ایک میں تیلی ایک میں بالٹی

جمعرات 22 جنوری 2015

Jahid Ahmad

جاہد احمد

ایک ایسی حکومت جس کے وزراء کا طرزِ عمل جنگل کی اس مخلوق سے زیادہ مختلف نہیں جن کے ایک ہاتھ میں سلگتی ہوئی تیلی اور دوسرے ہاتھ میں پانی کی بالٹی ہو ۔ ایک ہاتھ سے جنگل میں آگ لگائے چلے جاتے ہوں پھر آگ پر پانی کی بالٹی انڈیل کر فخر سے سینہ پھلائے ڈرے سہمے چرند پرند کو لہک لہک کر یہ بتاتے پھریں کہ دیکھا ہم نے آگ کو کتنی مشقت اور تندہی سے بجھایا ہے وگرنہ یہ آگ توپورے کا پورا جنگل ہی خاک کر جاتی!!!
سوال سیدھا سے ہے! کیا آگ اور پانی کا ایسا کھیل گڈ گورننس کہلاتا ہے؟ کیا ملکی نظام یونہی چلائے جاتے ہیں؟ یوں تو غلطی انسان کے خمیر میں گندھی ہے پر غلطی در غلطی در غلطی ، غلطی نہیں نااہلی کے زمرے میں آتی ہے۔

جبکہ غلطی کی صورت میں غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے غلطی سرزد ہونے کی بے سروپا توجیہات و منطق پیش کرنا ڈھٹائی گردانا جاتا ہے اور یہی عمل مسائل کا شکار عوام کے غم و غصہ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

(جاری ہے)

اس ضمن میں پٹرول کا حالیہ بحران بھی محض حکومتی وزراء و افسران کی نا اہلی کا شاخسانہ ہے۔ مہذب و جمہوری معاشروں میں عوامی حکومتوں کا شیوہ ہے کہ حکومتی اداروں کی کسی بھی قسم کی غیر ذمہداری اور نااہلی کی صورت میں خطا کار اور سرکاری فرائض سے غفلت برتنے والے افسران اور وزراء کے خلاف فوری کاروائی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں بھی ایک عدد جمہوری حکومت موجود ہے ۔ ایسی جمہوری حکومت جو حال ہی میں غیر جمہوری قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہوئے بمشکل اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی ہوئی ہے۔ وہ جمہوری حکومت جس کے وزراء نے اپنی نااہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث پچھلے چھ ماہ میں کئی مواقعوں پر حکومت کا بوریا بستر گول کروانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

اس کے باوجود اگر جمہوریت نیم برہنہ حالت میں قائم رہ پائی ہے تو اس کا سہرا حکومت سے کہیں بڑھ کر حزبِ اختلاف، پارلیمان، اکثریتی عوام اورسوچنے سمجھنے والے اس طبقے کو جاتا ہے جنہوں نے غیر جمہوری قوتوں کی ہر قسم کی فسطائیت کے خلاف آواز بلند کی اور ان کے ہر اقدام کو زمینی سطح پر یکسر رد کر دیا۔اس تمام تجربے کے بعد گو کہ حکومت کو ہر بڑے سے چھوٹے محاذ پر انتہائی مستعدی اور احتیاط سے کام کرنے کی ضرورت تھی پر ہوا یہ کہ چند ہی دنوں میں عوام کے بنیادی مسئلے پر برے طریقے سے پٹ کر اپنی انتہائی تجربہ کار ٹیم کا پول کھول بیٹھی ہے۔


ذکر تھا مہذب معاشرے اور جمہوری حکومت کا تو اگر مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان بھی ایک عدد مہذب معاشرہ اور جمہوریت کا علم بردار ملک ہے تو انصاف کے تقاضے اور عوامی امنگوں کے پیش نظر مندرجہ ذیل دو باتوں میں سے ایک ضرور ہونی چاہیے تھی! یا تو وزیر پٹرولیم نے جس وقت اپنی وزارت کی نااہلی کو کئی دنوں کی تاخیر کے بعد بالآخر تسلیم کر ہی لیا تھا تو ذمہ داروں کے حتمی تعین تک لگے ہاتھوں اپنے عہدے سے خود ہی سبکدوش ہو جاتے یا پھر اولین طور پر وزیر اعظم صاحب کو پٹرول بحران کے ذمہ دار چار اعلی افسران کو معطل کرنے سے پہلے وزیر پٹرولیم کو بھی معطلی کا پروانہ تھما دینا چاہیے تھا! لیکن افسوس کہ جمہور ی عوامی حکومت عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کرنے سے قاصر رہی ۔

اب اس کی بھی دو وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں! اول موجودہ جمہوری حکومت میں اب بھی سعودی شہنشاہت کا رنگ چھلکتا ہے تو انصاف کے اتنے ہی تقاضے پورے ہو سکتے ہیں جتنے شہنشاہ اجازت دے اور دوم وزیر پٹرولیم وہ شخصیت ہیں جو پرویز مشرف کی جانب سے 1999 میں نواز حکومت گرانے کے بعد مشرف صاحب کے تمام تر دباؤ کے باوجود نواز شریف کے خلاف تحریری بیان دینے سے انکاری رہے تھے اور اسی سبب مشرف حکومت کی طرف سے 2001 تک قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔

مذکورہ وزیر 1999 میں قومی حکومت گرائے جانے کے وقت پی آئی اے کے چیرمین تھے!!!
نواز حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان تبدیل ہوتا ہوا ملک ہے۔ اس ملک میں بادشاہت کا خواب اب نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ ملک اگر فوجی ڈکیٹروں کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے، دہشت گردوں کے خلاف اپنے بچے قربان کر کے بھی ہار ماننے پر تیار نہیں، غیر جمہوری قوتوں کو بھی رد کر سکتا ہے تو کسی ایسی جمہوری حکومت کو زیادہ اونچی پرواز کرنے کا تو سوچنا بھی نہیں چاہیے جو عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کے لئے بھی ذلیل و خوار کر کے رکھ دے۔

پٹرول کی عدم دستیابی صریحاٌ انتظامی نااہلی ہے جس کا اعتراف حکومت اور وزراء کی جانب سے کچھ دن مضحکہ خیز توجیہات دئیے جانے کے بعد کر لیا گیا ہے۔ یہ عارضی بحران مزید دو چار دن میں یقینا ختم ہو جائے گا لیکن بنا شک و شابئہ اس بحران نے حکومت کی ساکھ کو بے حد متاثر کیا ہے۔حکومت شکرانے کے نوافل ادا کرے کہ عمران خان کا احتجاج ختم ہو چکا تھا وگرنہ تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان کی حکومت چینی مہنگی ہونے کے باعث بالواسطہ ختم تو نہیں ہوئی تھی لیکن حکومت مخالف مظاہرین کے مقصد کو حد درجہ تقویت ضرور بخش گئی تھی اور بالآخر ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا ۔

جمہوریت کا بڑا سادہ سا اصول ہے کہ حکومت تب تک مضبوط تصور ہوتی ہے تاقتکہ عوام اس کو قوت فراہم کرتی رہے ! یہاں احمق پھپھوندوی صاحب کا ایک شعر سمجھنے والوں کی نذر ہے کہ:
مٹا دیتا ہے دم میں نخوتِ نمرود اک مچھر
کبھی ایسا بھی دورِ گردشِ ایام آتا ہے
حکومت نے حالیہ بحران بہت محنت سے باقائدہ پیدا کر کے قومی غفلت کا ثبوت تو جو دیا سو دیا ساتھ ہی ساتھ قوم کی توجہ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان سے ہٹوانے کا سہرا بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے سر باندھا ہے۔

نواز حکومت اپنے آپ کو سعودی بادشاہتِ ثانی کے طور پر ابھارنے کے بجائے جمہوری طرزِ عمل اختیار کرے تو بہتر ہے۔حکومت کو تمام شعبوں میں کارکردگی بہتر بنانی ہے تو خاندان کے افراد کو وزارتیں اور اہم عہدے بخشنے کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے قابلیت کی بنیاد پر تقرریاں کیا جانا اور فیصلہ سازی کا عمل گنے چنے افرد کے ہاتھ سے نکال کر اس اہم ترین عمل میں باشعورو اہل افراد کی شمولیت انتہائی ناگزیر ہے وگرنہ مستقبل میں بھی مسائل یوں ہی سر اٹھاتے رہیں گے کیونکہ مسائل کا پیدا ہونا نااہل افراد کی نااہلیت کا منطقی انجام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :