جنوبی ایشیا میں تبدیلی کی لہراور پاکستان

اتوار 1 فروری 2015

Qasim Ali

قاسم علی

بھارت پر اپنے غیظ و غضب کے تیر چلانے سے پہلے ہمیں ایک بات کا بہرحال قائل ہونا ہی پڑے گا کہ اس کی خارجہ پالیسی انتہائی جاندار اور شاندار ہے جوکہ ایک طرف تو مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہاہے تودوسری جانب انہی مسلمان ممالک کی بڑی تعداد اسی بھارت کی بنی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈیاں ہیں جہاں سے بھارت ہرسال اربوں ڈالر کمارہاہے ،ایک طرف تو وہ امریکہ بہادر کے روائتی حریف روس سے یاری لگائے ہوئے ہے تو دوسری جانب خود امریکہ بھی بھارت کے چرنوں میں حاضری کو اپنی سعادت سمجھتا ہے خصوصاََ جاج ڈبلیو بش کے دور اقتدار کے بعد سے بھارت کی اہمیت امریکہ کی نظر میں مزید بڑھ گئی ہے جس نے حقیقی معنوں میں بھارت کو جنوبی ایشیا کا تھانیدار بنانے کی راہ ہموار کی تھی۔

یہاں ایک دلچسپ بات بھی یاد آئی کہ یہ وہی نریندرمودی ہیں جن پر امریکہ نے قاتل کا لیبل لگا کر امریکہ میں داخلے کی پابندی لگائی تھی مگر آج وہی مودی اوبامہ کو جپھیاں ڈالتا نظرآرہاہے یہ سب بھارت کی کامیاب سفارتکاری کا نتیجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد اگرچہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا اور اس اتحاد میں اس کو ایک اندازے کے مطابق سوارب ڈالر کا انقصان اور ہزاروں سول و فوجی شہادتوں کا نقصان بھی برداشت کرناپڑاجو آج بھی جاری ہے اور باوجود اس کے کہ بھارت اسی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا رہاہے جس کو امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر کبھی تاراج نہیں کرسکتا تھا مگراس سب کے باوجود امریکہ کی نظرالتفات ہمیشہ بھارت پر ہی رہی ہے جس نے پہلے بھارت کیساتھ سول جوہری معاہدہ کیا اور اب اس معاہدے میں خطرناک پیشرفت کرتے ہوئے بھارت کو اس جوہری ٹیکنالوجی کی نگرانی سے استثنا دے دیا ہے یعنی امریکہ بھارت کو ٹریکنگ ڈیوائس کے بغیرجوہری آلات فراہم کرے گاجو کہ انتہائی خطرناک اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اس کے بعد بھارت اس ٹیکنالوجی کو فوجی ضروریات کیلئے استعمال کرسکتا ہے ۔

(جاری ہے)

امریکہ اور بھارت کا یہ گٹھ جوڑ دراصل خطے کی بڑھتی ہوئی معاشی و فوجی طاقت چین اور پاکستان کے خلاف ہے امریکہ کا ماضی اس حقیقت کا گواہ ہے کہ اس کی دوستی اور دشمنی ہمیشہ مفادات کیساتھ وابستہ ہوتی ہے مطلب نکل جانے پر امریکہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتا ہے اور کل اسی مطلب کیلئے اس نے پاکستان کو روس کے خلاف استعما ل کیا تھا اور آج پھر اسی مفاد پرستی کیلئے امریکہ بھارت کو چین کے خلاف تیار کررہاہے اور بغیر ٹریکنگ ڈیوائس کے بھارت کو جوہری آلات کی فراہمی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

اس کیساتھ ساتھ امریکہ نے بھارت کو سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت دینے کی کوششیں کرنے کا عزم بھی کیا ہے حیرت ہے کہ امریکہ ایسے بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کیلئے بیتاب ہے جس کے ہاتھوں پر لاکھوں کشمیریوں کا خون ہے، جس کے ہاتھوں سے بھارت میں بسنے والی کوئی اقلیت محفوظ نہیں جہاں عورتوں اور بچوں پر تشدد کے واقعات دنیا میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں ،جہاں ہر مذہب کی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو جلایا جاتا ہے اور جس کی بلوچستان میں دہشتگردی کے ناقابل تردید ثبو ت امریکہ کو دے چکا ہے یہ حقائق امریکہ کی دوغلی اور منافقانہ پالیسی کو بے نقاب کرنے کیلئے کافی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان اور چین بھی اس گٹھ جوڑ سے بے خبر نہیں ہیں اور ٹھیک اوباما کے دورہ بھارت کے دوران پاکستانی جنرل راحیل شریف چین پہنچ چکے تھے جہاں پاک چین قیادت نے اتحاد و یکجہتی کے عزم کا بھرپور اور بروقت اعادہ کیا اور اسی کا نتیجہ ہی تھا کہ بھارتی وزیراعظم اور متعصب انڈین میڈیاپاکستان کے خلاف ماضی کی طرح زہر یلی زبان استعمال نہ کرسکے۔

امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو اس بری طرح نظرانداز کرتے ہوئے بھارت جانے اور اس کے ساتھ تجارت اور جوہری معاہدوں کے بعد پاکستان کو بھی اب امریکی چھتری سے باہرنکل آنا چاہئے اور ایک آزاد ایٹمی اسلامی مملکت کی حیثیت سے اپنی بہترین خارجہ پالیسی ازسرِ نو ترتیب دینی چاہیے ۔اگر پاکستان امریکی اثرورسوخ سے خود کو باہر نکال کر اپنے مفادات کے پیش نظر پالیسیاں تشکیل دے تو چین کے علاوہ دیگر ممالک بھی پاکستان کو جوہری توانائی فراہم کرنے کو تیار ہیں مگر بات صرف مضبوطی سے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے اور اپنی طاقت کو پہچاننے کی ہے ۔

جنوبی ایشیا میں ہونے والی حالیہ تبدیلیاں یہ بتارہی ہیں کہ خطے میں طاقت کے مراکز تبدیل ہورہے ہیں روس اور بھارت کے اتحاد کی بجائے مستقبل میں چین پاکستان اور روس پر مشتمل ایک نیا مضبوط بلاک سامنے آسکتا ہے جودنیا کے کسی بھی بڑے گروپ اور یونین سے طاقتور ہوگا ۔ بیشک بھارت کی وسیع و عریض منڈیاں پوری دنیا کیلئے بڑی کشش رکھتی ہیں مگرامریکہ سمیت عالمی برادی بڑے شوق سے بھارت سے تعلقات قائم کرے مگراسے یہ ہرصورت یاد رکھنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی وابستہ ہے جہاں کی سرزمین 67برسوں سے بھارتیوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لہو اگل رہی ہے۔

اوبامہ کے دورہ بھارت اور راحیل شریف کے دورہ چین کو حالیہ دنوں میں سرحدپر ہونے والی بار بار کی کشیدہ صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کیوں کہ 71ء کی جنگ میں امریکہ نے واضح طور پر پاکستان کے ساتھ دغا کیا تھا اور خدانخواستہ اگر اب کی بار ایسی نوبت آتی ہے تو چین پاکستان کا ایسا قابل اعتماد دوست ہے جس پر ہم اعتبار کرسکتے ہیں اور چین نے اس دورے کے دوران یہ کہہ کر بھارت اور امریکہ کو کھلے لفظوں میں یہ بتابھی دیا ہے کہ پاکستان کے خدشات چین کے خدشات ہیں جنوبی ایشیا کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو بھی اب خطے میں بلکہ عالم اسلام میں ایک متحرک کردار اداکرنا چاہئے اور اس کیلئے سب سے پہلے اپنی خارجہ پالیسیوں کو خود مختار بنانا انتہائی ضروری ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :