ترمیم۔۔۔ترمیمی رویے۔۔۔ یس سر!

اتوار 18 جنوری 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

ہمارے ایک عزیز دوست ایک خلیجی ملک کا اکثر احوال بیان کرتے ہیں جہاں کافی عرصہ وہ قیام پذیر رہے۔ وہ لب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس خلیجی ملک میں جرائم کی شرح بہت کم ہے لیکن پھر بھی کچھ عاقبت نا اندیش باز نہیں آتے ۔لیکن ان کا اصل امتحان تب شروع ہوتا ہے جب وہ قانون کے شکنجے میں آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ وہ سناتے ہیں کہ کچھ مجرم گرفت میں آ گئے انہوں نے بنا کسی مار پیٹ کے جو بھی کہا جاتا رہا وہ مانتے رہے ۔

ہر بیان کا اقرار وہ " یس سر" کی گردان سے کرتے رہے۔ وجہ معلوم کی گئی تو پتا چلا کہ خلیجی ممالک میں تفتیش کا طریقہ اتنا سخت ہے کہ مجرم کو ایک ضرب لگائے بناء ہی کیے گئے جرائم کا قرار کروایا جا سکتا ہے۔ اس سخت تفتیش سے بچنے کے لیے "تجربہ کار " مجرم ہر چیز کا اقرار بلا چوں چراں کرتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

کیوں کہ بہتری "یس سر" کہنے میں ہی ہوتی ہے۔

فلاں جرم کیا ہے؟ یس سر۔۔۔ فلاں جگہ سے چوری کی ہے؟ یس سر۔۔۔ فلاں دن تم نے رہزانی کی ؟ یس سر۔۔۔۔ کیوں کہ نو سر کے جواب میں پھر ناقابل برداشت تفتیشی عمل سے گزرنا پڑ جائے گا جو خلیجی ممالک میں سہنا قدرے مشکل سمجھا جاتا ہے۔ اور یس سر کہہ کے کچھ عرصہ قید میں گزار کر پھر پرانی روش۔
پاکستان کی قیادت جب سر جوڑ کر بیٹھ گئی تو یہ گمان ہونے لگا کہ شاید اب اس ملک کی قسمت سنورنے لگی ہے۔

لیکن عام پاکستانی (بشمول میرے)شاید احمقوں کی جنت کے باسی ہیں اسی لیے زیادہ توقعات وابستہ کر لی گئیں۔ عقل دنگ تھی کہ یہ کیا ماجرا ہو گیا کہ سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت ایک ہی جگہ پر اکھٹی ہو گئی ہے۔ شاید یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ یہ ہجوم کسی معجزے کا پیش خیمہ ہی محسوس ہوتا تھا۔ لیکن صد افسوس ! کہ یہ قیادت کا اکٹھ ہجوم ہی ثابت ہوا۔

اور اس اکٹھ سے کپڑے جھاڑ کے ایسے نکلے کہ جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہیں۔ بانت بانت کی بولیاں شروع ہو گئیں۔ ہز ذی شعور کئی روز سے اسی سوچ میں تھا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہوا کہ کمرے کے اندر سب ٹھیک تھا لیکن کمرے سے باہر نکلتے ہیں راگ بدلنا شروع ہو گئے۔ یہ گتھی سلجھ نہیں رہی تھی۔ لیکن سلجھی تو ایک راہ چلتے دیوانے کی دیوانگی کی رو میں کئی گئی بات سے کہ جناب وہاں کمرے کے اندر سب ٹھیک اس لیے تھا کہ وہاں " یس سر " کی گونج تھی۔

اور 21ویں آئینی ترمیم کے فوراً بعد رویے بھی ترمیم اس لیے ہو گئے کہ کمرے سے باہر " یس سر" کا ڈر کچھ کم تھا۔
شنید ہے کہ زخمی شیر اپنی سماعتوں کو آزماتا رہا۔ بحث و مباحثہ جاری رہا۔ مِلا جُلا رجحان برقرار تھا۔گونج گرج بھی نمایاں تھی ۔ دُبکی دُبکی منمناہٹ بھی سنی جا سکتی تھی۔ فرق یہ تھا کہ شاید منمناہٹ کی جگہ زوردار گونج ہونی چاہیے تھی۔

فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا ۔ اچانک سب نے " یس سر" کی گردان شروع کر دی ۔ دہشت گردوں کے معاونین کو بھی سزا ملے گی۔ یس سر۔۔۔ دہشت گردوں میں اچھے دہشت گرد اور برے دہشت گرد کی تمیز نہیں رکھی جائے گی۔یس سر۔۔۔ فوجی عدالتیں فوری فیصلے کرنے کے لیے قائم کی جائیں گی۔یس سر۔۔۔ یاد رہے کہ فوجی عدالتیں ملک کی اشد ضرورت ہیں کسی فرد یا ادارے کی نہیں۔

یس سر۔۔۔ اب ہم مزید لاشیں نہیں اٹھا سکتے ۔یس سر۔۔۔ اب زخم بھرنے کا وقت ہے ۔ یس سر۔۔۔ اگر کسی کے ذہن میں کوئی اور طریقہ موجود ہے تو بتا دیں۔ نو سر۔۔۔ اب صدر ِ محفل کے چہرے پہ بھی کچھ مسکراہٹ اُبھری ہو گی شاید وہ ایک بوجھ سے آزاد ہو گئے تھے۔
کچھ لمحے شاید خاموشی کا غلبہ رہا ہو گا۔ یا شاید پھر سب اپنے اپنے حواس بحال کرنے کی کوششوں میں محو گئے ہوں گے۔

پھر اچانک کسی بھلے انسان نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا ہو گا کہ جناب دروازہ کھل گیا ہے۔ سب کی جان میں جان آئی ہو گی۔کسی انجانے خوف میں مبتلا نفوس کمرے سے باہر نکلے اور باہر نکل کر کافی دیر کچھ بول نہ سکے۔ کافی دیر یا پھر چند دن ۔ کچھ دن گزرنے کے بعد جب خوف سے رگوں میں جما خون کچھ گرم ہواتو پھر ہر ایک نے الگ الگ بیانات دینا شروع کر دیے۔ تاویلیں پیش کی جانے لگیں کہ ہم نے تو اقرار اس شرط پہ کیا تھا۔

ہم نے تو حامی فلاں کے کہنے پہ بھری تھی۔ ہم نے تو بس ملک کے مفاد میں اپنی رضامندی دی ہے۔ اپنی صفائیاں پیش کی جا رہی تھیں۔ شاید یہ باور کرایا جا رہا تھا کہ ہم نے تو " یس سر" کہا ہی نہیں۔ بلکہ سوچ میں ہلنے والے سر کو رضامندی سے تعبیر کر لیا گیا ہے۔
کئی گھنٹوں پر محیط اس کمرے کے بحث و مباحثے کا نچوڑ 21ویں آئینی ترمیم کی صورت میں سامنے آیا۔

تمام سیاستدان اگر اس ترمیم پر متفق ہو جاتے تو شاید یہ انہونی اس ملک کے عوام کے ہضم نہ ہو پاتی ۔ شاید اسی لیے اس ملک کی ہر دلعزیز عوام پہ رحم کرتے ہوئے حسب سابق کچھ سیاستدانوں نے اس سے اختلاف رائے کا اظہار کر دیا۔ یاد رہے کہ یہ اختلاف رائے " یس سر" کہنے کے وقت سامنے نہیں آ یا تھا۔ یا اگر ذہن کے کسی گوشے میں موجود بھی تھا تو اسے بیان کرنے کی ہمت نہیں ہو پا رہی تھی۔

موجودہ حالات میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 21ویں آئینی ترمیم کے بعد نہ صرف آئین میں ترمیم کر دی گئی ہے۔ بلکہ اس ترمیم نے رویوں کو بھی ترمیم کر دیا ہے۔ اور شاید بھولے عوام کے لیے ترمیم شدہ رویوں کے باعث فیصلہ کرنے میں بھی کافی آسانی ہو گی ۔
پہلے اجلاس میں جو اتفاق رائے پیدا ہوا تھا۔ یہ پیدا کیا گیا تھا۔ وہ 21 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اب نہیں رہا۔

کیوں کہ ہمارا خاصہ رہا ہے کہ ہم متفقہ فیصلے کرنے کے عادی ہی نہیں ہیں۔ رویوں میں ترمیم ہو جانے کے باوجود آئینی ترمیم کا راستہ نہیں روکا جا سکا۔ اور شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اختلاف رائے کے باوجود ترمیم کر دی گئی۔ کیوں کہ "یس سر"۔۔۔۔ اس آئینی ترمیم کا فائدہ شاید آنے والے دنوں میں ہی معلوم ہو پائے گا۔ جب مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہونا شروع ہوں گے۔

لیکن یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ اس آئینی ترمیم کو عوام میں پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اور اس ترمیم کا اصل مقصد تو شاید دہشت پسند عناصر سے زیادہ عوام کی مدد حاصل کرنا تھا۔ کیوں کہ یہ اتنی وسیع جنگ ہے جسے عوام کی مدد کے بغیر تو کسی بھی صورت نہیں جیتا جا سکتا ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس آئینی ترمیم کے بعد سیاستدانوں کے رویوں میں بھی ترمیم ہو گئی ہے لیکن عوام کے دلوں میں موجودہ حکومت کا یقینا مثبت تاثر ابھرا ہے۔ خدا کرے کہ یہ آئینی ترمیم اس ملک کے لیے اچھی نوید لے کر آئے۔ کیوں کہ یہ قوم لاشیں اٹھا اٹھا کر شاید اب تھک چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :