ہمارے کندھے ابھی تھکے نہیں

منگل 3 فروری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

داستان اگرشروع کی جائے ”مرد مومن“ کے دور سے یاپھراس کاآغاز 9/11سے کیاجائے، دونوں ایک ہی داستان کی شروعات لگتی ہیں، کہانی میں اتار چڑھاؤ کافرق ہوسکتا ہے مگر دونوں کا انداز ایک ہی ہے فرق محض اتنا ہے کہ ایک میں ہماری مرضی شامل تھی اوردوسرے میں ہماری مرضی کے اصل مالک کی منشا،تاہم مرد مومن کے دور سے لیکر نائن الیون تک اور پھر وہاں سے نئی شروعات کے بعد داستان کئی موڑمڑتے مڑتے آج 2015 تک آن پہنچی ہے مگر لگتا یہی ہے کہ نائن الیون کے بعد سے داستان نے یوٹرن لے لیا، ہم جو جہاد کو اپنے مذہب کا جزولاینفک سمجھاکرتے تھے آج اس سے کنارہ کشی اختیارکرنے پرمجبورہیں اس حوالے سے کئی قسم کے دلائل بھی دئیے جارہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلام میں جہاد اہمیت کاحامل تھا ،ہے اوررہے گا لیکن ”یار “لوگوں نے اس اہم ترین اسلامی اہمیت کے حامل جزو کو اس قدربدنام کردیا کہ اب عام مسلمان تو کجا ،عالم دین ،مفتی ،مولوی ،مولاناسبھی کہتے ہیں یہ جہاد نہیں فساد ہے۔

(جاری ہے)


کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ پاکستان میں پھیلی تباہی بربادی کے پیچھے دراصل سابق صدر پرویز مشرف کی ”آبیل مجھے مار “ قسم کی پالیسیوں کا ہاتھ ہے،لیکن یہ بھی دیکھنالازم ہوگا کہ یہ پالیسیاں دراصل کن حالات میں منظر عام پرآئیں، پاکستان کو ”غاروں“ کے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکیاں تو سپریم پاور کی طرف سے دی گئیں مگراصل میں اس کے پیچھے ہاتھ کس کاتھا؟؟ کچھ لوگوں کے مطابق نائن الیون دراصل ”جہادی گروپوں“ کا کارنامہ تھا لیکن بعض امریکی دفاعی ماہرین آج بھی اس بات پربضد ہیں کہ یہ دراصل ”سازش“ تھی جس کامقصد ”صلیبی“ جنگوں کانیارخ دیناتھا۔

بات جو بھی ہو مگر دونوں صورتوں میں خمیازہ بہرحال اس قوم نے ہی بھگتا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ جن جن لوگوں نے نائن الیون کا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، ٹیلیویژن سکرین پر گرتے ٹاور دیکھے یاپھر اخبارات میں چھیپی تصاویر دیکھیں وہ امریکی کئی مہینوں سے تک سکون کی نیند سو نہیں پائے ،بلکہ کئی مائیں تو اپنے بچوں کو ”اوسامہ“ کے نام سے ڈراتی رہیں۔

خیر اب اس ”سانحہ “ کو بیتے بہت برس بیت گئے ، اب محض الزامات ہی دکھائی دیتے ہیں یاپھر ان کے اثرات۔ بعض تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ نائن الیون ایک واقعہ تھا جس کے اثرات امریکہ تک ہی نہیں رہے بلکہ یہ پاکستان کی سرزمین پر آکر رک سے گئے اورپھریہیں سے ان واقعات کا نیا سلسلہ شروع ہوا اور شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جو ”منی نائن الیون“اپنے اثرات پاکستان کی سرزمین پر نہ چھوڑگیاہو۔

یہ سلسلہ آج بھی تواتر سے جاری ہے ،
صاحبو! اس دورانیے میں کئی روپ بہروپ بھرے گئے، کبھی بات چیت کے ذریعے اور کبھی بندوق کے ذریعے اسے حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ معاملہ تاحال جوں کاتوں ہی ہے بلکہ اس میں بہت سا بگاڑ بھی پیداہوچکا ہے ۔ابتداً اچھے برے کی تمیز ہوتی رہی یہ سلسلہ بھی اس بگاڑ کے مزید بگاڑنے کاسبب بنا اورآج قوم اس بات پر متفق نظرآتی ہے کہ اچھا برا کوئی نہیں ، بس جس کسی کاہاتھ خون میں رنگا ہوا ہے وہ برا ہی ہے۔

اس ضمن میں ملکی سطح پر آئین سازی ہوئی اورپھرمعاملہ عدالتوں تک بھی جاپہنچا ہے
ایک طرف قوم کو آئین کے تناظر میں اس گھمبیرہوتے مسئلے کے حل کی خوشخبری سنائی جارہی ہے مگر دوسری جانب آئین کو نہ ماننے والوں کاراج ہے، ایک عجیب سی صورتحال ہے کہ ہم نے دہشتگردوں کوآگے لگانے کی بجائے خود ان کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں، مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ دہشتگردکسی پولیس سنٹرکو نشانہ بناتے ہیں تو پھر ہماری توجہ تمام پولیس سنٹروں کی سیکورٹی کی طرف ہوجاتی ہے مگر اگلی بار ان کانشانہ کوئی آرمی سنٹرہوتا ہے قوم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاتی ہے ،آرمی پبلک سکول پرحملہ ہواتو ملک کے عموماً اورپنجاب کے سکولوں میں خصوصی طورپرسیکورٹی کے نام پر ایسے ایسے اقدامات دیکھنے کو ملے جنہیں دیکھ کر، ان کے بارے پڑھ کرہنسی آتی ہے، ہماری بیٹی ایک پرائیویٹ سکول میں چوتھی جماعت کی طالبہ ہے ، کہہ رہی تھی کہ بابا! یہ تو دہشتگرد ہوتے ہیں کیا وہ ان دیواروں پرلگے تاروں کو نہیں کاٹ سکتے،کیاسکول کے سامنے بنی ہوئی سیمنٹ کی رکاوٹوں کو پار نہیں کرسکتے یاپھر یہ جو سکول کے سامنے چھوٹی سی بندوق(دہشتگردوں کی بڑی بڑی گنوں ، بموں کے سامنے اس بندوق کی حیثیت چھوٹی ہی ہے )سے کیا دہشتگردوں کوروکاجاسکتا ہے؟ ہمارے جواب دینے سے پہلے ہی وہ خود ہی بولی ”دہشتگرد تو آتے ہی مرنے کیلئے ہیں ، انہیں بھلا ان چیزوں کاکیاڈر؟؟
صاحبو! سوال یہ پیدہوتا ہے کہ قوم”مرد مومن“ کے دور سے کاندھوں پر جنازے اٹھااٹھاکر چلی ہی آرہی ہے ،کبھی بچوں کے معصوم وجود میت کی شکل میں کاندھے پراٹھانے والوں سے بھی پوچھاجاسکتا ہے کہ ان معصوم پھولوں کاوجود کتنابھاری ہے، آج اگر شکار پورمیں ساٹھ زندہ سلامت لوگوں کوماردیاگیا تو کیا قوم کے کندھے یاگردن جھک جائیگی ؟؟نہیں ایسا نہیں ہے، سانحہ پشاورکے بعد قوم کے ہربچے کے لب پریہ چیلنج تھا ”بڑادشمن بناپھرتاہے ،جوبچوں سے لڑتاہے“
یہ چیلنج خود کو بڑا دشمن سمجھنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہی تو ہے کہ قوم کابچہ بچہ اب میدان میں نکل آیاہے ۔

یقینا یہ سیکورٹی انتظامات سے زیادہ سودمند ہے ، دہشتگردوں کامقابلہ کرنے کے علاوہ اگر ”اچھے برے “دہشتگرد کی تمیزختم کرکے اگر انہیں محض براتصورکرتے ہوئے قوم کے چھوٹے بچوں، نوجوانوں ،عورتوں بزرگوں میں وہی جذبہ بیدار کیاجائے جو آج کے معصوم بچوں کے چہرے پرواضح طورپر دکھا ئی دیتاہے، سکولوں میں ”پاک سرزمین شاد باد“ کاترانہ پڑھنے والے بچے اب ”بڑا دشمن بناپھرتا ہے ،جو بچوں سے لڑتا ہے“ کاچیلنج دہراتے ہیں، یقینا یہی لگتا ہے کہ موجودہ نسل نے دہشتگردی کازہر اپنی رگوں میں اتارلیا لیکن آنیوالی نسل یقینا ایسا نہیں چاہے گی پھر جن کے اندر علم کانور روشن بنکر ابھرا وہ دل کبھی بھی اندھیروں میں قید رکھنے اوررہنے والوں کو کبھی بھی برداشت نہیں کرپائیگا۔

ایک نائن الیون کاسامنا کرنیوالی امریکی قوم آج بھی خوفزدہ دکھائی دیتی ہے مگراس قوم نے تو دہشتگردوں کو چنوتی دے دی ہے کہ یہ ”کندھے ابھی تھکے نہیں “ یقینا یہ عزم دہشتگردوں کی شکست کی طرف ایک اورقدم ہے؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :