دلوں کی دیواریں گرا کر تو دیکھو

پیر 26 جنوری 2015

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالک ِ کائنات، خدائے برحق و لایقِ عبادت، اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے، جو ازل سے ابد تک میرے جدِّامجد اور میرا کھلادُشمن ٹھہرا۔
میں ڈائریکٹر پروگرامز محترم عرفان اصغرصاحب کے سنگ ضروری امور پر گفت وشنید میں مشغول جدائی کے موضوع پر بات کر نے کے ساتھ ساتھ اپنے تحفضات بھی بیان کر رہا تھااور اسی کے پیشِ نظر وہ میری رہنمائی فرما رہے تھے ۔

لفظِ جدائی یقینا بدترین لفظ ہے اور شائید اسی وجہ سے ہم بھی کسی نتیجہ پر نہ پہنچ پائے اور آیندہ نشست کی غرض سے موضوع کو ادھورہ چھوڑنے پر اکتفا تو کر لیا لیکن اس دوران موضوع سے ہٹتے ہوئے انہوں نے بہت خوبصورت اور گہرائی سے بھرپورجملہ کہاجو مشہور و معروف پروگرام ” مذاق رات “ کے ہر دلعزیزسیگمنٹ ” جوگی“ میں چاند برال پر عکسبندکیا گیا ۔

(جاری ہے)

پروگرام کے دوران جوگی اپنے مخصوص انداز میں آن ٹپکتا ہے اور طنزومزاح پر مبنی جملے کستے اپنی پٹاری کو زمین پر اس غرض سے رکھتے ہوئے ”منتر“ پڑھتا ہے کہ سانپ نکال کر اپنی فنی صلاحیتوں کی بدولت کچھ دیر کھیل تماشہ پیش کرنے کے بعد داد وصول کرتے ہوئے چلتا بنے گالیکن پٹاری کھولنے پر سانپ کی جگہ اینٹ پاتا ہے تو پروگرام کے میزبان نعمان اعجاز کے طنزیہ پوچھنے پر (کہاں رہ گیا تمہارا سانپ اور کیا بنا تمہارے منتروں کا) جوگی نہائت معصومیت سے جواب دیتا ہے صاحب آج کل اینٹیں بھی کسی سانپ سے کم نہیں ہیں، پہلے پہل اینٹوں کو بطور گھر بنانے کے استعمال میں لایا جاتا رہا پھر یہی اینٹیں گھروں میں بٹوارے کا باعث بننے لگیں جس کی وجہ سے خاندان محض تقسیم ہو رہ گئے اور آج انہیں اینٹوں کو (اپنے ننھے فرشتوں کی دہشت گردی سے حفاظت کے لیے) اسکولوں کی دیواریں اونچی کرنے میں استعمال کر رہے ہیں حالانکہ ضرورت دیواریں اونچی کرنے کی نہیں ہے ( اصلیت میں ہماری ہی طرح ایک اللہ ورسول ﷺ پہ یقین والے ہمارے ہی بھائی (طالبان) دشمن کے بچھائے جال میں بہت بری طرح پھنس چکے ہیں اور دشمن کی چالوں پر (غلطی سے) عمل کرتے ہوئے اپنے ہی نبی آخروزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی امت (پاکستانیوں) ہی کے خلاف جہاد کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور آئے دن ہمیں تحفے میں لاشیں دے رہے ہیں جس کے باعث ملکِ پاکستان میں زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔


طالبان غلط فہمیوں میں مبتلا ہو کر ہمیں دشمن تو جان بیٹھے ہیں لیکن اپنے اصل دشمن (جنہیں اپنا دوست سمجھتے ہیں) کے بد ترین عزائم سے نا واقف ہیں، شر پسند ہندو عناصر (یہاں ہندووں سے مراد بھارت کے رعایا نہیں بلکہ صرف اور صرف شرپسندعناصر کے بارے میں بات کی جا رہی ہے جو اپنے ہم مذہب اور ہم وطنوں سے بھی مخلص نہیں ہیں) کوتلیہ چانکیہ کی مکارانہ تعلیمات پر عمل پیرا ہیں دراصل کوتلیہ چانکیہ بادشاہ چندر گیت موریاکا اتالیق و وزیراعظم اور مشیرِخاص تھااس میں کچھ شک نہیں کہ چانکیہ ہی بادشاہ چندر گیت موریا کی فتوحات کا حقیقی مہرا تھالیکن وہ اپنی تمام تر مدبرانہ صلاحیتوں، فلسفہ اور سیاسی ذہنیت کو صرف اور صرف چالاکی و مکاری اور فریب کاری پہ صرف کیئے ہوئے تھا۔

اس کی تحریر کردہ کتابوں میں ”ارتھ شاستر“ آج بھی ہندووں کے مکار اور فریب کار طبقہ میں خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ ارتھ شاستر میں درج چند اصول آپکی نظر کیے دیتا ہوں جس کے بعد آپ حقیقت بخوبی بھانپ جائیں گے ۔
حصولِ اقتداراور ملک گیری کی ہوس کبھی ٹھنڈی نہ ہونے پائے۔ ہمسایہ سلطنتوں سے وہی سلوک کیا جائے جو دشمنوں سے کیا جاتا ہے اور ان پر کڑی نظر بھی رکھی جائے لیکن غیر ہمسایہ سلطنتوں سے نہ صرف دوستانہ تعلقات استواررکھے جائیں بلکہ انہیں ہمسایہ ممالک سے ہر قیمت جنگ و جدل کے لیئے بھی اکساتے رہنا چاہیئے۔

جن ممالک یا اشخاص سے بھی دوستی رکھی جائے تو دوستی میں اپنی غرض پیشِ نظر رہنی چاہیئے۔ مکارانہ سیاست، دل میں رقابت کی آگ، جنگی چنگاریاں، ظلم و تشدد اور اپنے شہریوں کی بھی پرواہ نہ کی جائے۔ دوسرے ملکوں میں مخالفانہ پراپیگنڈہ، تخریبی کاروائیاں، بد امنی ، خفیہ محاذ، حکومتوں کے خلاف سازشیں، اور دوسرے ملکوں کے باسیوں کو ہر صورت خرید کرامن و امان کی دھجیاں اڑائی جائیں اور دو ہمسائیوں کو آپسی فتنہ میں ڈالے رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی جانی چاہیئے۔


مدتوں گزرے اقوال پر بھارت کے شرپسند عناصر آج بھی عمل پیرا ہیں جس کی مثال بھارتی وزیرِ اعظم کے مشیرِ خاص اجیت کمار دوال (Ajit Komar Doval ) کی وہ متنازعہ ویڈیو ہے جس میں اجیت کمار اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی میزائل سیسٹم، فوجی قوتوں ، چائینہ کے ساتھ شراکت داری، اور سرحدوں کو مختلف سازشوں کے ذریعے کیسے الجھائے رکھنا ہے۔

اجیت کے نزدیک مسئلہ کشمیر جوں کا توں رہنا چاہیے اور دوسری جانب طالبان اور پاکستان کے مابین نفرت انگیزی کو ہوا ملنی وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کام کے لیئے کروڑوں روپے خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اور اگر طالبان اور پاکستانی حکام کسی نقطہ پر اکتفا کر بھی لیں تو دونوں گروہوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات برپا کر دینے چاہئیں۔

اور بھارتی حکام اپنے رعایا کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بڑھانے کی غرض سے مختلف منافقانہ کاروائیاں کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے حالانکہ اگر وہ اپنے ہی مذہب کی مقدس کتابوں پر عمل پیرا ہو جائیں تو انہیں باور ہو جائے گا کہ وہ گھناؤنے کھیل کھیلنے میں پیش پیش ہیں جس کی ہندو مذہب میں بھی نہائت سخت ترین الفاظات میں مزمت کی گئی ہے۔
اور رہی بات طالبان کی تو ایسے حالات میں انہیں قرآن و سنت سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ میرے پیارے آقا ﷺ نے تو آخری وقت تک مل بیٹھ کر مسائل کو سلجھانے ، اور جنگوں اور قتل و غارت گری سے تو رحمت اللعالمین ﷺ نے ایک خاص حد تک اجتناب برتنے کی تلقین کی ہے ۔ پھر وہ کیا وجوہات ہیں کہ آج نبی ﷺ کے امتی جو ایک دوسرے کے بھائی قرار دیے گئے تھے ایک دوسرے پے بندوق تانے کھڑے ہیں۔ حالانکہ ریاستِ پاکستان نے تو طالبان سے مذاکرات کرنے میں بھی کبھی عدم دلچسپی کا اظہار نہیں کیا تو پھر یہ دوستیاں دشمنی میں کیوں بدل گئیں؟؟؟ جیسا کہ جوگی نے کہا تھا کہ ضرورت دیواریں اونچی کرنے کی نہیں بلکہ باہمی یکجہتی کی ہے اور باہمی یکجہتی کی مثال بھی انہیں اینٹوں سے بآسانی اخذ کی جاسکتی ہے۔

جیسے یہ اینٹیں یکجا ہو کر ایک مضبوط دیوار کی صورت اختیار کر لیتی ہیں، اسی طرح ہمیں بھی یکجا ہو کر تقریباً 14 سو سال بعد ایک بار پھر سے مضبوط امتِ محمدی کی شکل اختیار کر لینی چاہئیے جس کا ثانی کوئی دوسرا نہ ہو اور اس کے لیئے ہمیں اپنے دلوں سے صرف اور صرف غیبت و نفرتوں کی دیواریں گرانے کی ضرورت ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہو سکے گااگر اس بار طالبان پاکستان کی جانب محبت کا ہاتھ بڑھائیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :