میں سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں !

منگل 20 جنوری 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات تھی،میں نئے سال 2015کی نئی قراردادیں ترتیب دے رہا تھا ۔ اس سال دنیا کے 6ارب80کروڑانسانوں نے نئے سال کو خوش آمدید کہا تھا لیکن ان سات ارب انسانوں میں بہت کم ایسے تھے جنہوں نے اپنے پچھلے سال کی غلطیوں کی نشاندہی کی ہو ، اپنے گزرے ہوئے سال کا محاسبہ کیا ہو اور اگلے سال کے لیئے کو ئی مناسب لائحہ عمل تشکیل دیا ہو ، ہم میں سے ہر عمر کے لوگوں کو اپنے نئے سال کی پلاننگ کر نی چاہئے ، ہمیں نئے سال کے لیئے نئی کتابوں، نئے کھانوں، نئی خوشبو اور نئے لباس کا مزا چکھنا چاہئے ،ہمیں نئے دوستوں ،نئے رشتہ داروں اور نئے ہمسایوں سے سے ملنا چاہئے،ہم نے اگر ابھی تک قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھا تو ہمیں نئے سال کی قراردادوں میں اسے پہلے نمبر پر رکھنا چاہئے ، ہم نے ابھی تک اگر کسی بزرگ کا ہاتھ نہیں تھا ما تو ہمیں نئے سال کی پلاننگ میں اسے بھی شامل کر لینا چاہئے اور ہم نے ابھی تک اگرنماز وں کا اہتمام نہیں کیا ہو تو ہمیں نئے سال کی پلاننگ میں اسے بھی ترجیح دینی چایئے ۔

(جاری ہے)

کامیابی کے لیئے چالیس نمبرپلاننگ،دس نمبر مینجمنٹ،پچیس نمبر ارادے اور پچیس نمبر پریکٹیکل کے ہوتے ہیں ،ہم اگر اچھی پلاننگ کرلیں اور اپنا ارادہ مضبوط بنا لیں تو ہماری کامیابی کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔پاکستان میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نئی کتابیں شائع ہوتی ہیں ،سینکڑوں کتابیں دوسری زبانوں سے اردو میں ترجمہ ہوتی ہیں ،اور ان سینکڑوں ہزاروں کتابوں میں بعض ایسی نایاب کتب ہوتی ہیں جس میں مصنف اپنی ساٹھ ستر سالہ زندگی کاتجربہ جمع کر دیتا ہے ، بعض کتابیں بار با ر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہم یا تو نئے سال کی پلاننگ ہی نہیں کرتے اگر پلاننگ کرتے ہیں تو اس میں کتابوں کو جگہ نہیں دیتے۔

ہمیں اپنی روز مرہ زندگی میں کتابوں کو بھی جگہ دینی چاہئے یہ ہماری بہترین دوست ہیں۔ میں نئے سال کی پلاننگ میں مصروف تھا،یہ انتہائی سرد رات تھی اور میں بابا جی سے ملنے کے لیئے دریا کے کنارے پر پہنچ چکا تھا، بابا جی نے دریا کے ایک کنارے پر اپنی جھونپڑی بسارکھی تھی ،میں مغرب کے بعد وہاں پہنچا تھا، ہر طرف اندھیرا تھا،خاموشی تھی، خوفناک آوازیں تھیں اورمیں ان خوفناک آوازوں کے بیچ اکیلا کھڑا سردی اور خوف سے کپکپا رہا تھا ۔

خوف اور وہم دو جڑواں بھائی ہیں اور میں اس وقت خوف کے ساتھ ساتھ وہم کا بھی شکار ہو چکا تھا ،میں سانس لیتا تھا تو مجھے اپنی سانس کی آواز کسی خوفناک چڑیل کی چیخ سنائی دیتی تھی، میں ہاتھ ہلا تا تھا تو مجھے سامنے جنگل میں بھوت رقص کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے،میں دائیں بائیں دیکھتا تھاتو مختلف شکلیں مجھے اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں، میں پاوٴں کی طرف دیکھتا تھا تو محسوس ہوتا تھا ابھی کو ئی دس پندرہ فٹ لمبا سانپ یہاں سے نکلے گا اور میرے ٹانگوں کے ساتھ چمٹ جائے گا، میں اوپر خلا میں دیکھتا تھا تو مجھے ہوا میں مختلف قسم کے چہرے ہنستے ہو ئے دکھا ئی دیتے تھے، میں سامنے دریا کی طرف دیکھتا تھا تو دور چڑیلیں مجھے اپنی طرف بڑھتی ہو ئی محسوس ہوتی تھیں،میں درختوں کی طرف دیکھتا تھا تو مجھے درختوں کے پتوں سے بھی خوف آنے لگتا تھا،یہ سب کیا تھا ؟یہ وہ وہم تھا جو خوف کے ساتھ خودبخود چلا آتا ہے ،ہم جب خوف کا شکار ہوتے ہیں تو خوف کم اور وہم زیادہ ہوتا ہے اور یہی وہم ہمارے خوف کی اصل بنیاد ہوتا ہے۔

اگر ہم اپنے اعصاب پر قابو پالیں اور وہم کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیں تو ہمار ا اسی فیصد خوف ختم ہو سکتا ہے،ہماری اکثر لڑائیاں بھی وہم کی بنیاد پر ہوتی ہیں اور ہمارے اسی فیصد رشتے بھی وہم کی بنیاد پر ٹوٹتے ہیں۔وہم انسان کو لاحق ہونے والی بیماریوں میں سب سے خوفناک بیماری ہے اور آج تک اس بیماری کا علاج دریافت نہیں ہو سکا۔میں بابا جی کی جھونپڑی میں داخل ہوا تو عشاء کی اذان ہو چکی تھی ،میں نے باجماعت نماز ادا کی اور بابا جی کا انتظار کرنے لگا۔

بابا جی نماز سے فارغ ہوئے تو میں ان کے قریب چلا گیا، میں نے حاضر ہونے کا مقصد بیان کیا اور خاموشی سے گردن جھکا دی، بابا جی نے گردن جھکائی ،تھوڑی دیر مراقبے میں رہے اور میری طرف متوجہ ہو کر بولے”میں تمہیں اپنی اسی سالہ زندگی کا حاصل بتا نا چاہتا ہوں ، میں نے اپنی اسی سالہ زندگی میں جو سیکھا ہے آج میں وہ تم سے شیئر کرنا چاہتا ہوں “میرا اشتیاق بڑھ رہا تھااور بے صبری کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا ،میں اپنی جگہ سے تھوڑا آگے سرک گیا اور مزید توجہ سے سننے لگا ،بابا جی گویا ہوئے”میں اپنی جوانی کی عمر میں بہت غصیلا تھا ،مجھے بات بات پر غصہ آجاتا تھا اور میں چھوٹی چھوٹی بات پر دوسروں سے لڑائی جھگڑا شروع کر دیتا تھا ، گھر میں کو ئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب میری کسی بہن بھائی سے لڑائی نہیں ہوتی تھی ،محلے میں کو ئی ایسا نوجوان نہیں تھا جس کے ساتھ میں نے پنجہ آزمائی نہ کی ہو اور کالج میں کوئی پروفیسر ایسا نہیں تھا جس سے میں نے ٹکر نہ لی ہو ، یہ سب کچھ میرے غصے اور میرے عدم برداشت کے رویے کی وجہ سے تھا،مجھے کوئی بات کرے اور وہ بچ کے چلا جائے یہ ناممکن تھا ، مجھ سے اپنی ذات کے بارے میں کو ئی بات برداشت نہیں ہوتی تھی اورمیں بات بات پر لڑنے مرنے پر اتر آتا تھا ، پھر اچانک وقت بدلا مجھے ایک عالم کی صحبت میں بیٹھنے کا موقعہ ملا اور میری دنیا ہی بدل گئی ، انہوں نے غصے کو کنٹرول کرنے اور غصے کو پی جانے کے فضائل بیان کیئے تو میں حیران رہ گیا ، اس دن سے میں نے فیصلہ کیا آج کے بعد میں کسی بات پر غصہ نہیں کروں گا اور ہر بات تحمل کے ساتھ سنوں اور برداشت کروں گا ، اس دن سے میری زندگی میں انقلاب آنا شروع ہو گیا ،میں نے غصے سے توبہ کر لی اور اس دن کے بعد مجھے احساس ہوا کہ دوسروں کی غلطیوں کی سزا خود کو دینے کا نام غصہ ہے اور غصہ تما م برائیوں کی جڑ ہے ،اس دن کے بعد میں نے ”سننے اور برداشت “کرنے کی عادت ڈال لی ، اور اس عاد ت کے ساتھ ہی میری زندگی میں خوشیوں کے دروازے کھل گئے ، اب میں جہاں بھی ہوتا تھا صرف سنتا تھا اور برداشت کرتا تھا ، کوئی کچھ بھی بولے میں خاموشی سے سنتا رہتا تھا ، کو ئی کچھ بھی کرے میں خاموشی سے برداشت کرتا تھا اور میری اس عادت نے مجھے زندگی کے ایک نئے رخ سے متعارف کروادیا تھا ۔

مجھے محسوس ہو االلہ نے انسان کو دوکان اور ایک زبان اسی لیئے دیئے ہیں تا کہ وہ سنے ذیادہ اور بولے کم۔اب میں صرف سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں ، سنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں اورسنتا ہوں اور برداشت کرتا ہوں اور یہی میری اسی سالہ زندگی کا حاصل ہے“ مجھے اپنے نئے سال کے لیئے ایک مفید اور کارآمد قرارداد مل گئی تھی ، میں نے اسے پلے باندھا ،بابا جی کو سلا م کیا اور چپکے سے وہاں سے رخصت وہ گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :