محبت جو ہرآزمائش اورکامیابی کی ضمانت

اتوار 18 جنوری 2015

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

کائنات کاسارا نظام اللہ رب العزت کی اطاعت میں طے شدہ پروگرام کے تحت چل رہاہے۔رات کے بعدصبح سورج کا اپنے وقت پرمشرق سے طلوع ہونا اور صبح سے دوپہرکا نمودار ہونا اور اپنے خاص وقت پر مغرب میں غروب ہونا،چاند،ستارے اللہ کے حکم سے نمودار اور غائب ہورہے ہیں۔کونپل پھوٹ کر پھول بن رہی ہے گرمی،سردی ،بہار،خزاں تمام موسم ایک خاص وقت پربدل رہے ہیں۔

قطرہ سے سمندر ،سمندرسے بادل اوربادل سے بارش، ذرہ سے پہاڑ،آگ،ہوا ، پانی، چیونٹی سے لے کرفرشتوں تک اللہ کی پیدا کردہ ہرمخلوق، اپنے رب کی اطاعت اور فرمانبرداری میں مصروف ہے۔
مگر ہم انسان جنہیں اللہ نے اپنا خلیفہ قراردیا،وہی غافل اور نافرمان ہے ۔ ہم دُنیا دار ناشکرے اوراحسان فراموش انسان جنہیں اللہ رب العزت نے اس زمیں پراپنانائب بنا کر بھیجا تاکہ وہ اس کی عبادت کریں، اسے اپنا واحد رب تسلیم کریں۔

(جاری ہے)

اللہ کے احکامات زمین پر نافذکریں اورعدل وانصاف کریں۔فنا ہوجانے والی چیز دُنیا کی محبت نے ہمیں بے سکون کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری ساری سوچ اور محبت اس عارضی دُنیا تک ہی محدو د ہوکر رہ گئی ہے۔ ہم اس دُنیا میں اس قدر منہمک ہو کررہ گئے ہیں کہ جیسے دُنیا نے کبھی فنا ہونا ہی نہیں اورہم نے ہمیشہ ایسے ہی رہناہے۔جونعمتیں ہمیں عطاء کی گئی ہیں یہ ہمیشہ رہنی ہیں اوران کوکبھی زوال نہیں آنا۔

حضرت عبداللہ ابن عباس  سے روایت کی گئی حدیث پاک کامفہوم ہے "کہ حضورپاک ﷺ نے فرمایادونعمتوں کے بارے میں اکثرلوگ خسارے میں رہتے ہیں یعنی صحت اور فراغت"۔ارشاد ِباری تعالیٰ کا ترجمہ"قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے(کہ وہ عمرعزیزگنوا رہا ہے)" ( سورة العصر)
دُنیا میں ساری کی ساری مخلوقات جنہیں اللہ عزوجل نے اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا۔

سب کی سب اپنے خالق و مالک سے ڈرتی ہیں۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے" اور اپنے پرودگارسے جوان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اورجوانہیں ارشاد ہوتا ہے،اس پرعمل کرتے ہیں"(سورة النحل آیت (50 ۔مگر ہم نے دُنیا ہی کی زندگی کو اصل سمجھ لیا اوراسی کے حصول میں جائز اور ناجائز کے فرق کو بھی بھلادیا۔باوجود سب کچھ کے نہ آرام وسکون اور نہ ہی کوئی کسی حال میں مطمئن نظرآتاہے۔

اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا ہم نے کبھی سمجھنے اور جاننے کی کوشش کی؟ اس ناکامی اور نامرادی کاسبب یہ ہے کہ ہم فانی کی محبت میں مبتلا ہوگئے جس کی حقیقت بے سکونی ہے اورباقی کی محبت کو نظراندازکردیا جودلوں میں سکون واطمینان پیداکرتی ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں دُنیا میں عزت، شہرت ،کامیابی ملے۔پھر اس سب کے حصول کے لئے ہم نے اپنے آپ کو دن رات مصروف کردیا ،ہم نے احکامات الٰہی ،موت اور آخرت جو اصل ہے کو یکسر نظرانداز کردیا۔

ارشادِباری تعالیٰ کا ترجمہ"آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جوسینے میں ہوتے ہیں"(الحج۶۴)ہم میں سے ہرایک کو یہ تو یقین ہے،کہ دوسرے مر کرفنا ہوجائیں گے، مگر اپنے بارے میں کبھی نہیں سوچا کہ میں بھی یہ جہاں چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ حالانکہ ہم نے کتنے جنازے اُٹھتے دیکھے، کتنے ایسے عزیزرشتہ داروں، دوستوں کو اپنے ہاتھوں سے قبرمیں اُتارا۔

وہ کیسے بہن ،بھائی ،رشتہ داروں،دوستوں اوراپنے چاہنے والوں کوروتا چھوڑ کر چلے گئے۔ان کاساراسازو سامان، ان کی جمع پونجی،ان کے خواب اور ان کے سارے منصوبے سب یہیں پڑے رہ گئے ۔ یہ لوگ بھی ہماری طرح دُنیا میں اتنے ہی مصروف تھے، انہیں بھی دُنیا سے اتنا ہی پیار تھا، یہ بھی دُنیا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ مگر جب قضاء کا وقت آیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں جانا پڑا۔

حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہاتھا":موت ایسی چیز ہے جس کا حال معلوم نہیں کہ آ پہنچے،اس لئے پہلے سے تیاری کرلو۔"
دراصل دُنیاصرف اورصرف آزمائش کا مقام ہے، ہمارا ہرکلام اورہرمعاملہ ہمارے لئے آزمائش ہے۔اللہ رب العزت نے قرآن پاک اور نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی ﷺ کے ذریعہ ء سے دُنیا میں زندگی گزارنے کے قوانین وضوابط، ایک دوسرے کے حقوق اورروزمرہ میں پیش آنے والے معاملات جنہیں حل کرتے ہوئے انسان ٹھوکر کھا سکتا ہے کے متعلق اس خوبصورتی اور تفصیل سے آگاہ فرمایا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

حضرت علی  فرماتے ہیں کہ "جوچاہتا ہے مجھے عزت ملے،وجاہت ملے،ہیبت ملے،نام وری ملے تووہ اللہ جل شانہ کی نافرمانی سے باز آجائے اور زندگی آقا محسن انسانیت ﷺ کے طریقوں کے مطابق گزارے۔"قرآن پاک میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ترجمہ"بے شک !تمھارے لئے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔" (سور ةالاحزاب)
بے شک قرآن اس (منزل)کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے درست ہے اور ان مومنوں کوجونیک عمل کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری سناتاہے کہ ان کے لئے بڑا اجرہے ( بنی اسرائیل: 9)۔

جب اس دُنیاوی زندگی کی آزمائش کا وقت ختم ہوجائیگا تو تمام مخفی حقائق ظاہری آنکھوں سے دکھائی دینے لگیں گے،اُس وقت دُنیاسے ہماری بے پناہ محبت،ہمارے لئے افسوس اورپچھتاؤے کا باعث بنے گی۔ اس لئے اب وقت ہے اس مہلت سے فائدہ اُٹھانے کا، اللہ کی طرف رجوع کرنے کا،مہلت ختم ہونے کے بعداللہ پر لایا گیا ایمان اور نیک اعمال کا ارادہ قبول نہیں ہوگا۔

آزمائش کی تکمیل کے بعداس میں کامیاب اور ناکام ہونے والوں کے لئے جزا اور سزا کا اہتمام ہوگا۔اس دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اس دن ذرہ برابر نیکی اور بُرائی کھل کر سامنے آجائے گی۔حتی کہ انسان کے اپنے اعضاء اس کے خلاف گواہی دیں گے۔"اے میرے پیارے بیٹے اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابربھی ہواور ہو بھی کسی پتھرکے اندریا آسمانوں میں یا زمین میں،اللہ اس کو قیامت کے دن لاموجود کرے گا۔کچھ شک نہیں کہ اللہ باریک بیں(اور)خبردار ہے۔ (سورة لقمان،آیت نمبر16) اللہ رب العزت ہمیں اپنی ذات پاک ،اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺکی مکمل فرمانبرداری اور سچی محبت عطاء فرمائے کہ یہی محبت ہرآزمائش اور کامیابی کی ضمانت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :