کشمیری پنڈتوں کا خروج…مصلحت یا مجبوری؟

بدھ 28 جنوری 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

19/جنوری کو کشمیری ہندووٴں،جنہیں کشمیری پنڈت بھی کہا جاتا ہے،کو وادی بدر ہوئے پچیس سال پورا ہوئے ہیں تاہم یہ بحث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی ہے کہ اِن لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر جموں اور دوسرے علاقوں میں ٹھہرنے کے لئے کسی نے آمادہ کیا تھا یا پھر مجبور…!
حالانکہ کشمیر کی اکثریت اِس بات پر یقین کئے ہوئے ہے کہ پنڈتوں کو سابق گورنر جگموہن نے ایک سازش کے تحت وادی بدرہونے پر آمادہ کیا تھا تاہم اِس معاملے کو لیکر برسوں سے سیاست کرتے آرہے حلقوں کی جانب سے مذکورہ یقین کو رد کر دئے جانے پر بڑی توانائی خرچ ہو رہی ہے۔

البتہ سینئر کانگریس لیڈر دِگوجے سنگھ نے پنڈتوں کی جلا وطنی کے 25/سال پورا ہونے پر اِس پورے معاملے کو جگموہن کی کارستانی بتا کر گویا اُن لوگوں کی دُم پر لات رکھی ہے کہ جو دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں بوڑھے ہوئے جا رہے ہیں کہ مُسلمانوں نے دھمکیاں دے دے کر پنڈتوں کو کھدیڑ دیا تھا۔

(جاری ہے)


گو پنڈتوں کے وادی بدر ہو جانے کے بعد سے ابھی تک اِس حوالے سے ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے شائد ہی کوئی موقعہ چھوڑ ا ہوگا کہ جب رِیاستِ جموں و کشمیر کے ہی ایک اور صوبہ(جموں)میں رہ رہے اِن ہندووٴں کے لئے آواز نہ اُٹھائی گئی ہو۔

تاہم درونِ خانہ اِس جِلا وطنی کی ہر سالگرہ پر اِس سے متعلق خصوصیت کے ساتھ مباحثے چھیڑے جاتے ہیں سو ابھی بھی چھیڑا گیا۔اِسی سلسلے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کانگریس کے صفِ اول کے لیڈروں میں شمار دِگوجے سنگھ نے ایک ایسا بیان دیا جو حالانکہ پہلی بار سامنے آنے والاکوئی اِنکشاف تو نہیں ہے البتہ اُن لوگوں کے پیٹ میں درد اُٹھانے والا ضرور ہے کہ جو کشمیری پنڈتوں کے مسئلے کو” خاص مقاصد “سے ایک خاص رنگ دینے کی کوششیں کرتے نہیں تھکتے ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک ٹویٹ میں،جو اب متنازعہ ہو گیا ہے،دِگوجے سنگھ نے کہا ”کشمیری پنڈتوں کو جگموہن نے غیر ضروری طور وادی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔کشمیر میں تو ہندو اور مُسلم صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں“۔اِتنا ہی نہیں بلکہ سینئر کانگریس لیڈر نے مزید کہا ہے کہ وہ اِس بات پر مغموم ہیں کہ مختلف سرکاروں نے پنڈتوں کو آباد نہیں کیا ہے۔

بی جے پی کی حامی جماعتوں کی جانب سے تبدیلیٴ مذہب کے لئے چلائی جارہی ”گھر واپسی“مہم کی چُٹکی لیتے اور اِس معاملے کو پنڈتوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے دِگوجے سنگھ نے مزید کہا ہے”اگر کوئی گھر واپسی کا مستحق ہے تو وہ کشمیری پنڈت ہیں“۔چناچہ مسٹر سنگھ کے اِس بیان پر نہ صرف نام نہادپنڈت قائدین چراغ سیخ پا ہو گئے ہیں بلکہ دِگوجے سنگھ پرہندوستان کو بدنام اور پاکستان کا دفاع کرنے تک کے الزام لگائے گئے۔

صحافت کی ایک ”نئی صنف “کے موجد ایک انگریزی نیوز چینل کے اینکر ارنب گوسوامی نے تو "Blaming India, Shielding Pakistan"کے عنوان سے ایک خاص مباحثے کا اہتمام کرکے مدعو مہمانوں سے دِگوجے سنگھ کو بہت بُرا بھلا کہلوایا اور خود جگموہن پر اُنگلی اُٹھانے کو ہندوستانی ریاست پر اُنگلی اُٹھانے کے مترادف بتاتے ہوئے سنگھ اور اُنکی پارٹی کانگریس کو قوم سے معافی چاہنے کی سزا بھی سُنائی۔

ٹھیک اُس طرح کی جیسے ایک تُرش باپ اپنے کسی شریر بچے کو غضبناک انداز میں چھڑی دکھاتے ہوئے سدھرنے کا آخری موقعہ دستیاب ہونے کی بات کہتا ہے ارنب گوسوامی مباحثے میں شریک کانگریس کے نمائندہ رشمی کانتپر دباوٴ بناتے ہوئیکہچِلا رہے تھے”دِگوجے سنگھ اور کانگریس کی جانب سے معافی مانگنے کا ابھی آپ کے پاس آخری موقعہ ہے “۔رشمی کانت کی جانب سے دِگوجے سنگھ کے بیان میں ”کچھ صداقت“بتانے کو لیکر مباحثے کے اینکر اور بی جے پی کے نمائندہ نیلن کوہلی اور اِس پارٹی کی سوچ کے حامل نام نہاد پنڈت نمائندوں،انوپم کھر اور اشوک پنڈت، نے کانگریس لیڈرکویوں گھیرا کہ جیسے سکیورٹی کے کسی اِدارے کو کسی شخص پر بم لیجانے کا شک ہوا ہو۔


اُدھر اپنے آپ کو ہندوستان کے واحد دیش بھکت کے بطور پیش کرنے والے اینکر، کشمیری مُسلمانوں کو پنڈتوں کے خروجکے الزام سے” برأت دینے کے جُرم “میں، کانگریس کو سزا کا مستحق ٹھہرا رہے تھے اِدھر خود بی جے پی سے وابستہ ایک پنڈت لیڈر ایسے ہی ”جُرم“ کا ارتکاب کرنے کی جُرأت کر رہے تھے۔دِگوجے سنگھ کے بیان پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی لیڈر اشوک کول نے نہ صرف پنڈتوں کے وادی سے اخراج کے لئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا بلکہ یہ اِنکشاف کیا کہ وہ بذاتِ خود کانگریس لیڈروں کو پنڈتوں کو مجبور کرتے دیکھ چکے ہیں۔

ایک انگریزی اخبار کے ساتھ گفتگو میں کول نے کہا ہے”جموں و کشمیر کی صورتحال کے لئے فقط کانگریس ہی ذمہ دار ہے۔اُنہوں(کانگریسیوں)نے لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا۔میں خود 19/جنوری1990ئکی رات کا گواہ ہوں جب کانگریس لیڈروں نے پنڈتوں کو وادی چھوڑ کر جانے پر مجبور کر دیا“۔اشوک کول کے بیان میں ایک خاصیت یہ ہے کہ اُنہوں نے پنڈتوں کے وادی سے خروج کے لئے مُسلمانوں کو ذمہ دار ثابت کرنے کے لئے جھوٹ کے سبھی ریکارڈ توڑتے جارہے دیگر ”دانشوروں اور لیڈروں“کے برعکس ایک طرح سے گورنر جگموہن پر عائد الزامات کے درست ٹھہرایا۔

اشوک کول نے تاہم جگموہن کا کانگریس کے ساتھ تعلق جوڑتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ،بقولِ اشوک کول کے،جگموہن نے یہ سب کانگریس کے کہنے پر کیا۔اشوک کول کے حوالے سے مذکورہ اخبار نے لکھا ہے”کانگریس نے تو بلا واسطہ (دِگوجے سنگھ کے)اِس بیان سے سب کچھ صاف کر دیا ہے کیونکہ ایک وقت تھا کہ جب جگموہن کو سنجے گاندھی کا دست راست کے بطور جانا جاتا تھا“۔

کشمیری مُسلمانوں کو پنڈتوں کے اِخراج سے متعلق بری کرتے ہوئے اشوک کول نے کہا ہے”وادی کے لوگ تو معصوم ہیں اور اُنکا پنڈتوں کے وادی سے اِخراج کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے“۔
پھر یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مین سٹریم کے کسی نامور شخص نے سابق گورنر جگموہن کو کشمیری پنڈتوں کی جِلا وطنی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہو۔کانگریس کے ہی ایک اور سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر منی شنکر ائیر نے اپنی کتاب ”ایک سیکیولر بنیاد پرست کے اعترافات“میں تفصیلاََ لکھا ہے کہ جگموہن نے وادی میں دہشت مچانے سے قبل کس طرح پنڈتوں کو یہاں سے نکال دیا۔

نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے گذشتہ سال اپریل میں بحیثیتِ وزیرِ اعلیٰ کے یہ بیان دیا تھا کہ وادی سے پنڈتوں کا اِخراج جگموہن کی کارستانی تھی۔عمر عبداللہ کا کہنا تھا”وادی سے پنڈتوں کا خروج، بی جے پی کی حمایت والی تب کی مرکزی سرکارکے تعینات کردہ گورنر ،جگموہن کے دور میں عمل میں آیاہے“۔اپنے چھ برس کے طویل دورِ اقتدار میں پنڈتوں کو وادی واپس لے آنے میں کامیاب نہ ہو پانے والے عمر عبداللہ کا ابھی کہنا ہے کہ مرکزی سرکار کو پنڈتوں کی وادی واپسی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔

اپنے ایک ٹویٹ میں اُنہوں نے کہا ہے”25/سال ایک عمر ہوتی ہے،اگر گھر واپسی کرنی ہی ہے تو بی جے پی اور باقی ہم سب کو یقیناََ اِسی ایک(گھر واپسی)پر توجہ کرنی چاہیئے“۔بی جے پی ہو،کانگریس یا کوئی اور سیاسی جماعت وقت وقت پر اِن کے بیانات اور موقف میں سیاست کا دخل خارج از امکان نہیں ہے لیکن ریاست کے سابق پولس چیف مسٹر جی این سکسینہ کے یہ الفاظ تاریخ میں درج ہیں کہ اُنہوں نے گورنر موصوف کو پنڈتوں کی نقل مکانی کی حوصلہ افزائی کرنے سے باز رہنے کی تلقین کی تھی۔


1989ءء میں جموں و کشمیر کی علیٰحدگی پسند تحریک کے مسلح ہوجانے پر افراتفری کے عالم میں امن و قانون کی حالت تتر بتر ہوگئی تھی۔اِن حالات میں جہاں جنگجووٴں نے سینکڑوں مسلمانوں کو اِنکی سیاسی وابستگیوں ،سرکاری فورسز کے لئے مخبری کرنے اور اس طرح کی مختلف وجوہات کے لئے ہلاک کیا وہیں بعض پنڈت بھی امن و قانون بنائے رکھنے والے اِداروں کو ہلا کر رکھ دینے والے اِن حالات کا شکار ہو گئے۔

چناچہ ابھی صورتحال کا پوری طرح اِدراک نہیں ہو پارہا تھا کہ پنڈتوں نے ایک منظم طریقے پر وادی بدر ہونے کا فیصلہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پنڈتوں کی بستیاں خالی ہو گئیں۔بعد ازاں یہ راز فاش ہوا کہ اِس اقلیتی فرقے کو فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے گورنر جگموہن نے اِس منصوبے کے تحت ”کچھ دیر کے لئے“جموں چلے جانے کے لئے کہا تھا کہ علیٰحدگی پسند تحریک کو کچلنے کو دوران کہیں اِن(پنڈتوں)کو خراش نہ آ جائے ۔

دلچسپ مگر افسوسناک ہے کہ کشمیری پنڈتوں کے19/جنوری1990ء کو اچانک ہی وادی سے چلے جانے کے محض ایک دن بعد لالچوک کے بغل میں گاوٴ کدل نام کی جگہ پر گورنر کی فورسز نے ایک عوامی جلوس پر بندوق کے دہانے یوں کھول دئے کہ قیامتِ صغریٰ برپا ہوگئی۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اِس دن آن کی آن میں 21/نہتے مظاہرین مارے گئے تھے حالانکہ حقوقِ انسانی کی علمبردار تنظیموں کے مطابق در اصل 51/افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

پنڈتوں کے وادی بدر ہونے سے متعلق راز کے فاش ہونے پر یہ بھی معلوم ہوا کہ پنڈتوں کے ساتھ اِنہیں جلد ہی عزت و وقار کے ساتھ واپس لے آنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔تاہم جگموہن کا اندازہ غلط ثابت ہوا اور علیٰحدگی پسند تحریک کو سخت ترین اِقدامات کئے جانے کے با وجود بھی نہیں دبایا جا سکا اور یوں پنڈتوں کا فوری طور اپنے گھروں کو واپس لوٹ آنا دشوار ہو گیا۔

حالانکہ شورش زدہ وادی میں اب بھی ایسیزائد از آٹھ ہزار پنڈت امن کے ساتھ رہ رہے ہیں کہ جنہوں نے اپنے گھر نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ لوگ ابھی بھی یہاں کے مسلمانوں سے نہ صرف مطمعین ہیں بلکہ برملا طور اظہارِ تشکر بھی کرتے ہیں۔نقل مکانی کر کے گئے کشمیری پنڈت فی الوقت جموں ،دِلی اور ہندوستان کے دیگر شہروں میں اِنہیں سرکار کی جانب سے فراہم کئے گئے گھروں میں آباد ہیں اور ماہانہ فی نفر ہزار وں روپے کا مشاہرہ پا تے ہیں۔

راجیو چُنی نام کے ایک سماجی کارکن کی جانب سے 2012ئمیں حقِ اطلاعات کے قانون کے تحت حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق 31/مارچ2012ء تک پنڈتوں کو حکومتِ ہند نے 22,665/کروڑ روپے کی خطیر امداد دی تھی جبکہ اسکے بعد 2/لاکھ کشمیری پنڈتوں کے حق میں مزید 12,000/کروڑ روپے کی امداد فراہم کی گئی ہے۔چُنی کہتے ہیں کہ اِسکے علاوہ1990ئسے لیکر ابھی تک پنڈتوں کے لئے14/اقتصادی پیکیج منظور کئے گئے ہیں۔


چناچہ وادی سے چلے جانے کے بعد پنڈتوں کی درجنوں ایسی تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں جنہوں نے براہِ راست کشمیر کے اکثریتی مسلمان فرقہ کے خلاف اِس طرح کا پروپگنڈہ شروع کیا کہ جیسے ہزاروں پنڈتوں کو ہلاک کیا گیا ہواورجیسے ہر کشمیری مسلمان پنڈتوں کے پیچھے بندوق لیکر دوڑ رہا ہو۔پنڈتوں نے پروپگینڈہ کے لئے کئی ویب سائٹس لانچ کی ہوئی ہیں جن میں وادی میں ان پر ہوئے ”ظُلم“کو مسلمانوں کے سر چڑھایا گیا ہے۔

تاہم 2008ء میں سرکار کی جانب سے جاری کی گئی ایک رِپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں جاری علیٰحدگی پسند تحریک کے مُسلح ہوجانے کے بعد سے کُل209/پنڈت ہلاک ہو گئے ہیں ۔انسانی زندگی بڑی محترم ہے اور اِسلئے ایک انسان کے قتل کو پوری اِنسانیت کا قتل کہا گیا ہے لیکن کئی سال کے دوران دو سو پنڈتوں کی ہلاکت کوبے شرمی کے ساتھHolocaust نام دینے والے فرقہ پرستوں، کشمیری پنڈتوں،اور سرینگر سے نئی دلی تک کی سرکاریں چاہتے ہوئے بھی اِس بات سے اِنکار نہیں کر سکتی ہیں کہ ریاست کے مُسلمانوں کو قریب ایک لاکھ جنازوں کو کاندھا دینا پڑا ہے۔

اِتنا ہی نہیں بلکہ اِنسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کے مطابق دس ہزار بد نصیب ایسے ہیں کہ جو سرکاری ایجنسیوں کی حراست میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لا پتہ ہو چکے ہیں۔19/جنوری کو جب مساوات و جمہوریت کے دم بھرنے والی تنظیمیں اور ٹیلی ویژن چینل کئی سال کے دوران باغیوں کے ہاتھوں مرے209/پنڈتوں کے ”ہو لوکاسٹ“پر ماتم منارہی تھیں سرینگر کے گاوٴ کدل میں بھی اُن51/معصوموں کی برسی منائی جا رہی تھی کہ جنہیں باغیوں کی بجائے قانون کے محافظ وردی پوش فورسزنے پلک جھپکتے ہی ڈھیر کر دیا تھا۔

فرق یہ ہے کہ200/اموات کو ”ہولوکاسٹ “ثابت کرنے کے لئے گرجدار آوازیں دستیاب ہیں جبکہ قریب ایک لاکھ قتل کی قیامت دیکھنے والے قبیلے کے پاس اِتنے وسائل بھی نہیں ہیں کہ وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو رد کر وا سکے۔اِنصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں 209/پنڈتوں کی ہلاکت کو ”ہولوکاسٹ“کا نام دیکر اِس پر رُکے بغیر رویا جائے اور دُنیا کو بھی رُلایا جائے وہیں قریب ایک لاکھ مسلمانوں کے قتل کے لئے بھی ڈِکشنری میں کوئی اصطلاح تلاش کی جائے اور اِن بد نصیبوں کو بھی یاد کیا جائے…!
وادی بدر ہوکر جموں یا کہیں بھی رہنے والے کشمیری پنڈت با العموم اور گھر چھوڑ کر نہ جانے والے وہ پنڈت خاندان کہ جو اب بھی وادی میں ہی رہتے ہیں با الخصوص تب اندر ہی اندر بہت شرمندہ ہو گئے ہونگے کہ جب فلم اداکار انوپم کھر گذشتہ دِنوں ایک ٹیلی ویژن شو میں ہمالیہ جیسا بڑا یہ جھوٹ کہہ رہے تھے کہ لاکھوں کشمیری مسلمانوں نے مشعالیں جلاکر پنڈتوں کے گھروں کے باہر ہنگامہ کھڑا کیا تھا اور اُنہیں اپنی عورتوں کو چھوڑ کر فوری طور وادی چھوڑ کر جانے کی دھمکیاں دی تھیں۔

فِلمستان میں کشمیری پنڈتوں کی ذات کھر تک کو بدل کر کھیر کر چکے انوپم اچانک ہی پنڈتوں کے درد سے کراہنے لگے ہیں اور ایسے میں وہ یہ تک بھول گئے کہ وہ اُن مسلمانوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ جنہوں نے نہ صرف قدرتی موت مرنے والے کتنے ہی پنڈتوں کا نہ صرف کِریا کرم کیا ہے بلکہ حالیہ سیلاب کے دوران اپنی جان پر کھیل کر کشمیری مسلمان بچوں نے کئی پنڈتوں اور اُنکے بچوں کو گویا موت کے منھ سے واپس لایا۔

انوپم کھر کو تو کشمیر آکر یہاں مسلمانوں کے تعاون سے خوش و خرم رہنے والے پنڈت خاندانوں سے ملکر اصل صورتحال کا جائزہ لینے کی تو فرصت نہیں ہوگی تاہم وہ ”اداکاری“سے تھوڑا فرصت نکال کر گوگل کریں تو وہ اُنہیں پنڈتوں کے تئیں مسلمانوں کی جانثاری اور ایثار کی ایسی کئی کہانیاں ملیں گی کہ جنہیں کوئی غیر متعصب فِلمسازدیکھے تو شاہکار فِلیں بنادے۔


اِنسانی المیات کو ایک ہی ترازو میں تولا جانا چاہیئے اورمعاملہ واقعی کسی تعصب کے بغیر حصولِ اِنصاف کا ہوتو ذات پات کی بنیاد پر المیات کی زُمرہ بندی کا مذموم عمل بند ہوجانا چاہیئے۔بات دو سو پنڈتوں کے مرنے یا اُنکے نقلِ مکانی کر جانے کی ہو یا پھر اکثریتی طبقہ کے لاکھ بھر اِنسانوں کا قتل اور اُنکی کھربوں روپے کی جائیداد کی تباہی کی ،دونوں مذموم بھی ہیں اور افسوسناک بھی ۔

پنڈتوں کی نقلِ مکانی پر افسوس کرنا غلط نہیں ہے اور نہ ہی اُنہیں واپس وادی لے آنے کی سنجیدہ کوششیں کرنا۔حالانکہ یہ بات الگ ہے کہ وادی سے جا چکے پنڈت سرکاری مراعات میں اِس قدر غرق ہیں کہ وہ شائد ہی دل سے واپس کشمیر جیسے پسماندہ علاقہ میں آباد ہونا چاہتے ہوں جیسا کہ اِس سمت میں ابھی تک ہوئی سرکاری کوششوں سے محسوس ہوتا رہا ہے۔البتہ ریاست کی اکثریتی آبادی کو پُشت بہ دیوار کرنے کے لئے اور ا،نکی نسل کُشی کے لئے وجوہات بنانے کی غرض سے چیزوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا بہر حال غلط ہے۔

اِس حوالے سے پنڈتوں ،با الخصوص اُن خاندانوں کہ جو ابھی بھی وادی میں اپنے گھروں میں کسی پریشانی کے بغیر رہ رہے ہیں،کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مفادِ خصوصی رکھنے والوں کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنیں،سچائی کو اُجاگر کرکے وہ یقیناََ اپنے ،نقلِ مکانی کر چکے اپنے لوگوں اور وادی کی اکثریتی برادری کے لئے ایک پُر امن ماحول بنانے میں مدد دے سکتے ہیں…کیا وہ اپنی ذمہ داری نبھائیں گے بھی؟(بشکریہ عالمی سہارا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :