے غربت کے زہر سے ڈسے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے در جہ چہارم کے ملازمین میں راشن تقسیم کر تے ہوئے ان کے علاج معالجے،بوقت ضرورت مالی امداد اور فلاح و بہبود کو یقینی بنا نے کے لئے جامع حکمت عملی مرتب کر کے،اس پر عمل کرکے اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔


قارئین کرام ! کئی روز گذرتے ہیں درویش کی بیٹھک سجی تھی، بیٹھک میں موجود ایک صاحب نے حالات کا رونا روتے ہوئے بو سیدہ حالات کاحل در یافت کیا۔ درویش اطمینان،سکون اور چمکتے چہرے کے ساتھ گو یا ہوئے:”جس شے کے تم اللہ سے طلب گارہو وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مخلوق میں تقسیم کر نا شروع کر وو۔عزت چاہتے ہو تو لوگوں کو عزت دو، رزق کی فراونی کے طالب ہو تو مخلوق میں اسے تقسیم کرو،دولت، صحت غرضیکہ دنیا کی ہر شے اسی فارمولے کے تحت تمہارے پاس دوڑتی چلی آئے گی۔

“حاجی نیازنے تو لوگوں میں صحت تقسیم کر کے صحت جیسی دائمی دولت کو پالیا ہے یقینا طیب حفیظ چیمہ بھی لوگوں میں رزق تقسیم کر کے سکون، اطمینان اور عزت کی دولت سے مالا مال ہو گئے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر چیز کو پالینے والادرویش کا یہ فارمولہ ہر انسان کے لئے کارگر اور مفید ہو سکتا ہے لیکن اس کے لئے شرط ہے کہجس چیز کے ہم خواہاں ہیں وہ چیز مخلوق میں تقسیم کر نا شروع کر دیں۔ تو پھر دیر کس بات کی۔ آئیں آج سے ہی اسے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرتے ہوئے اپنی زند گیوں کو بھی آسان بنا نے کی سعی میں مصروف ہو جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :