آپ قطار میں ہیں۔۔۔!

منگل 20 جنوری 2015

Fauzia Bhatti

فوزیہ بھٹی

(توجہ دلاؤ اعلان:۔ بوجوہ ڈرپورکنس یہ تمام باتیں پٹرول کی لائن میں لگے ہوئے ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد لکھاری اپنے دل ہی دل میں فرما ر ہیں تھیں اس لئے پڑھنے والے کا ایک سارا دن پٹرول کے لئے ذلیل و خوار اور انتہائی درجے کا ڈرپوک ہونا شرط ہے )
پٹرول کی قطار کا تھا مجھے سامنا
بجلی کے بل کی قطار سے نکلا تو میں نے دیکھا
ہر چیز کو مثبت پہلو سے دیکھنا ہماری اعلیٰ طرفی نہیں بیماری ہے جسے بچپن سے ہمارے اندر اندر جوتے اور طعنے مار مار کر پکا کروایا گیا ہے۔

ایک تو ہمیں اس نا ہنجار قوم کی منطق سمجھ نہیں آتی"جدوں سوچے گی پٹھا ای سوچے ای"لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو حکومتِ وقت کو گالیاں دیتی ہے۔آٹا مہنگا ہوتا تو حکومتِ وقت کو گالیاں، چینی نہ ملے تو پھر بھی صرف گالیاں؟؟؟بھئی حد ہوتی ہے اب حکومت حکمرانی کرے یا۔

(جاری ہے)

۔۔ ۔انسان زندگی میں جب اپنے لئے کوئی گول چُن لیتا ہے تو اس کا آدھا مسئلہ حل ہو جاتا ہے باقی آدھا اس تک پہنچنے میں لگ جاتا ہے۔

اس خطے کی جہاں کے بارے میں ہم لن ترانیاں فرما رہے ہیں وہاں ایسا ہر گز ہرگز نہیں ہوتا۔اب وہاں ہوتا کچھ یوں ہے کہ جوانی اور زندگانی رول کے گول سیٹ کرنا ہی ایسا کٹھن بنا دیا جاتا ہے کہ جب تک ہمارے جیسوں کو یہ پتہ چلتا ہے کہ اصل میں کرنا کیا تھا تب تک گاڑی اسٹیشن چھوڑ کر چھ سے سات جنکشن پار کر چکی ہوتی ہے ۔دوسرا اس خطے کے لوگوں کی انتہائی بے ہودہ عادت یہ ہے کہ کسی کو چین سے کام کرنے نہیں دیتی بالخصوص ان لوگوں کو جو کہ چند ایک ہیں اور جن کو یہ پتہ ہے کہ انہوں نے گول سیٹ کر لیا ہوا ہے (خاص کر کمائیاں کرن دا)اور اب صرف اسے پایہ ء تکمیل تک پہنچانا باقی ہے۔

ارے کچھ سیکھنا ہے تو بجائے ٹانگ اڑانے کے ان چند مخصوص لوگوں سے سبق حاصل کریں ۔اگر آپ اپنا گول سیٹ کر کے پانچ سال اپنی باری کا بڑے صبر و تحمل سے انتظار کریں گے تو یہ جانیں گے کہ کم سے کم اس کرّہ ارض نے تو "مائی کا وہ لعل نہیں جمیا" کہ آپ کو اپنے مقررہ ہدف سے باز رکھ سکے ۔ بغیر غصے اور اشتعال کے یہ سوچیں کہ اگر ہم اپنے اہداف مقرر کر ہی نہیں سکتے ،اگر ہمیں گدھے گھوڑے کا فرق ہی نہیں معلوم تو پھر دل آزاری کیسی؟اگر ہم بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دے سکتے ہیں۔

عقل و شعور کو بالائے طاق رکھ کر اندھا دھند اپنے لیڈروں کی پیروی کر سکتے ہیں تو رونا کس بات کا ہے۔آپ اس بات پر سر فخر سے بلند کیجئے کہ کم سے کم کوئی تو ہے جسے ہمارا صیح استعمال کرنا آتا ہے۔اپنے اہداف تو پورے کرنے کے قابل یہ قوم ہے ہی نہیں تو بھیا اپنے لیڈروں کے ہی کام آجاؤ ۔ اصل دکھ تو اس بات کا ہے کہ جو گالیاں حکومتِ وقت کو دے رہے ہیں اس میں سے ایک چوتھائی بھی اگر ووٹ ڈالنے جانے سے پہلے شیشے کے روبرو کھڑے ہو کر اگر خود کو دیں لیں توتو شاید ووٹ ڈالنے کی قطار انکی آخری قطار ثابت ہو ۔

آخر میں ایک چھوٹی سی حکایت ایک جنگل میں سازشوں کا بازار گرم کر کے ایک بندر کو بادشاہ بنا دیا گیا،بدقسمتی سے جنگل میں آگ لگ گئی ۔بادشاہ سلامت بے چینی سے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے رہے۔نیچے جانوروں کے بچے مرتے چلے گئے آخر ایک خرگوش نے چیخ کر کہا " بادشاہ سلامت کچھ کیجئے قہر برپا ہے ،ہمارا سارا ذخیرہ جل گیا ،سب تباہ ہو گیا" بادشاہ سلامت فریاد کا برا منا گئے اور ارشاد کیا"جاہل رعایا دیکھو جو میرے بس میں ہے وہ میں کر رہا ہوں"چلئے اس حکایت کو چھوڑیئے لگتا ہے یہاں کھڑے لوگوں کو اتنے سال گزرنے کے باوجود لائن بنانے کی تمیز تک نہیں آئی اور یہ آپس میں جھگڑ پڑے ہیں،اور کیا کیا گالیاں دے رہے ہیں دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ ایک تو ہمیں اس نا ہنجار قوم کی منطق سمجھ نہیں آتی"جدوں سوچے گی پٹھا ای سوچے ای"لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو حکومتِ وقت کو گالیاں دیتی ہے۔

آٹا مہنگا ہوتا تو حکومتِ وقت کو گالیاں ،چینی نہ ملے تو پھر بھی صرف گالیاں؟؟؟بھئی حد ہوتی ہے اب حکومت حکمرانی کرے یاآپ کو قطار بنانے کی تربیت دے۔جی تو چاہ رہا ہے کہ باہر نکل کر یہ خبر عام کریں کہ سن لو لوگو۔۔۔!آپ قطار میں ہیں برائے مہربانی تمیز کریں
(نوٹ:۔ اس بے تکے کالم کا تعلق کسی بھی ملک سے نکالا جا سکتا ہے سوائے پاکستان کیونکہ راوی یہاں چین ہی چین لکھتا ہے ،حا لا ت اور حالتِ زار خود اس بک جھک کے ذمہ داران ہیں )
پاکستان آپکا ہے اس کا خیال رکھئے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ اسے ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :