شرم تم کو مگر نہیں آتی

جمعہ 30 جنوری 2015

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

کہتے ہیں کہ جب آندھی آتی ہے تو وہ اُن درختوں کا تو خاتمہ کرتی ہی ہے جو اس کی راہ میں رکاو ٹ بن رہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ نرم و نازک اور کچے پودے بھی اس کے عتاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جنہوں نے اپنی پہلی سالگرہ بھی نہیں منائی ہوتی ۔ مصیبت کبھی پوچھ کر نہیں آتی مگر جب آتی ہے تو کسی ایک شخص کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم کے لیے آتی ہے۔

مسلمان قوم ، خصوصاً پاکستانیوں کے سامنے آئے روز مصیبتوں اور آزمائشوں کے عفریت منہ کھولے کھڑے ہیں ۔ ایک مصیبت سے جان چھوٹی نہیں ہوتی کہ دوسری آن دامن گیر ہوتی ہے ۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ایسے بہت سے سوالات کا جواب ہمیں خود ہی نظر آتا ہے
ہماری قوم کی حالت اس وقت یہ ہوچکی ہے کہ ”موت ارزاں ، اناج گراں ہے “ ۔

(جاری ہے)

چند روپوں کی خاطر انسانی جان کا قتل ہو رہا ہے ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ کراچی پولیس نے ایک نوجوان لڑکے کو گرفتار کیا جس نے محض دو ہزار روپے کی خاطر ایک فیکٹری مالک کو قتل کر دیا تھا ۔ اس قتل کے علاوہ نجانے کتنے اور لوگ ہوں گے جو اِس خونی کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے اور ابھی تک پسِ پردہ ہیں ۔ علاوہ ازیں ملک کے بیشتر علاقوں میں ایسے ایسے کرائے کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں جو 65/35 کے مطابق مُک مُکا کر رہے ہیں ۔

حال ہی میں ایک ایسے گروہ کا بھی انکشاف ہو اہے جو فقط 5ہزار روپے دینے پر کسی کا بھی قتل کر سکتا ہے ۔ شوہر کے ہاتھوں بیوی کا زندہ جلایا جانا بھی تیزی سے رواج پا رہا ہے اور عاشقِ نامراد کے ہاتھوں اپنی محبوبہ کے چہرے کو تیزاب سے مسخ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اُسے اپنی محبوبہ سے عشق نہ تھا بلکہ ھوس تھی ، عشق ہوتا تو وہ لمحہ لمحہ خود ہی مرتا اور عاشقی کے اُس مقام کو چُھو لیتا جو تمنا بے تاب ہونے کے باوجود بھی صبر طلب ہوتا ہے ۔

اِسی طرح مدرسوں کے بعض نام نہاد قاریوں کا اپنے ہی طالب علموں کو درندگی کا نشانہ بنا کر پھندوں پر لٹکانا اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ آج ایسے انسان ، انسان نہیں بلکہ انسانی قلبوت میں ڈھکے ہوئے شیطان ہیں جو موقع ملنے پر اپنی ہوس کی آگ بجھاتے ہیں ۔
ہمارے مذہب کی یہ تعلیم ہے کہ مصیبت میں صبر اور نماز سے مدد لو لیکن افسوس کہ ہمارے ہاتھ سے صبر کا دامن تو کب کا چھن چکا اور مسجد کے مقابلے میں ہم نے خانقاہوں کو ترجیح دینا شروع کر دی ۔

رشک کی بجائے حسد کرنے لگے اور اپنا کام سنوارنے کی بجائے دوسرے کاکام بگاڑنا ہماری خوشی بن گیا ۔ اپنی تنخواہ کی بجائے دوسروں کی تنخواہ پر نظر رکھنے لگے ۔ پرائے مال پر عیش کرنا اپنا پسندیدہ مشغلہ ٹھہرا اور لگے دونوں ہاتھوں سے حرام کاما ل سمیٹنے ۔ اپنے ذرا سے فائدے کے لیے دوسرے کا بہت بڑا نقصان بھی کر دینا معمولی کیس سمجھا جانے لگا ۔

آج ہمارے پاکستانی بھائیوں نے دغا بازی اور فراڈ کے ایسے ایسے طریقے اپنا لیئے ہیں جن کے آگے جھوٹ ، چوری چکاری ، مکاری ، بد دیانتی ، قما ر بازی ، لوٹ کھسوٹ اور منافقت جیسے الفاظ بہت چھوٹے ہو چکے ہیں ۔ ان چند معاشرتی برائیوں کے علاوہ مسلمانوں میں سے اکثریت نے مذہب سے مکمل دوری اختیا ر کر رکھی ہے ۔ قرآن مجید کو صرف اور صرف ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا نہ کہ زندگی گزارنے کا ایک مکمل ضابطہٴ اخلاق ۔


ہماری قوم پر آفات در آفات کے سلسلہ کی جہاں دوسری بہت سی وجو ہات ہیں ، وہاں ایک بہت نمایاں وجہ قرآن و حدیث سے قطعہ تعلقی ہے ۔ پچھلے دنوں کی بات ہے میں اپنے ایک بہت ہی پیارے بھائی جان کے گھر گیا۔ انہوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا جسے سن کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔ وہ واقعہ میں قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں ۔
انہوں نے بتایا کہ وہ عادتاً ہفتے میں چند روز قبر ستان کا چکر لگاتے ہیں ۔

ایک دن وہ حسبِ معمول قبرستان میں موجود تھے کہ انہیں ایک بوری نظر آئی جس میں کچھ بھرا ہوا تھا ۔ بوجہٴ تجسس جب انہوں نے اس بوری میں ہاتھ ڈال کر دیکھا تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اُن کے ہاتھ قرآن مجید کا ایک انتہائی خوبصورت نسخہ لگا ۔ اس کے بعد مزید دوسرا قرآن ، پھر تیسرا قرآن اور پھر چوتھا قرآن ۔ انہوں نے بتایا کہ آٹھ دس قرآ ن مجید اس بوری میں بند کر کے وہاں پھینکے گئے تھے ۔

اس تمام واقعہ کو سننے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ شائد کسی نے خستہ حالت میں قرآنی نسخوں کو وہاں بوری بھر کر رکھ دیا ہو ۔ میں نے بھائی جان سے کہا کہ مجھے بھی ان میں سے کوئی ایک نسخہ دکھایا جائے ۔ وہ ساتھ والے کمرے میں گئے اور فوراً ایک قرآنِ مجید مجھے آن پکڑایا ۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر پکڑا تو انتہائی خوبصورت رنگین قرآن پاک جس کی جیکٹ بھی ابھی نئی تھی ۔

میں نے جیکٹ میں سے باہر نکال کر چند آیا ت پڑھیں ، دل اس وقت فرطِ جذبات سے سنبھالنا مشکل تھا ۔ اس نسخے کو چھاپنے والی کمپنی کو دیکھا تو سعودی عرب کی پرنٹنگ ایجنسی سے چھپا ہوا تھا ۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ قرآن کے یہ نسخے وہ اپنے دوستوں کو بطور تحائف دے رہے ہیں جو قرآن مجد کو یقیناً پڑھنا چاہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اُسی قبرستان میں ذرا آگے ایک کنواں ہے اور لوگوں نے قرآن مجید کے بہت سے نسخے اس کنویں میں بھی پھینک چھوڑے ہیں ۔


اس واقعہ کو سننے کے بعدمیں تو حیرت کی تصویر بن کر رہ گیا ، ان ”مسلمانوں “کی عقل پر ماتم کرنے کو دل چاہ رہا تھا جو ایک خدا اور ایک رسول پر ایمان کے تو دعوے دار ہیں لیکن اپنے لیئے خدا کے نازل کردہ ضابطہٴ اخلاق کو عام ردّی کا کاغذ کا سامقام دے کر اپنے گھروں سے نکال باہر کیا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر کوئی عیسائی انجانے میں قرآن مجید کی بے حرمتی کا ارتکاب کر بیٹھے تو ہمارے اندر کا ”مسلمان “ بڑھکیں مارتا ہے ، اور عیسائی جوڑے کو زندہ ہی نذرِ آتش کر دیا جا تا ہے لیکن بطور ایک مسلمان ہمارے ہی بھائی قرآن کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں کیا یہ بے حرمتی نہیں ؟ آج ہم میں سے اکثر نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جب ہم نے قرآن کو پڑھنا ہی نہیں یا پڑھنا چاہتے ہی نہیں تو پھر اسے گھروں میں کیوں رکھیں ۔

ہم خود تو اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہیں اور اوپر سے شکوہ ہے کہ ہمارے اچھے دن نہیں آتے ، مصائب ہمیں ہی کیوں گھیرتے ہیں ۔آج سے تقریباً 14سال پہلے نذیر احمد گجر المعروف ُ’نذیر دھماکہ“ نے جمبر کے مقام پر تبروک فیکٹری میں ایک کنوئیں کا انکشاف کیا تھا جہاں پر قرآن مجید کے ٹرکوں کے ٹرک پھینک کر گتہ تیار کیا جاتا تھا۔

چند روز یہ بات میڈیا پر گھومتی رہی ، مختلف تنظیمیں آ کر معلومات اکٹھی کرتی رہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ معاملہ نوٹوں کے بوجھ تلے دبتا دباتا بالآخر زبانِ گنگ بن کر رہ گیا۔
روزِ محشر جب بارگاہِ ایزدی میں حساب چکانا پڑیگا اور قران مجید بہت سے اپنے قارئین اور اسکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے لوگو ں کی بخشش کی سفارش کرے گا تو اُس وقت یہی مہجور قرآن اِن بد بختوں کے کیے گئے سلوک کا پردہ چاک کرے گا اور یقیناً یہ لوگ راندہ درگاہ ہوں گے اور اپنے بد تر انجام کو پہنچیں گے ۔

اس کے بر عکس میرے پیارے بھائی جان سمیت، وہ خوش نصیب لوگ جنہوں نے قرآن کے ان نسخوں کو سینے سے لگا لیا اور تلاوت کرنے والے ہاتھوں تک دوبارہ پہنچا دیا،جب حشر برپا ہوگا تو کس قدر سر بلند کھڑے ہونگے (انشا ء اللہ)۔
دنیا کی زندگی مذکورہ جرائم کرنے والے لوگوں کے لیے ایک موقع ہے اپنے آپ کو صراطِ مستقیم پر لانے کا وگرنہ اُس روزکس منہ سے اس الہامی کتاب کا سامنا کریں گے ۔ بقول مرزا غالب
کعبے کس منہ سے جاؤ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :