اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

جمعرات 22 جنوری 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

پہلے CNG بند پھر گھریلوگیس کی لوڈشیڈنگ اور اب پٹرول بھی بند،گویا پوری زندگی ہی بند ۔اِن ”بندشوں“نے حالت یہ کردی ہے کہ” نے ہاتھ باگ پرہے نہ پاہے رکاب میں“۔ دو حکومتی وزراء (جن کا پٹرولیم مصنوعات سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں)نے برملاکہہ دیاکہ یہ حکومتی کوتاہی ہے جبکہ اپوزیشن نے اسے نااہلی قراردیا البتہ” ذمہ داروں“نے بڑے بھولپن سے کہاکہ اُن کاتو سرے سے کوئی قصورہی نہیں ۔

وزیرِ پٹرولیم شاہدخاقان عباسی نے فرمایا کہ پٹرول تواُتنا ہی آرہاہے جتناپہلے آتاتھا لیکن سستا ہونے کی وجہ سے اِس کی کھپت بہت بڑھ گئی ہے ۔وزیرِ پٹرولیم کے اِس بیان سے ہمیں مکمل اتفاق ہے کیونکہ ہم ”بقلم خود“اِسکامشاہدہ کرچکے ہیں۔ہم نے دیکھاکہ ایک شخص بڑی سی گاڑی میں واپڈاٹاوٴن کے گول چکرپر گول گول گھوم رہاتھا ۔

(جاری ہے)

اُس نے جب بیس چکرپورے کیے تو ہمارے صبرکا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ہم نے اُسے روک کر گھومنے کی وجہ پوچھی تواُس نے جواب دیاکہ بی بی دُنیاچونکہ گول ہے اِس لیے میں چشمِ تصورمیں دُنیاکے گرد گھوم رہاہوں جسکی واحدوجہ یہ ہے کہ پٹرول سستا ہوگیاہے اِس لیے دُنیاگھومنے میں ہرج ہی کیاہے ۔

ہم نے اُس کی اِس سوچ پر لعنت بھیجی اور گھرجانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔گاڑی میں بیٹھتے ہی ہمارے ذہن میں اچانک خیال آیا کہ ذرا دیکھیں توسہی کہ اُس شخص کوگول گول گھومنے میں کیا مزہ آرہاتھا ۔پہلے ہی چکرپر ہمیں بھی بہت مزہ آیا اورہم نے سوچا کہ پٹرول توسستا ہوہی گیاہے اورہماری گاڑی کی ٹینکی فُل اِس لیے ایک چکراور سہی ۔دوسرے کے بعد تیسرا پھر چوتھا اور آخرکار ہوایوں کہ وہ شخص آگے آگے اور ہم اُس کے پیچھے گول گول گھومتے رہے ۔

ہمیں توپٹرول کے بحران کی یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ ہم”ایویں خوامخواہ“ ہی پٹرول ضائع کررہے ہیں اور الزام بیچارے شاہدخاقان عباسی پر۔
وزیرِاعظم صاحب جب سعودی عرب کے دورے سے واپس آئے تو اُنہیں پتہ چلا کہ پنجاب میں توقیامتِ صغرابپاہے اور لاہوریے اب”فوڈسٹریٹوں“ کی بجائے پٹرول پمپوں پرپائے جاتے ہیں ۔اُنہوں نے چار ذمہ داران کوتو پہلے ”ہَلّے“میں ہی ”نُکرے“لگادیا اور باقیوں کا اجلاس طلب کرلیا ۔

اُنہوں نے صاف کہہ دیا” پٹرول بحران سے حکومت کی سبکی ہوئی اور وزراء سمیت جوبھی کوئی اِس کاذمہ دارہوا اُس کونہیں چھوڑا جائے گا ،ہر ذمہ دارکے خلاف کارروائی ہوگی“ ۔شنیدہے کہ اجلاس میں خوب گرماگرمی ہوئی اور وزراء ایک دوسرے پرالزام تراشیاں کرتے رہے ۔اجلاس کے بعد وزیرِخزانہ جناب اسحاق ڈارنے دورکی کوڑی لاتے ہوئے کہا کہ تیل کابحران دراصل حکومت کے خلاف سازش ہے اوروزارتِ خزانہ کسی بھی طورپر تیل بحران کی ذمہ دارنہیں ۔

اسحاق ڈارصاحب نے یہ نہیں بتلایا کہ یہ سازش امریکہ نے کی ہے یاانڈیا نے ،مُلّافضل اللہ پنجاب کاساراپٹرول پی گیا یا داعش نے پٹرول کے کنٹینر اغواء کرلیے۔ہوسکتاہے کہ یہ سازش تحریکِ انصاف نے شیخ رشید کی لال حویلی میں بیٹھ کرتیار کی ہو کیونکہ اب صرف شیخ رشیدہی ہیں جو کپتان صاحب کوباربار شہروں کو بند کرنے کے لیے اکسارہے ہیں ۔وہ تو اللہ بھلاکرے ریحام خاں کا جس سے شادی کے بعدخاں صاحب کا غصّہ ”برفیلہ“ ہو چکاہے اوراُن کا پلان ڈی اب تخریبی نہیں ، تھوڑاتھوڑاتعمیری محسوس ہونے لگاہے ۔


شیریں مزاری کہتی ہیں کہ تحریکِ انصاف کوشہربند کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیںآ ئی کیونکہ حکومت نے خودہی سارے شہربند کردیئے ۔اُن کاکہنابجا لیکن حقیقت یہی ہے کہ نوازحکومت کا ایجنڈابھی وہی ہے جوتحریکِ انصاف کا۔ابھی دودن پہلے محترم عمران خاں نے کہاتھا کہ وہ خیبرپختونخوا کے شہروں میں صفائی کروارہے ہیں۔سونامیے یہ توجانتے ہی ہوں گے کہ دھوئیں سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتاہے اورلاہور میں تواتنی زیادہ ٹریفک ہے کہ صرف آلودگی ہی آلودگی نظرآتی ہے ”ماحول“کہیں نظر ہی نہیںآ تا ۔

اگر دس بارہ دن ٹریفک نہیں چلے گی تو ماحولیاتی آلودگی یکسرختم ہوجائے گی ،فضائیں آکسیجن سے بھرجائیں گی اورلاہوریے تندرست وتوانا ۔اگر تحریکِ انصاف پشاورمیں صفائی کرواسکتی ہے توہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ لاہورکوماحولیاتی آلودگی سے پاک کریں۔کپتان صاحب کوجتنا پشاورعزیزہے ،میاں برادران کو لاہوراُس سے کہیں زیادہ عزیز ۔اُنہوں نے خودبدنامی مول لے لی لیکن لاہوریوں کی صحت کا خیال رکھا ۔


پٹرول بحران کی ایک وجہ شادیوں کی بھرماربھی ہوسکتی ہے ۔آجکل شادیوں کا موسم ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ شادیوں میں پٹرول کا بے تحاشہ استعمال ہوتاہے ۔ایک توہماری قوم کوشادیوں کاشوق ہی بہت ہے ،آبادی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے لیکن یہ شادی پہ شادی ”کھڑکائے“ جارہے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے سردار ذوالفقارکھوسہ نے عمرکے اُس حصّے میں شادی رچالی جب اُن کے اللہ اللہ کرنے کے دن تھے پھر عمران خاں بھی”ابھی تومیں جواں ہوں“کانعرہ لگاتے ہوئے ریحام خاں کے ہولیے اِس لیے ہوسکتا ہے کہ حکومت نے سوچاہو کہ آبادی پرکنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ شادیوں کے موسم میں پٹرول نایاب کردیا جائے ۔

”آم کے آم ،گٹھلیوں کے دام“کے مصداق اِس کافائدہ یہ ہوگا کہ شادیاں کم ہونگی ،آبادی پرکنٹرول ہوگا اور لوگوں کو بچت کی عادت بھی پڑجائے گی ۔اگردیکھا جائے تو اِس میں بھی ہماری ”مہربان“حکومت عوام ہی کابھلا سوچ رہی ہے لیکن عوام ”ایویں خوامخواہ“ گونوازگو کے نعرے لگارہے ہیں ۔خادمِ اعلیٰ نے انہی نعروں سے تنگ آکر لاہورمیں فوری طورپر CNG سٹیشن کھولنے کامطالبہ کردیا ۔

کچھ CNG سٹیشن کھلے بھی لیکن پھربند ہوگئے کیونکہ ایک توسٹیشن مالکان دودنوں کے لیے سٹیشن کھولنے کوتیار ہی نہیں تھے اور دوسرے CNG تو تبھی ملتی جب بجلی ہوتی اوربجلی تواپنے خواجہ صاحب سیالکوٹی کی مہربانی سے کسی حسینہٴ دِل نواز کی طرح کبھی کبھی جھلک دکھلاتی ہے ۔ میرے میاں نے جب سے بھائی عطاالحق قاسمی کا کالم پڑھاہے ،وہ متواتر سوچ رہے ہیں کہ گاڑی بیچ کرایک تانگہ خریدلیں اورپھر اُس میں بیٹھ کر پورے لاہورکی مفت سیر کرتے ہوئے یہ گاتے پھریں کہ”تانگہ لاہوری میرا،گھوڑا پشوری میرا۔

۔۔“ لیکن ہمیں اِس پراعتراض ہے کیونکہ ایک تو تانگہ فیروزپور روڈپر جانہیں سکتا اور لاہورمیں نئی چیزتو خادمِ اعلیٰ کی مہربانی سے صرف فیروزپور روڈہی ہے جس کی بھول بھلیوں میں گُم ہوکر کئی لوگ تو باقاعدہ خودکشی کے لیے تیارہوجاتے ہیں اوردوسرے تانگہ خریدنے میں قباحت یہ ہے کہ ڈرائیورتو گھوڑے کوچارہ ڈالے گانہیں اورمیرے میاں دنیاجہاں میں سب سے زیادہ سست اور کاہل الوجوداِس لیے ظاہر ہے کہ گھوڑے کوچارہ بھی مجھے ہی ڈالناپڑے گا ۔اسی بنا پر میں نے تانگہ خریدنے والی نامعقول تجویزکو”ویٹو“کردیا ۔پھربھی اگر میرے میاں بضد رہے تو مجھے لازماََ حقوقِ نسواں کی کسی ایسیNGO سے رابطہ کرناپڑے گاجوتاحال حکومتی”چھاپوں“سے بچی ہوئی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :